اسلام آباد+ کراچی (نوائے وقت رپورٹ) ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور جے یو آئی (ف) کے صدر فضل الرحمن کے درمیان ٹیلی فون پر بات ہوئی ہے۔ دونوں رہنمائوں نے ملک کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں رہنمائوں نے اتفاق کیا کہ پاکستان کو اپنی فوج سعودی عرب یا یمن نہیں بھیجنی چاہئے۔ دریں اثناء الطاف حسین نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شریک ارکان کٹھ پتلی سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ یمن اور سعودی عرب کی چپقلش پر پاکستان کا مؤقف کیا ہونا چاہئے۔ میں پاکستان کا ہمدرد اور دوست ہوں۔ بحث میں یہ بات ہوتی رہی ہے کہ سعودی عرب کا ہر قیمت پر دفاع کریں گے۔ پاکستان کو آگے بڑھنے کا کچھ زیادہ ہی شوق ہے۔ سعودی عرب والے بھارت کو بلا لیں کہ آئو ہماری مدد کرو۔ کسی ملک پر جارحیت ہو تو سلامتی کونسل فیصلہ کرتی ہے کہ کن ملکوں کو کام کرنا ہے۔ اجلاس انتہائی غلط ہے۔ عرب لیگ کا مبصر بھارت کو بنایا گیا ہے ہمیں نہیں اگر خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ کی سلامتی کی بات ہو تو میں ہر رکاوٹ توڑ کر وہاں پہنچ جائوں گا۔ ناجائز ارکان اسمبلی کی موجودگی میں سپیکر نے اجلاس کیسے جاری رکھا۔ الطاف حسین نے کہا کہ طلاق لینے پر دوبارہ نکاح کرنا پڑتا ہے اسی طرح استعفیٰ دینے پر بعد دوبارہ الیکشن لڑنا پڑے گا۔ تحریک انصاف والے طلاق لے چکے ہیں۔ تو دوبارہ نکاح پڑھانا ہو گا۔ دوبارہ الیکشن لڑیں۔ انہوں نے کہاکہ جھوٹ میں نہ پڑیں۔ ہماری مدد کو کون آیا؟ کوئی ہماری مدد کو نہیں آیا کسی ملک کی فوجیں ضرب عضب میں حصہ لینے آئیں۔کسی ملک نے ہمارا ساتھ دیا۔ ہم ہی ہیں جو چودھری بنے ہوئے ہیں ابھی تک سعودی عرب کا نقصان نہیں ہوا صرف یمن کا ہوا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو میں انہوں نے کہاکہ یمن اور سعودی عرب کی جنگ میں کچھ لوگ مذہب کو درمیان میں ڈال کر ان دونوں ممالک کی چپقلش کے اصل رخ کو موڑ نا چاہتے ہیں ۔سعودی عرب اور یمن کی جنگ کو میں خصوصاً مسلمانوں کیلئے انتہائی خوفناک اور ہولناک تصور کرتا ہوں۔ اگر یمن اور سعودی عرب کی جنگ میں اپنے خود ملوث کیا گای تو تو اس صورتحال کو پاکستان کے مفاد میں ہرگز قرارنہیں دیا جا سکتا۔ اس جنگ میںملوث ہونے سے یمن اور سعودی عرب توقائم رہیں گے لیکن خدانخواستہ پاکستان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے میری اس ایشو پر گفتگو ہوئی۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ پاکستان کواس جنگ میں مصالحت کار کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ میں اس جنگ میں دونوںممالک کی تباہی اور بربادی دیکھ رہا ہوں ، جنگوںمیں کوئی فریق زیر ہو یا حاوی ہو، دونوںصورتوںمیں دونوں ممالک کی افواج،ان کی معیشت اوران ممالک کے عوام کا نقصان ہوتا ہے لہٰذا میں سعودی عرب اور یمن کی جنگ کو میں صرف ان دونوں ممالک کیلئے ہی نہیں بلکہ دنیا کے کیلئے بھی اچھا نہیں سمجھتا ، خصوصا ً مسلمانوں یا مسلم ممالک کیلئے اس جنگ کوانتہائی خوفناک اورہولناک تصور کرتا ہوں۔ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی نے سات ماہ قبل اپنے استعفے قومی اسمبلی کے سپیکر کے پاس جمع کرائے تھے، آئین کے آرٹیکل 64-1 کے تحت کوئی بھی رکن اپنے دستخط سے اپنا استعفیٰ قومی اسمبلی کے اسپیکر یا سیکریٹری کے پاس جمع کرادے تو آئین کی رو سے اس رکن اسمبلی کی نشست خالی ہوجاتی ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 64-2 کے تحت اگر کوئی رکن اسمبلی بغیر کسی عذر اور تحریری وجہ بتائے 40 روزتک اجلاس سے غائب رہے تو اس کی رکنیت ختم ہو جاتی ہے۔ مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم پاکستان اور وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی کو طلاق دینے والے اراکین کو معزز ایوان میں بٹھاکر اجلاس کیا اورانہیں بطوررکن پارلیمنٹ ایوان میں بیٹھنے کی اجازت دیکرآئین اور قانون شکنی کا عمل کیا ہے اور پاکستان کے ساتھ سنگین مذاق کیا ہے ۔ الطاف حسین نے وقت کا تقاضا ہے کہ نفرت اورعصبیت کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کی بقاء اور سلامتی کو اولیت دی جائے۔ ان لوگوں کو اسمبلی میں بٹھایا گیا جن کی رکنیت حرام ہو چکی ہے۔کارکنوں سے ٹیلیفونک خطاب میں الطاف حسین نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ انکا دل چاہتا ہے حالات ایسے ہوجائیں میں کارکنوں کے درمیان آجاؤں، چاہتا ہوں کارکنوں کو دیکھوں اور کارکن مجھے دیکھیں۔ یمن کے حالات گولہ بارود سے نہیں بات چیت سے حل کریں۔ اللہ تعالیٰ دونوں ممالک کو سوچنے، سمجھنے کی توفیق دے۔ یمن اور سعودی عرب کے درمیان چپقلش چل رہی ہے۔ این اے 246 میں 23 اپریل کو مرد گھر کے کام کریں اور خواتین کو ووٹ کیلئے بھیجیں۔ 23 اپریل کو نتیجہ آئے گا کہ ایم کیو ایم کامیاب ہو گئی۔ ایم کیو ایم کے خلاف تحریک انصاف کی ریلی پر کارکنوں نے حملہ نہیں کیا۔ پی ٹی آئی کی رسوائی سب کے سامنے ہے جو کل کہہ رہے تھے اسمبلیوں میں نہیں جائیں گے اب چلے گئے۔ 40 دن غیر حاضر رہنے پر اسمبلی رکنیت ختم ہو جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے ارکان تھوک چاٹ کر قومی اسمبلی میں گئے۔ اسمبلی کو جعلی کہنے والے اسمبلی جا پہنچے۔