ڈراپ سین

’’ایک بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ مخالفین منہ تکتے رہ گئے ہم نہ کہتے تھے۔
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
مگر حکمران کہتے رہے آئین کے غدار کو قرار واقعی سزا دئیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ آخر وہی ہوا جو ہم نے کہا تھا۔ مشرف دبئی میں لہراتی کرسی پر بیٹھا سگار پی رہا ہے اور مخالفین تکلیف سے کڑھ رہے ہیں اور وضاحتیں پیش کر رہے ہیں،، ہمارے دوست ملا عارفی نے بغلیں بجاتے ہوئے کہا۔ ہم نے جواب دیا ’’مشرف کو حکومت نے ٹانگ کے نیچے سے گزار کے باہر بھیجا ہے وہ تو ایک دن پہلے پرواز کے لئے تیار تھا۔ حکومت نے اپنی رٹ قائم کی باقاعدہ درخواست پر حکم جاری کیا اور اس کا نام ایگزٹ لسٹ سے نکالا باضابطہ قانون کے سامنے سر تسلیم خم کروانے کے بعد جانے دیا۔ حکومتی میک اپ تو اسی دن اتر گیا تھا جس دن وہ کراچی جا بیٹھا۔ عدالتیں اسے بلا بلا کر تھک گئیں کئی بار ناقابل ضمانت وارنٹ نکالے لیکن مشرف عدالت میں نہیں آیا حکومت اسے کراچی سے اسلام آباد نہ لا سکی مگر رانا ثناء اللہ راگ بھیرویں میں کہتے ہیں بروقت ضرورت اسے دبئی سے بذریعہ انٹرپول گرفتار کر کے لے آئینگے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہو گیا کہ مشرف کی روانگی کو باقاعدہ اہم ایونٹ بنا دیا گیا۔ ٹکر، بریکنگ نیوز کی باڑھ ، مسلسل رننگ کمنٹری اور مباحثے ۔ جناب! یہ خبر تو نسلی تحفظ کے تحت چھوڑی گئی چیل یا گدھ جیسی معمولی ہونی چاہئے تھی۔ ایک آدھ بے رعب سا اہلکار پنجرے کا دروازہ کھولتا اور پرندہ پر پھیلا کر اڑ جاتا اس سے زیادہ سین کی ضرورت نہ تھی۔ بھئی جو کرنا تھا خاموشی اور آئی ایس پی آر کی طرح دو لائنوں کی ٹویٹ کر دیتے۔ ’’سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مشرف کی بیماری کی درخواست پر انسانی ہمدردی کے تحت حکومت نے اس پرندے کو اڑنے کی اجازت دے دی،، اللہ اللہ خیر صلا۔ یہ جو ایک دن لٹکایا، درخواست مانگی، غور و خوض کیا، اعلیٰ ترین سطح پر صلاح و مشورے ہوئے اس سارے عمل نے عوام کو خواہ مخواہ قیاس آرائی اور اندازے لگانے کا موقع دے دیا۔ اس طرح جوئے بازوں کو اپنا دہندہ کرنے کا موقع بھی مل گیا۔ اس پر اضافہ ہوا کہ ڈرامے کو کلائمیکس باقاعدہ پریس کانفرنس کے ذریعہ مل گئی۔
سر آغاز کچھ کرتب چلیں گے
تماشا ڈگڈگی کے بعد ہو گا
ٹی وی چینلوں کو اللہ دے! پے درپے اندازے۔ بیٹا ہو گا یا بیٹی؟ نتیجہ سب کو معلوم تھا مگر شغل خوب چلا! پریس کانفرنس کیا تھی غسل آفتابی تھا۔ وزیر داخلہ نالاں تھے اور بے بس بھی ناراضی بناوٹی تھی جس کا کھل کر اظہار کیا مگر بے بسی اصلی تھی جسے بہت چھپایا۔ مگر صحافیوں نے سب کچھ تار تار کر دیا۔ وزیر داخلہ نے جب یہ وضاحت کی کہ وزیراعظم نے پرویز مشرف کو معاف کر دیا ہے۔ تو یوں لگا جیسے وہ بھاگتے مشرف کو پھولوں کا گلدستہ پیش کر رہے ہیں۔ اس کھسیانے اعتراف کے اعادے کے پیچھے کیا حکمت یا مصلحت تھی؟ یک طرفہ معافی کا یہ انداز ہر لحاظ سے انوکھا تھا کہاں چھوڑتے نہیں تھے کہاں معافی شافی۔ اسے کہتے ہیں سرچڑھی بوکھلاہٹ!اس ساری دلدل کے موجد چودھری افتخار (سوموٹوفیم) اور وکلاء کا ایک گروہ تھا۔ جس نے اپنے دشمن کو مردہ سانپ کی طرح حکومت کے گلے میں ڈالا۔ حکمرانوں نے اسے اپنی جیت کی ٹرافی گردانتے ہوئے بالا سوچے سمجھے کبڈی کبڈی کا نعرہ لگا دیا۔ حالانکہ وہ پہلے بھی ایسے ہی دنگل کے عواقب سے آگاہ تھے۔ مگر شیر بنو شیر! کے نعروں نے ان کی سوئی ہوئی طاقت کو جگا دیا۔ لیجئے! کھیل شروع ہو گیا۔ سپیشل اکھاڑہ ، چار دیواری، پانی چھڑکنے والے، مٹھی چانپی کرنے والے، للکارنے والے، بات بات پر چھٹی کا دودھ ٹپکانے والے فنکار، حتیٰ کہ بانسری، ڈھول تاشے بجانے والے بھی میدان عمل میں آ گئے۔ گلیوں محلوں کے پٹھوں پر سب سے بڑی بحث یہ تھی اب کیا ہو گا؟ آئین کے غدار کو پھانسی ملے گی۔ سب کی روح کو چین آ جائے گا۔ مہنگائی لوڈشیڈنگ ختم ہو نہ ہو۔ مشرف کو ضرور لٹکانا چاہئے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے سب دکھ دور ہو جائینگے۔ سٹیل مل چل پڑیگی۔ خزانہ بھر جائیگا ! دن گزرتے گئے کیا کیا موڑ آئے! ایک وقت آیا کہ مقدمہ سنبھالنا مشکل ہو گیا حکومت کو اپنا پیٹ اُٹھانا دو بھر ہو گیا۔ کھایا پیا سب کچھ زہر باد ہو چلا۔ بالآخر ۔ آخر کسی سیانے نے پھکی دی تو جان بچی۔ مگر زہرباد کا اثر کافی دیر چلا ابھی تک نیند اور آرام میں خلل ہے۔ حکمرانی کیلئے جن دو خوبیوں پر زور دیا گیا ہے وہ ہیں دور اندیشی اور بہادری! لگتا ہے ہمارے حکمرانوں میں یہ دونوں صفات موجود ہیں مگر دونوں کا بروقت استعمال انہیں نہیں آتا۔

ای پیپر دی نیشن