پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ابھرنے والے حساس نشانات

گزشتہ چند دنوں سے پاکستانی منظرنامے پر کچھ ایسے نشانات ابھر رہے ہیں جن کے اثرات مستقبل میں ظاہر ہوسکتے ہیں۔ اِن میں سے بعض کو زیربحث لاتے ہیں۔ ایک زمانے میں ایران اور پاکستان کے تعلقات بہت تلخ ہوگئے تھے۔ اُس کی وجہ ایران کی پاکستانی سرزمین پر مبینہ مداخلت تھی۔ اس کے ثبوت کے لئے بلوچستان میں پکڑے جانے والے ایرانی لٹریچر اور دوسرے ممنوعہ سازو سامان کی خبریں سامنے آئیں۔ تاہم دونوں ملکوں کے درمیان خطرناک کشیدگی کوکم کرنے کے لئے حکومتوں کی جانب سے کوششیں کی گئیں جس کے نتیجے میں سردمہری کسی حد تک ختم ہوگئی یا دب گئی۔ البتہ افغانستان میں موجود طالبان کے حوالے سے کبھی کبھار ایران کے ماتھے پر سلوٹیں ضرور نظر آتیں لیکن معاملہ سفارتی حدود پار نہ کرتا۔ ایران اور پاکستان کے مبینہ متضاد مفادات کی دوسری واضح لہر اُس وقت سامنے آئی جب گوادر پورٹ کے مقابلے میں ایران نے بھارت کی مدد سے اپنی چابہار بندرگاہ کو ڈویلپ کرنا شروع کیا۔ اس معاملے میں پاکستانی نقطہ نظر کے مطابق دو حساس پہلو تھے۔ پہلا یہ کہ چابہار بندرگاہ کی صورت میں پاکستانی گوادر پورٹ کو بظاہر چیلنج کیا جارہا تھا۔ دوسرا یہ کہ ایرانی بندرگاہ چابہار کی تعمیر میں بھارت شامل تھا۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ کوئی بھی ملک اپنی حدود میں تعمیراتی کام کرنے کے لئے آزاد ہے تب بھی یہ معاملہ پاکستان کے لئے اُس وقت مشکوک ہوجاتا ہے جب اُس کی تعمیر میں بھارت شامل ہو ۔ اگر بھارت 1981ء میں سائوتھ پول کے برف پوش براعظم انٹارکٹیکا پر سائنسی تجربات کا بہانہ کرکے اپنی ٹیمیں بھیجے تو اُس کا مقصد اُن تجربات سے فائدہ اٹھا کر سیاچن کے لئے تیاری کرنا ہوسکتا تھا کیونکہ اس کے بعد ہی بھارت نے سیاچن پر قبضہ کیا۔ چہ جائیکہ بھارت پاکستان کی ہمسائیگی میں کسی دوسرے ملک کی تعمیراتی مدد کی آڑ لے تو تجزیہ کرنا مشکل نہیں کہ اس سے بھارت پاکستان کو گھیرنا چاہتا ہے۔ ایرانی بندرگاہ کی تعمیرمیں بھارتی مدد کے بعد انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو کی بلوچستان سے گرفتاری کا معاملہ قابل ذکر ہے۔ یہ انڈین جاسوس بھی بظاہر ایران میں اپنا بزنس کرتا تھا۔ طالبان کے لیڈر ملا اختر منصور بلوچستان میں ایک امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔ وہ بھی اُس وقت ایران سے ہی آرہے تھے۔ ان تمام معاملات کے باوجود پاکستان نے ایران کو بہت اہمیت دی۔ یہاں تک کہ پاکستان نے سعودی عرب سے اپنے تعلقات کو دائو پر لگاکر ایرانی خوشی کے لئے سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے اسلامک ملٹری الائنس میں پہلے اپنی شمولیت کو محدود کیا اور پھر جنرل راحیل شریف کے اُس ملٹری اتحاد کا کمانڈر انچیف بننے کی خبروں کو ٹھنڈا رکھا لیکن خیرسگالی کے اِن اقدامات پر ایران کی جانب سے کوئی خاص گرم جوشی کا ردعمل کبھی ظاہر نہیں ہوا۔ مثلاً افغانستان سے پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے ایران نے کوئی سفارتی مدد نہیں کی۔ اور تو اور بعض عناصر نے جنرل راحیل شریف کے اسلامک ملٹری الائنس کے کمانڈر انچیف بننے کے معاملے کو بھی پاکستان میں فرقہ واریت سے جوڑنا شروع کردیا لیکن لیاری گینگ کے سرغنہ عزیر بلوچ کی حالیہ تفتیشی رپورٹ پر چونکنا لازمی ہوگیا کیونکہ اس میں بتایا گیا ہے کہ عزیر بلوچ بھارتی خفیہ ایجنسی را اور ایرانی خفیہ ایجنسی کے ساتھ رابطے میں تھا۔ پاکستانی حساس اداروں کی طرف سے ایرانی خفیہ ایجنسی کا پاکستان میں روابط کا ذکر کرنا اس بات کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے کہ صبر کا پیمانہ کہیں لبریز نہ ہوجائے۔ گویا ایران اور پاکستان کے درمیان ابھرنے والے حالیہ نشانات مستقبل میں اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف اسلامک ملٹری اتحاد کے کمانڈر انچیف بن گئے ہیں۔اگر 39 ممالک کے اِس ملٹری اتحاد کے آئین میں نیٹو کی طرح یہ لازمی شق شامل ہوگئی کہ کسی بھی ایک اتحادی ملک پر حملہ سارے اتحادی ملکوں پر حملہ تصور ہوگا تو اس سے پاکستان کو بھارتی جارحیت کنٹرول کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ جنرل راحیل شریف پاک فوج کی پراڈکٹ ہیں۔ اُن کا تعلق شہداء کے خاندان سے ہے۔ پاک فوج کشمیر کو کبھی نہیں بھول سکتی۔ اس لئے جنرل راحیل شریف بائی ڈیفالٹ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے اس ملٹری اتحاد کے ذریعے نفسیاتی پریشر بھی ڈویلپ کریں گے۔ اسی لئے بھارت ہرموقع پر اسلامک ملٹری اتحاد کی لیڈر شپ پاکستان کے پاس جانے کی مخالفت جاری رکھے گا۔ لہٰذا جنرل راحیل شریف کا اسلامک ملٹری اتحاد کا سربراہ مقرر ہونا مستقبل کے اثرات سے خالی نہ ہوگا۔ فاروق عبداللہ کا کشمیری مجاہدین کے حق میں آواز بلند کرنا بظاہر کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت نظر آتی ہے لیکن فاروق عبداللہ جیسی ناقابل اعتماد اور مشکوک شخصیت کو بھارت تحریک آزادی کشمیر میں پلانٹ کرکے اس کے مومینٹم کو سبوتاژاور ہائی جیک کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ اب بیرونی معاملات کے اثرات کے بعد کچھ اندرونی معاملات کے اثرات کی بات بھی کرلیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں عمران خان نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی خبر بریک کی تو جہاں کچھ لوگوں کے منہ لٹک گئے وہیں کچھ لوگوں کے کان بھی کھڑے ہوگئے۔ عمران خان کے چہرے کی لالی اُس وقت دیدنی تھی جب انہوں نے میڈیا والوں کو اس ملاقات کی خوشخبری سنائی۔ پی ٹی آئی کا یہ شیوہ ہے کہ وہ ہرخبر کی تشریح اپنی خواہش کے مطابق اپنے انداز سے کرتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات کہ پی ٹی آئی ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنی خوشی میں خود ہی رنگ میں بھنگ ڈال گئی جب نعیم الحق نے 2013ء کے انتخابات کے نتائج میں سعودی عرب، امریکہ اور جنرل کیانی کو ملوث کر دیا۔ اس کے علاوہ ملک کے اندر کے ماحول میں کچھ ایسی غیر محسوس آوازیںبھی سنائی دینے لگی ہیں جوانتہا پسندوں کے ساتھ سخت موقف کی بجائے ان سے مذاکرات کی حمایتی لگ رہی ہیں۔ ان باتوں کے علاوہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا حالیہ دورہ برطانیہ مختلف پہلوئوں سے بہت اہم ہے۔ جہاں انہوں نے پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کیا وہیں اندرونی و بیرونی دنیا کو کچھ پیغامات بھی دیئے جنہیں ڈی کوڈکرنا ضروری ہے۔ ایران اور پاکستان کے تعلقات کا حالیہ موڈ ہو، جنرل راحیل شریف کا اسلامک ملٹری اتحاد کا کمانڈر انچیف بننا ہو، فاروق عبداللہ کا کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنا ہو یا دوسرے کچھ معاملات کا ظاہر ہونا ہو، یہ سب پاکستانی منظرنامے پر ابھرنے والے ایسے نشانات ہیں جن کے اثرات مستقبل میں مرتب ہوسکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن