اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی کابل میں حزب اسلامی کے سربراہ گل بدین حکمت یار کے ساتھ ملاقات، ایک نئے باب کا آغاز ہے اور افغانستان کی تحریک مزاحمت کے اس افسانوی کردار کے ساتھ لگ بھگ تین دہائیوں بعد پاکستان کے تعلقات استوار ہوئے ہیں ۔ اس ملاقات کو یقیناً امریکہ اور افغانستان دونوں کی تائید حاصل تھی جس کے بعد پاکستان اور حزب اسلامی کے درمیان تعلقات کو وہی قانونی حثییت حاصل ہو گئی ہے جو افغان جہاد کے زمانہ میں تھی۔ وزیر اعظم نے افغان شیعہ برادری کے بااثر راہنماء استاد محقق سے بھی ملاقات کی اور ان روابط کے نتیجہ میں افغان صورتحال کے بارے میں پاکستان کے موقف کو افغان معاشرہ کے تمام حصوں تک پہنچانے میں مدد ملے گی اور ان روابط کا سلسلہ جاری رکھے کی اشد ضرورت ہے۔پاکستان کے اچھے مراسم گنے چنے افغان راہنمائوں تک محدود ہیں۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے دورہ کابل سے کسی بڑی پیشرفت کی توقع کرنا عبث ہو گا کیونکہ بہرحال امریکی ہی افغانستان کے اصل حکمران ہیں اور اشرف غنی ہوں یا عبدللہ عبدللہ، انہیں آزادانہ فیصلے کرنے کا مینڈیٹ نہیں۔ اس دورے کے باوجود ٹی ٹی پی کے کیمپ افغانستان میں موجود رہیں گے۔ بھارتی اثر و رسوخ میں کمی نہیں ہو گی اور نہ ہی پاکستان کے خلاف الزام تراشی کس سلسلہ ختم ہو گا البتہ دونوں ملکوں کو نچلی سطح کے فوائد ضرور ملیں گے جن میں ایک دوسرے کی جیلوں میں موجود قیدیوں کی شناخت اور ان کی رہائی، انسانی اعتبارسے سب سے بڑا فائدہ ہو گا۔
وزیر اعظم کی کابل میں حکمت یار سے ملاقات نئے باب کا آغاز
Apr 07, 2018