ہاں یہ پوجا مرے گھر صبح و مسا ہوتی ہے

صاحب عقل کا دائرہ فکر کیا ہے؟ پھر صاحب اختیار کا دائرہ کتنا ہوتا ہے اور عمل کی قوت کا استعمال کیسے ہو؟ قومی زندگی میں دانشور کے قلم کی فضاءمیں وسعت کا کتنا امکان پایا جاتا ہے؟یہ آخری سوال بہت اہم اور دنیائے فکر و عمل کی تر و تازگی کیلئے ہر دور میں فکر توانا اور جذباتِ صالحہ کا نقیب رہا ہے۔اہل قلم دانشور ماضی کی اصلاحی روایات کو الفاظ کی قوتِ متحرکہ کا لباس پہنا کر نسل نو تک منتقل کرتے ہیں۔ یہ اہم ترین فریضہ ہے جو اہل قلم دانشوروں کو تاریخ اور عمرانیات کی فطرت نے سونپا ہے۔افکار، واقعات، شخصیات میں تفریق و وضاحت کا رویہ ترتیب کلام میں بہت سہولت پیدا کرتا ہے اور دائرہ عقل میں یہ ضروری امتیاز و تفریق موجود رہنا بھی تو تقاضہ عمرانیات ہے۔اختیار قلم صرف حکم تک تو محدود نہیں ہے۔ حکم نافذ بذریعہ قلم آسان ہے لیکن قلم کا دائرہ اختیار اگر میدان اصلاح و حق گوئی پر وارد ہو تو اس دائرہ کے صاحب اختیار کو نہ جانے کتنی مرتبہ از خود ضمیر کو پھانسی کے جھولے پر لے جا کر واپس لوٹانا پڑتا ہے۔صاحب قلم اور قلم بردار، بلکہ قلم پیشہ یہ سب مختلف انداز اور مختلف ضمیر کے لوگ ہوتے ہیں۔ صاحب قلم تقدس طرز کو سینے سے چمٹائے رہتے ہیں۔ قلم بردار کبھی کھڑے ہو جاتے ہیں اور کبھی بیٹھ جاتے ہیں اور ہاں قلم پیشہ محض قلم رگڑتے ہیں، گِھستے ہیں، اور اپنے آپ کو بازار مفاد میں پوری مستعدی سے قابل فروخت بنا کر رکھتے ہیں۔وہ ہر موضوع پر ایسی ایسی صدا کاریاں اور کلاکاریاں کرتے ہیں کہ لوگ کانوں کو ہاتھ لگائیں اور شریف النفس آنکھوں کو بند کر لیں۔ نوعمر، نوخیز اور دھڑوں کی الفت میں گرفتار اپنی طرف سے تو پوری فنکاری اور بزعم خود غیرجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن ان کی نیت اور ان کا مقصود نفس معاشرے پر اپنے غیرمفید اور پریشان تاثرات پر گہرا نقش چھوڑ جاتا ہے۔ پھر پختہ عمر تجربہ کار قلم پیشہ تو اپنے فن کی عمر کا بطور تجربہ حوالہ دیتے ہیں اور بضد ہوتے ہیں کہ ان کا لکھا ہوا اشوک کی لاٹ پر کندہ فرمانِ امروز تصور کیا جائے۔تازہ مسئلہ روز ہی تازہ رہتا ہے۔ مسئلہ ہے کہ ہم توہم پرست انسانوں کا میلہ ہیں توہم پرستی عقل سے تعلق رکھتی ہے۔ وہم کی آماجگاہ عقل ہی ہے۔ کسی کا وہم اس کے حواس سے جڑ جاتا ہے اور کسی کا وہم اس کے جذبات پر غالب آ جاتا ہے کبھی کبھار وہم تکبر ذات اور کبھی تکبر صفات میں پوشیدہ ہو کر زبان و قلم کو آلودہ عصیاں بھی کرتا ہے۔توہم پرستی میں انسانی سیاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بڑی وضاحت کی ہے خدا کی آخری کتاب نے کہ یہ توہم پرست عقل صالح سے محروم ہیں۔ حقیقت کی شناسائی سے ان کا ربط بہت کمزور ہے۔ اسی لئے تو انہوں نے احبار اور رہبانوں کا سہارا پکڑ لیا۔احبار وہاں ذی علم لوگ ہیں تو سماج کو فکر اور روشنی فراہم کرنے کے منصب پر فائز ہوتے ہیں اور رہبان وہ لوگ تو بندگی کی راہ مستقیم کی تلاش میں راہبری کا فریضہ انجام دینے پر مامور ہوتے ہیں۔احبار اور رہبان کا درجہ بلند اگر تنزلی کا سفر اختیار کرے تو نشان منزل کی عبارت بہت مدھم ہو جاتی ہے۔ ایک کے ساتھ صفر بھی پڑوسی بن جاتا ہے اور پھر بات ایک سے دس نمبر تک آتی ہے۔ احبار اور رہبان یعنی ملا اور پیر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے قوم کو کشتہ ملا و پیری کے دھندے میں مبتلا کر دیں تو امان کہاں رہے گی۔ روزانہ کی مشق ہے۔ مشغلہ ہے۔ دل لگی ہے اسی دل لگی کا نام خدمت قوم ہے اور اسی دل لگی کی مشق کو توانا کرنے کی ترکیب کا نام تنظیم ہے۔ یہ احبار اور رہبان اپنے اپنے رنگ مفاد میں ہر لباس پہنتے ہیں۔ غنڈہ گردی کے مراکز کو کبھی پاک مقام خانہ خدا کی آڑ میں محفوظ کرتے ہیں اور کبھی خلاف فطرت تسکین نفس کے لئے تعلیم گاہوں کو اپنی ڈھال بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور برے ہیں وہ لوگ جو علم و عبادت کا زریں لبادہ اوڑھ کر گھنا¶نی برائیوں کا رواج بڑھاتے ہیں۔ خانقاہ‘ مدرسہ‘ مسجد یہ خوشحال فکر اور جاذب دل عمل کو پروان چڑھانے کے بابرکات مقامات ہیں ....
خوشا مسجد و مدرسہ و خانقاہے
کہ دروے بود قیل و قال محمد
کیا کہنے ہیں ان مسجدوں اور مدرسوں اور خانقاہوں کے کہ یہاں تو یہ بات پر تذکرہ سیدنا کریم حضور مصطفی سے متعلق ہی ہوتا ہے۔ یہ مسلمانوں تک تو محدود نہیں ہے۔ یہ نفس کی بیماریاں ہر دھرم اور ہر مذہب کے مراکز ابلاغ و تربیت میں موجود ہیں۔ حاشیہ نگاران کو تو بس اسلام کا ماتم کرنے کی بدنیت عادت ہے۔ وہ لوگ بے چارے ہیں کیونکہ ان کا لقمہ تر تو بدن اسلام کے رستے ہوئے خون سے گیلا ہوتا ہے۔ زخمی اسلام کا خون ہی ان مردہ خوروں کو زندہ رکھتا ہے۔
مسجد میں ہندو آ کر خطاب کریں۔ گاندھی مسجد میں بیٹھ کر شانتی کا درس دے تو کیا ہم مسجد کو گرا دیں گے؟ مدرسوں میں وائسرائے ہند آ کر صدارت کرے ارو اپنے حامی مسلم ملت فروشوں کو گرانٹ دے تو کیا ہم مدرسوں کو تالا لگا دیں؟اور خانقاہوں میں اگر حکومتی ہرکارے مہمان اعزاز بن کر جائیں تو کیا ہم اسلاف کی قبروں کو طعنہ دیں؟ حق و باطل کی تمیز ضروری ہے۔ ظالم اور مظلوم میں خط فاصل کھینچنا بہت ضروری ہے۔ حماقت اور جہالت نے جب سے خانقاہ‘ مدرسہ اور مسجد میں پناہ لی ہے تب سے ہر جماعت‘ ہر مسلک اور ہر مشرب اپنے لباس پارسائی پر ہزاروں دھبے دیکھتا ہے۔ ان کے اکابر اور اصاعز ہر چند دھونے کی کوشش کرتے ہیں وہ دھبے کم تو ہوتے ہیں لیکن پھیلا¶ ان کا بڑھ جاتا ہے۔اغیار اشرار ہیں کفر کی ملت واحدہ نے مختلف ناموں سے اپنی آڑھتوں پر اعلیٰ قسم کی ترغیب و تحریص کا اہتمام کیا ہے۔ وہ ہر طرز کے قابل فروخت ایمان بے زار کشتہ بازان قوم کو چمکارتے ہیں۔ حادثات پر آمادہ کرتے ہیں۔ پھر بدلے ہوئے لباس بازوں سے قلم کا پیشہ کرواتے ہیں۔ خود ساختہ ملا و پیر کو آڑ بنا کر مسجد‘ مدرسہ اور خانقاہ پر لفظی بمباری کا سلیقہ مندی سے اہتمام ہوتا ہے۔ دھیلے پیسے کے پجاری لکشمی کو سجدہ کرتے ہیں۔ پھر شرک بازی کا حقیقی بازار گرم ہوتا ہے۔ مشرک خور شرک شرک کا نعرہ لگاتے ہوئے لکشمی کو مسلسل سجدہ کرتے کرتے اپنے من کا بھجن گاتا ہے۔
گا مورے منوا گاتا جا رے
جانا ہے ہم کو دور
حالات کے ذمہ داروں اور قلم پیشہ لوگوں کا منتہائے نظر دولت کی دیوی کی پوجا ہے۔
ہاں یہ پوجا مرے گھر صبح و مسا ہوتی ہے!

ای پیپر دی نیشن