’’جی آیاں نُوں‘‘۔ عمران خان!

 سات ماہ بعد ’’بعد از خرابی بسیار‘‘ پاکستان تحریکِ انصاف کے منتخب ارکان کی قومی اسمبلی کے ایوان میں واپسی کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ اُن کی واپسی کا سب سے زیادہ کریڈٹ سپیکر قومی اسمبلی جناب ایاز صادق کو جاتا ہے، جنہوں نے عمران خان اور اُن کی پی  ٹی  آئی  کے ارکان کے استعفوں کو منظور کرنے میں عُجلت نہیں دکھائی۔ انہیں ’’امانت‘‘  سمجھ کر اپنے پاس رکھا اور اُن کی دِل و جان سے حفاظت کی۔ مسلم لیگ ن کے کئی لیڈروں اور وزیراعظم کے اتحادیوں مولانا فضل الرحمن وغیرہ اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے قائدین نے جنابِ سپیکر پر بہت زور دیا کہ ’’جب پی  ٹی  آئی  کے لوگ بہ رضا ورغبت استعفیٰ دے چُکے ہیں تو انہیں منظور کرنے میں دیر کیوں؟‘‘  بعض لوگ تو اِس طرح کی افواہیں بھی پھیلارہے تھے کہ ’’استعفے محض ڈرامہ ہے اور وزیراعظم نواز شریف اور عمران خان میں باقاعدہ "Deal"  ہو چکی ہے‘‘۔
وزیرِ اعظم نواز شریف   عمران خان کے ساتھ کرکٹ کھیلتے رہے ہیں اور جناب ایاز صادق اُن کے ساتھ ہاکی۔ کہا جاتا ہے کہ ’’کرکٹ بائی چانس‘‘  اور  ’’ہاکی بائی چالاکی‘‘۔ میاں نوا ز شریف نے جناب عمران خان سے دوستی کرنے کا چانس اُس وقت لِیا تھا جب 7مئی 2013ء کو جناب عمران خان لاہور میں جلسہ گاہ کے سٹیج پر جاتے ہُوئے 15فُٹ کی بلندی سے گِر کر سنبھل گئے۔ یہ خبر سُن کر میاں صاحب نے مسلم لیگ ن کے انتخابی مہم منسوخ کر دی تھی اور دوسری بار دوستی کا چانس اُس وقت لِیا جب 11مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمن نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا کہ ’’اگر آپ چاہیں تو خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ ن، جے یو آئی(ف) اور دوسری جماعتوں کو مِلا کر ہم اپنی مخلوط حکومت بنا سکتے ہیں‘‘۔ لیکن میاں راضی نہیں ہُوئے۔ انہوں نے عمران خان کے مینڈیٹ کا احترام کِیا۔
پھر یہ ہُوا کہ؟  مسلم لیگ ن کے وفاقی اور صوبائی وزراء نے عمران خان کے خلاف جُگت بازی کا بازار گرم کِیا اور دوسری طرف عمران خان سے زیادہ عمران خان کے وفاداروں نے حقِ وفاداری نبھایا۔ پھر بات بگڑ گئی۔ کینیڈین ’’شیخ الاسلام‘‘ علّامہ طاہر القادری نے دخل دَر معقولات کِیا اور اپنا  ’’انقلاب کا مرغِ دست آموز‘‘   لے کر پاکستان آ گئے اور اپنے کئی عقیدت مندوں کوموت کی گود میں سُلا کر واپس چلے گئے۔
سپیکر ایاز صادق صاحب نے لڑکپن میں ہاکی کھیلتے وقت جناب عمران خان کے گال پر ہاکی مار دی تھی وہ چالاکی سے نہیں بلکہ "By Chance"  لگ گئی تھی  جِس پر انہوں نے معذرت بھی کر لی تھی۔ شاید اُس نادانستہ غلطی کی تلافی کرنے کے لئے اُنہوں نے  ’’مُلک اور قوم کے مفاد میں‘‘۔ عمران خان اور اُن کے ساتھیوں کے استعفوں کو ڈبّے میں بند کر کے محفوظ کر لیا تھا۔ اِس سے قبل شاعرِ سیاست نے اپنے ’’سیاسی ماہیا‘‘  کے ذریعے جناب ایاز صادق کو مُفت مشورہ دیتے ہُوئے کہا تھا کہ   ؎
’’سانبھ رکّھِیں سجّا  کھبّا  ماہِیا!
 کِدھرے گواچ نہ جاوے!
 اِستِعفیاں دا  ڈبّا ماہِیا؟‘‘
جنابِ ایاز صادق کو چاہیے کہ وہ اب اُن استعفوں کو   دریا بُرد کر دیں  لیکن یہ تسلّی کرکے کہ دریا میں پانی ہے یا نہیں؟  اِس لئے کہ ہمارے دریائوں کی ’’ٹونٹی‘‘  کھولنے اور بند کرنے کا اختیار تو بھارت کے ہاتھ میں ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ’’اب ہم قومی اسمبلی کے ایوان میں ’’حقیقی اپوزیشن‘‘  کا کردار ادا کریں گے‘‘۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہوں گے کہ سیّد خورشید  احمد  شاہ  کی  قیادت  میں  اپوزیشن  حقیقی نہیں۔ ’’دوستانہ‘‘ (Friendly) ہے۔ ہر دَور کی ہر اپوزیشن کا کردار مختلف ہوتا ہے۔ فیلڈ مارشل صدر ایوب خان مسلم لیگ کنونشن لیگ کے صدر تھے اور ان کے حقیقی چھوٹے بھائی کونسل مسلم لیگ کے ایک لیڈر سردار بہادر خان قومی اسمبلی میں قائدِ حِزب اختلاف۔ ایک دن نہ جانے اُنہوں نے کِس ترنگ میں کہہ دِیا تھا کہ …
’’یہ راز تو کوئی راز نہیں
 سب اہلِ گُلستاں جانتے ہیں
ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے
انجامِ گُلستاں کیا ہوگا؟‘‘
اُس کے بعد سردار بہادر خان اپنی والدہ محترمہ کے کہنے پر سیاست سے آئوٹ ہو گئے۔ عمران خان نے اگر قومی اسمبلی میں حقیقی اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی تو شاید سیّد خورشید شاہ کے کندھوں کا بوجھ کچھ کم ہو جائے لیکن انہیں حکومتی پارٹی سے زیادہ اُس کے اتحادی لِیڈر مولانا فضل الرحمن کا مقابلہ در پیش ہو گا۔ عمران خان جان لیں کہ مولانا انہیں اِس بات کے رعایتی نمبر نہیں دیں گے کہ وہ مولانا صاحب کی اقتداء میں نماز پڑھ چکے ہیں۔ یوں بھی مولانا فضل الرحمن کو صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں  ’’حقیقی اپوزیشن لیڈر‘‘  بنے رہنے کا تجربہ ہے۔ 2002ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرئنز (پی پی پی پی) حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت تھی لیکن صدر جنرل پرویز مشرف کی ہدایت پر سپیکر چودھری امیر حسین نے مولانا فضل الرحمن کو قائدِ حزبِ اختلاف نامزد کر دیا تھا۔
اُس دور کے وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر شیر افگن خان کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ  ’’مولانا فضل الرحمن کو اِس لئے قائدِ حزبِ اختلاف نامزد کِیا گیا ہے کہ وہ صدر جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کی حمایت کریں گے‘‘۔  مولانا فضل الرحمن اُس وقت ایوان میں موجود نہیں تھے لیکن جے  یو آئی  (ف) کے دوسرے منتخب ارکان موجود تھے۔ مِیڈیا نے ڈاکٹر شیر افگن کے اِس بیان کو خوب اُچھالا تھا لیکن مولانا صاحب نے اِس بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن جناب عمران خان کو ’’یہودیوں کا ایجنٹ‘‘  کہہ کر چھیڑتے رہے ہیں  اور ’’جوابِ آں غزل‘‘  کے طور پر کہا کرتے ہیں کہ ’’مولانا فضل الرحمن کے ہوتے ہُوئے یہودیوں کو پاکستان میں کسی دوسرے ایجنٹ کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
علامہ طاہر القادری کی عوامی تحریک کا کوئی بھی رُکن پارلیمنٹ میں تو کیا ’’موری ممبر‘‘  بھی نہیں لیکن خیبر پختونخوا کی حکومت کے علاوہ عمران خان کی پارٹی کی اچھی خاصی اکثریت قومی اسمبلی میں موجود ہے۔ دھرنا سیاست سے ملکی معیشت کو کافی نقصان پہنچا لیکن نوجوان طبقہ میں عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہُوا۔ انہیں لہو گرم رکھنے کا بہانہ مِل گیا اور اب کراچی کے حلقہ این  اے 246 کے ضمنی انتخاب میں پی  ٹی  آئی  کا ایم  کیو  ایم  کو چیلنج ایک بہت بڑا معرکہ بننے جا رہا ہے۔ دونوں طرف سے جارحانہ انداز اختیار کیا جا رہا ہے اور فوج کے زیرِ اہتمام انتخاب کرانے کا مطالبہ بھی  ایم  کیو ایم کو اِس طرح کی سیاسی پارٹی اور صورتِ حال کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔
عمران خان  پختون ہیں اور پنجابی بھی۔ اُن کے امیدوار کو اِس انتخابی حلقے سے پنجابی اور پختون ووٹروں کے ووٹ مِل سکتے ہیں اور کسی حد تک سندھیوں کے بھی لیکن اگر پی  ٹی آئی  کا امیدوار ہار بھی گیا تو اِس کا اثر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ووٹروں پر ضرور پڑے گا۔ اور جب پی  ٹی  آئی کے پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے عمران خان قومی اسمبلی کے ایوان میں اپنی ’’دھرنا دھار‘‘  تقریر یں کریں گے تو فی الحقیقت وہی حقیقی اپوزیشن لیڈر بن کر اُبھریں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق صدر آصف زرداری اور اُس دَور کے وزیرِ اعظم سیّد یوسف رضا گیلانی راجا پرویز اشرف اور دوسرے قائدین کے خلاف بڑے پیمانے پر کرپشن کے مقدمات زیر التوا ہیں۔ اِس لئے ’’جمہوریت کے تسلسل‘‘  کے لئے سیّد خورشید احمد شاہ وہ کردار ادا نہیں کر سکیں گے جو عمران خان کر سکتے ہیں۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ  عمران خان ’’حقیقی اپوزیشن لیڈر‘‘  کا کردار ادا کریں گے ’’جی آیاں نوں! عمران خان!‘‘۔
سیاستدان سعودی عرب‘ یمن مسئلے پر بات کی بجائے باہمی مخالفتوں پر بحث کرتے رہے‘ اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے مشترکہ اجلاس کی مذمت
جدہ (امیر محمد خان سے) سعودی عرب  میں افواج بھیجنے کے مسئلے اور مسئلہ  یمن  پر  بلائی جانے والے  پارلیمنٹ کے   مشترکہ  سیشن میں سیاستدانوں نے اپنے عزیز ترین دوست سعودی عرب کے اہم مسئلے  پر بات کرنے کے بجائے، پاکستانیوں  کی دل کی خواہشات، سعودی عرب سے پاکستان  اور عوام کی محبت  کا اظہار کرنے بجائے جس طرح اپنی آپس کی سیاسی و ذاتی مخالفتوں کا اظہار  کر کے ناصرف  پاکستان بلکہ پاکستان  کے عوام   کی سخت توہین کی ہے  جس کی ذمہ دار  پاکستان کی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتیں ہیں، اہم مسئلہ جو  ہمارے عزیز ترین دوست،  حرمین الشرفین کی حفاظت سے متعلق ہے، نیز  سعودی عرب میں موجود بیس لاکھ  سے زائد  برسرروزگار پاکستانی جن سے  کئی کروڑ  پاکستانی اور  ان کے اہل خانہ   کا مستقبل منسلک ہے کو پس پشت ڈال کر  نہایت  غیر مذہب انداز میں  مشترکہ اجلاس میں دنیا کو تماشہ دکھایا،  سعودی عرب میں موجود پاکستانی  ان تمام  لوگوں اور سیاسی جماعتوں کی  سخت مذمت کرتے ہیں،  مسلم لیگ کے صدر  چوہدری جعفر حسین،  مسعود احمد پوری، پاکستان جرنسلٹ فورم کے  عہدیداروں، پاکستان کرسچین کمیونٹی،  انجینئر فورم اور سماجی تنظیموں نے  سیاستدانوںکے اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔  بیان میںکہا گیا ہے کہ پی پی پی  کا مسئلہ ہے وہ  مختلف مسائل پر  مسلم لیگ کی حکومت  کو بلیک میل  کر رہے ہیں  پاکستان کے عوام کی توقع ہے کہ حکومت   پاکستان  افواج پاکستان کی رائے سے فوری طور پر  عزیز ملک  سعودی عرب  کی سرزمین، حرمین الشرفین کی حفاظت کیلئے فوری مسلح افواج بھیجیں چونکہ پاکستان  کی پارلمنٹ  ذاتی مفادات سے بھرپور  ہے جو قومی مفادات کو بالائے طاق رکھ  آپس کے اختلافات  کو  وہاں پیش  آپس میں دست  و گربیاں ہیں۔ یہاں موجود پاکستانیوں نے پاکستان میں آج کے اجلاس میں موجود سیاست دانوں کو   چوڑیوں کے تحفے بھیجے ہیں۔ جو یہ نہیں جانتے کہ  بین الاقوامی  معاملات اور ملکی مفادات کیا ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...