غنویٰ بھٹو کی سیاست عمران منظور کی ادبی سیاست

Apr 07, 2019

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

غنویٰ بھٹو کو مرتضیٰ بھٹو کی شہادت کے بعد فوراً سیاست میں آنا چاہئے تھا۔ مگر اس میں ایک اندیشہ یہ بھی تھاکہ اسے بھی قتل کرا دیا جاتا۔ ہماری سیاست میں بھٹوزکو زندہ نہیں رہنے دیا جاتا۔ بالخصوص فاطمہ بھٹو کو احتیاط کرنا چاہئے۔ غنویٰ بھٹوز کا کہنا ہے کہ چار بھٹوز کو مروا دیا گیا ہے۔ قتل کرانا کتنا آسان ہو گیا ہے۔ مرتضیٰ بھٹو کو دن دیہاڑے اپنے گھر کی دہلیز پر قتل کرا دیا گیا۔ اس کی بہن بینظیر بھٹو اہلیہ آصف زرداری وزیراعظم تھی۔ وہ بھی آئی اور مقتول بھائی کا چہرا دیکھ کر واپس ایوان اقتدار میں چلی گئی۔ زرداری صاحب آئے ہی نہیں ۔
زرداری صاحب میرے دوست ہیں اور وہ رشتوں میں دوستیوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ غنویٰ بھٹو اب باقاعدہ سیاست میں آ رہی ہیں۔ ان کا ایک جملہ بڑا معنی خیز ہے۔ چار بھٹوزکو قتل کیا گیا ہے۔ بھٹوز کو قتل کرانا بڑا آسان ہے۔
بلاول کو کوئی خطرہ نہیں کہ بلاول بھٹو زرداری ہے۔ مگر فاطمہ بھٹو کو احتیاط کرنا چاہئے۔ فاطمہ بھٹو کے والد مرتضیٰ بھٹو کو اپنے گھر کی دہلیز پر قتل کرایا گیا جبکہ وہ کہتے رہے کہ گوئی نہ چلانا اور کئی گولیاں چل گئیں تو اس کی بہن اہلیہ زرداری بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں۔ مگر قاتل کا کچھ پتہ نہ چلا۔ قاتل سامنے تھا مگر اسے اب تک نہیں پہچانا جا سکتا۔ وہ آمنے سامنے ہے مگر نظر نہیں آتا۔
ابھی بھٹوز قتل ہونگے۔ فاطمہ بھٹو نے اچھا کیاکہ لندن چلی گئی۔ وہ آئے گی اور تحریک بھی چلے گی۔ اس کے مقابلے میں مریم نواز آئے گی۔ اب سیاسی محاذ آرائی نوازشریف اور زرداری صاحب کے درمیان نہیں ہو گی مگر مقابلہ انہی خاندانوں کے درمیان رہے گا۔ اس دوران آصف زرداری بلاول کو آگے لا رہے ہیں ۔ مگر میری گزارش برادرم آصف زرداری سے ہے کہ وہ بختاور بھٹو زرداری کی طرف توجہ رکھیں۔ مگر ابھی پوری طرح آصفہ بھٹو زرداری ان کے دل سے نہیں اتری۔ میری رائے بختاور بھٹو زرداری کے حق میں ہے۔
ماہنامہ ’’بیاض‘‘ کی طرف سے خالد احمد ایوارڈ ہر سال دیئے جاتے ہیں۔ عمران منظور اس حوالے سے بہت بڑی معرکہ آرائی کر رہے ہیں۔ اس بار نامور شاعر اور ادبی شخصیت جلیل عالی کو لائف ٹائم اچیومنٹ خالد احمد ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے ساتھ 75 ہزار روپے بھی دیئے گئے ہیں۔یہ بہت بڑی بات ہے۔ اس کیلئے ہم عمران منظور کو مبارکباد دیتے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی نعمان منظور ان کے ساتھ ہیں۔ پوری طرح معاون اور برخودار ہیں۔ اس وقت ادبی دنیا میں صرف عمران منظور کی طرف سے ایک ادبی ایکوئٹی نظر آئی ہے۔ میں اپنی پوری برادری کی طرف سے ان کا شکرگزار ہوں۔
میرے لئے حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ جو کام کرتے ہیں‘ جینوئن طریقے سے کرتے ہیں۔کسی دوست دشمن کو کسی طرح کی آواز اٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ خالد احمد ایک جینوئن ادبی شخصیت اور بڑا شاعر تھا۔ انہوں نے اپنے جونیئرز کی ہمیشہ حوصلہ افزائی اور سرپرستی کی۔ میں نے اتنا بے غرض آدمی اپنی لکھنے والوں کی برادری میں نہیں دیکھا۔
ان کے بعد عمران منظور نے ان کی یاد کو جس انداز میں زندہ رکھا ہے‘ یہ ایک کارنامے کی طرح ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز ادبی معرکہ آرائی ہے جس کیلئے عمران منظور جیسے غیر ادبی مزاج کے آدمی سے توقع نہیں تھی مگر انہوں نے لکھنے والوں کے سامنے ایک ایسی مثال قائم کی ہے جس پر ہم سب حیرت اور فخر کرتے ہیں۔
خالد احمد ہمارے لئے ایک ادبی رہنما کی طرح تھے۔ ان کی محبتیں چاروں طرف بکھری اور نکھری ہوئی تھیں۔ ان کے مرنے کے بعد یہ خوشبو چاروں طرف پھیل گئی ہے۔ ہم خوشبوؤں میں سانس لے رہے ہیں جو خالد احمد کی موجودگی سے آسودگی کا باعث بنتی تھی۔ خالد احمد۔ زندہ بادہ۔

مزیدخبریں