اسلام آباد (عترت جعفری) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اگرچہ زیادہ تر وقت مسلم لیگ(ن) ‘ ایم کیو ایم‘ جے یو آئی کے تحریک انصاف کے ایوان میں آنے پر اسے مطعون کرنے میں صرف ہو گیا تاہم قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر‘ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف ‘ تحریک انصاف‘ ایم کیو ایم‘ جے یو آئی کے رہنماؤںکی تقاریر سے واضح ہو گیا ہے کہ یہ جماعتیں امن کے لئے مذاکرات کو موقع دینے کے حق میں ہیں۔ یمن کے اندر پاکستان مسلح افواج کی مداخلت کے حق میں نہیں‘ جبکہ سعودی عرب کے اندر بھی افواج بھیجنے کی صورت میں بھی واضح پیرا میٹرز چاہتی ہیں۔ وزیر دفاع نے جب نکتہ اعتراض پر تحریک انصاف کی جانب سے الفاظ کی بمباری کی اس وقت مسلم لیگی ارکان کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ ایم کیو ایم اور جے یو آئی کے ارکان بھی خوب ڈیسک بجاتے رہے۔ایسے لگ رہا تھا کہ وہ گزشتہ 6 ماہ کا غصہ ایک ہی دن میں نکالنا چاہ رہے ہیں۔ ان کے سامنے آئندہ ایک دو روز اس اتفاق رائے کی کوئی حیثیت نہیں جو یمن کی صورت حال میں ایک متفقہ قرارداد کے لئے ضروری ہے۔ حکومت کو ایک دو روز میں اس کی تپش ضرور محسوس ہو گی۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے تحریک انصاف کے ارکان کو اجنبی قرار دیا اور کہا کہ ہم واک آؤٹ کرتے ہیں تاہم سپیکر نے کہا کہ پہلے مجھے سنیں اور پھر واک آؤٹ کے بارے میں فیصلہ کریں۔ ایک دوسرے موقع پر جب تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے ارکان کا آمنا سامنا ہو گیا تو تحریک انصاف کے ارکان نے نائن زیرو سے مجرموں کی گرفتاری کا ذکر کر دیا تو ایم کیو ایم نے ’’جو طالبان کا یار ہے غدار ہے غدار ہے‘‘ کا نعرہ لگا دیا۔