پاکستان نے یمن بحران میں براہ راست مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا

Apr 07, 2015

اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) پاکستان نے یمن بحران کے پس منظر میں سعودی عرب کے دفاع و سلامتی کی ضروریات ، جزیرہ نماء عرب میں سلامتی کی صورتحال، اور ملک کے اندر عوامی آراء و ارکان پارلیمنٹ کی رائے کا جائزہ کم و بیش مکمل کر لیا ہے۔ ایک مستند ذریعہ کے مطابق ان تمام جائزوں کے نتیجہ میں جو دو رخی پالیسی وضع کی گئی ہے اس کے مطابق  دفاع و سلامتی کے شعبوں میں تینوں مسلح افواج کیلئے سعودی عرب کی تمام ضروریات پوری کی جائیں گی لیکن پاکستان کی مسلح افواج یمن میں نہ تو داخل ہوں گی اور نہ ہی اس بحران میں کسی طریقہ سے براہ راست فوجی مداخلت کی جائے گی۔ اس پالیسی کے دوسرے رخ کے تحت سعودی عرب کے دفاع کو یقینی بنانے کے علاوہ ،پاکستان یمن بحران کے سیاسی حل کی حوصلہ افزائی کرے گا اس سلسلہ میں ترک صدر کے ایک روز میں شروع ہونے والے دورہ ایران اور ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان سے امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں۔پاکستان کی اس مجوزہ پالیسی کے بارے میں حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میںبیان متوقع ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مسلح افواج کی فراہمی کے علاوہ، سعودی عرب کو اپنے دفاع کیلئے درکار اسلحہ اور گولہ بارود کی ضروریات بھی پوری کی جائیں گی۔ اس ضمن میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز کی پیداواری استعداد کا جائزہ بھی لیا جا چکا ہے۔ اس ذریعہ کے مطابق سعودی عرب کو یمن اور عراق کی سرحد پر تعیناتی کیلئے فوج درکار ہے تاکہ ان دونوں سرحدوں کی حفاظت سے بے پروا ہو کر اس کی ضرورت پڑنے پر یمن کی طرف سے لاحق خطرات کا مقابلہ کر سکے۔ اس سلسلہ میں سعودی عرب کو بری فوج کے دستوں کے علاوہ انسٹرکٹر بھی درکار ہیں جو اس نازک صورتحال میں اس کی فوج کی تربیت کا کام بھی جاری رکھیں ۔ سعودی عرب کی قیاد ت میں خلیجی ملکوں کی فضائی افواج نے یمن میں میں نو فلائی زون قائم کر کے باغیوں کے خلاف بھرپور مہم شروع کر رکھی ہے۔اپنی فضائی دفاع کی ضروریات کیلئے سعودی عرب کو سردست نصف سکواڈرن لڑاکا طیاروں کی ضرورت ہو گی ۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے پاکستان جے ایف سیونٹین یا میراج فائیو طیارے سعودی عرب بھجوا سکتا کیونکہ امریکہ کے ساتھ معاہدہ کی وجہ سے ایف سولہ طیاروں کی سعودی عرب تعیناتی ممکن نہیں ہو گی۔جہاں تک بحریہ کی ضروریات کا تعلق ہے تو پاکستان فی الحال ایک چینی ساختہ فریگیٹ سعودی پانیوں میں بھجوانے پر غور کر رہا ہے۔ اس ذریعہ کے مطابق یمن بحران کے ایک نہایت نازک پہلو پر غور نہیں کیا جا رہا اور وہ یہ پہلو ہے کہ اگر مسلح جتھے سعودی عرب کے دفاع میں شگاف ڈال کر ملک کے اندر داخل ہو جاتے ہیں تو اس کے اثرات پوری اسلامی دنیا پر محیط ہوں گے کیونکہ پھر حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے مقابلے میں نکلنے والی ملیشیائوں کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ چنانچہ اس موقع پر سعودی عرب کے دفاع کو مستحکم کرنا سب کے مفاد میں ہے۔

مزیدخبریں