مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت اپنی انتہا پر پہنچ گئی ہے۔ معصوم اور بے گناہ کشمیریوں کے قتل عام کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آ رہا ۔ بھارتی حکومت پر نہ تو ہمارے احتجاج کا کوئی اثر اب تک ہو ا ہے اور نہ اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا کوئی پاس ہے۔ آج پورا مقبوضہ کشمیر سراپا احتجاج ہے لیکن مجال ہے کہ بھارتی حکومت کے کان پر جوں بھی رینگی ہو؟ پاکستان حکومت کی طرف سے مذمتی بیانات اور بھارتی ہائی کمشنر کو احتجاجی مراسلوں کے سوا کوئی مزید اقدام ابھی تک نہیں کیا جا رہا ۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان حکومت کے علاوہ پوری اپوزیشن اور تمام سیاسی عسکری ، مذہبی اور تعلیمی شخصیات مسئلہ کشمیر پر متحدد متفق ہیں،لیکن کوئی قابل عمل کارروائی ابھی تک معرض وجود میں نہیں آئی۔ وزارت خارجہ بھی اس سلسلے میں زیادہ متحرک نظر نہیں آرہی ۔اپنے چند دوست ممالک بشمول چین ، ترکی اور ایران کے علاوہ ہم مغربی ممالک کو مسئلہ کشمیر پر اپنا ہمنوا نہیں بنا سکے۔ جب تک اس سلسلے میں روس، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک، مشرق وسطیٰ کے مسلمان ممالک اور مشرق بعید کے ممالک جاپان وغیرہ کو بھارتی چیرہ دستیوںکے خلاف ہم اپنا ہمنوا نہیں بنائیں گے بھارت کے مظالم کا سلسلہ رک نہیں سکتا۔
یہ بات تو طے ہے کہ اب جنگ و جدل سے مسائل کو حل کرنے کا دور نہیں ، جو بھی پیش رفت ہوگی وہ مذاکرات کی میز پر ہی ہوگی۔ لیکن بھارت ایسا ڈھیٹ اور ہٹ دھرم ملک ہے جو مذاکرات سے بھی گریزاں ہے اور اپنی ظالمانہ پالیسیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے کشمیری مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے اور پاکستان پر الزام تراشیاں کر رہا ہے کہ پاکستان ان ’’دہشت گردوں ‘‘ کو اسلحہ بارود فراہم کررہا ہے۔ بھارت کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے امریکہ جیسی سپرور پاور کو اپنا ہمنوا بنا لیا ہے اور صدر ٹرمپ نے بھی کشمیری مجاہدین کو دہشت گرد تنظیموں سے جوڑنے کا الزام لگایا ہے ۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کو اس سلسلے میں بہت نمایاں کردار ادا کرنا ہوگا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو قائل کرنا ہوگا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاکر بھارتی فوج کے مظالم کا جائزہ لیں ۔ تاکہ دنیا کو بھارت کا ظالمانہ اور مکروہ چہرہ دکھایا جا سکے ۔سعودی عرب کا اسرائیل کی طرف جھکائو دیکھ کر ایک مصرعہ یاد آگیا:’’میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلمان ہوگیا‘‘ہمارا زمینی فاصلہ ، اسرائیل سے سعودی عرب کی نسبت زیادہ ہے ۔ لیکن ہماری اسرائیل سے نفرت میں ایک انچ بھی فاصلہ نہیں ہے۔ پاکستان نے محض فلسطینیوں کی محبت میں اسرائیل سے اب تک سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے۔ بلکہ ہماری فلسطینی بھائیوں سے محبت کا عالم یہ ہے کہ ہمارے پاسپورٹ میںاسرائیل کا نام ہی شامل نہیں، نہ ہم اسرائیل سے کسی قسم کا کوئی کاروباری تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن سعودی عرب ، جسے ہم اپنا قبلہ و کعبہ گردانتے ہیں ،اس کے دل میں اسرائیل کے لئے نرم گوشہ پیدا ہو رہا ہے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ جنگ سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ملکوں کی معیشت تباہ ہو جاتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم مظلوم فلسطینی بھائیوں کو نظر انداز کرکے دشمن سے پیار کی پینگیں بڑھانے میں لگ جائیں۔ جو سلوک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کشمیریوں کے ساتھ کر رہی ہیں، ٹھیک وہی برتائو اسرائیل فلسطینی معصوم بچوں ، عورتوں ،بوڑھوں کے ساتھ کر رہا ہے۔ اسرائیل سے لڑنے کی بات نہ کریں لیکن کم از کم اس کے مظالم کی مذمت تو کر سکتے ہیں کہ حدیث نبوی ہے کہ :’’تم جہاں ظلم ہوتا دیکھو تو اسے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرو، اگر اس کی ہمت نہ ہو تو زبان سے اسے براکہو اور اگر یہ بھی نہ کر سکو تو کم از کم دل میں اسے ضرور برا سمجھو اور یہ ایمان کی کمزور ترین حالت ہے‘‘۔