اقوام عالم اس وقت کروناوائرس کی زد میں ہیں۔ بیشتر ممالک میں یہ وبا خونیں پنجے گاڑ چکی ہے۔تیزی سے پھیلتے ہوئے اس مرض نے بہت سے ممالک کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔یورپ اور امریکہ اس وبا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے۔تادم تحریر اس وائرس کا خاطر خواہ علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ اس کے تدارک کی واحد صورت حفاظتی اقدامات میں مضمر ہے۔ اس وبا کی روک تھام کے لئے لاک ڈاون اور جزوی کرفیو پر عملدرآمد کرایا جا رہا ہے۔عوام کو باور کرایا جا رہا ہے کہ یہ جزوی کرفیو احتیاطی تدابیر کا حصہ ہے تاکہ وبا کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔حفاظتی اقدامات کے پیش نظر متاثرہ ممالک کے عوام اپنے اپنے گھروں میں محصور ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اس صورتحال میں ریاستیں اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے عوام کی بنیادی ضروریات تک رسائی کو یقینی بنانے کے لئے سر گرم عمل ہیں۔
ادویات اور راشن کے خاطر خواہ انتظامات کے لیے مقدور بھر سعی کی جا رہی ہے۔تمام ممالک نے اس مشکل گھڑی میں عوام کے لیے خصوصی ریلیف کا بندوبست کیا ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک نے وفاقی اور صوبائی سطح پر عوام کے لیے مختلف فنڈز قائم کیے ہیں تاکہ مشکل ترین حالات میں بھی غریب کا چولھا جلتا رہے۔ مواصلات کے جدید ذرائع تک لوگوں کو پہلے کی طرح بھرپور رسائی حاصل ہے اور دنیا بھر کے لوگ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے پیاروں سے رابطے میں ہیں۔اس سب کے باوجود ہر طرف ہو کا عالم ہے ۔ دنیا غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ ڈر اور خوف کے دہشت ناک سائے ہر طرف لہرا رہے ہیں۔اطالوی وزیر اعظم جوزیپے کونتے اٹلی میں کورونا سے ہونے والی اموات کے ذکر پر روپڑے، درد بھرے الفاظ اور لڑکھڑاتی آواز میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے ان کو اپنے جذبات پر قابو نہ رہا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عالم بے بسی میں طبی ماہرین سے الجھ پڑے ۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل کی جماعت کے رکن اور اپنی ریاست ہیسے کے منجھے ہوئے وزیر خزانہ تھامس سیفرنے صورتحال سے دل برداشتہ ہو کر خود کشی کر لی۔ دنیا بھر کے دانش بین اور زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے والے فلاسفر صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ حکمرانی کے اصول و ضوابط طے کرنے والے مقنن عہد رفتہ کی رونقیں بحال کرنے کے آرزو مند ہیں۔ دنیا بھر کے طبی ماہرین اس وائرس کا توڑ نکالنے کے لیے آبلہ پا ہیں۔ وبا کے دنوں میں کرفیو اور لاک ڈاون جیسے غیر معمولی حالات کے دوران ذہنی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ماہرین نفسیات لوگوں کو اپنی آراء اور تجاویز سے مستفید کر رہے ہیں ڈپریشن اور گھبراہٹ سے بچنے کے لیے دنیا بھر کے عوام کو یوگا اور گیان کی نئی جہتوں سے متعارف کرایا جا رہا ہے۔
یہ تو تھا تصویر کا ایک رخ ۔ اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ دیکھیے ۔پاکستان، انڈیا، چین اور تبت کے درمیان گھرا ہوا خطہ کشمیر جسے جنت نظیر کہتے ہیں، گزشتہ آٹھ ماہ سے مسلسل کرفیو کی زد میں ہے اور یہ کرفیو دنیا بھر کے حالیہ لاک ڈاون سے یکسر مختلف ہے۔ کشمیر کا ذکر آتے ہی بے مہر ی ٔایام کی کربناک داستان ذہن و دماغ کی وادیوں میں گونجنے لگتی ہے ۔ ظلم کی چھائوں میں دم لینے پر مجبور ان گنت تصویریں ابھرتی ہیں۔ اگرچہ ڈوگرہ راج کے عہد خون آشام سے لے کر حالیہ کرفیو تک کشمیر کے عوام نے آشفتگی و دیوانگی کے ان مٹ نقوش ثبت کیے ہیںتاہم مودی سرکار کے دور فسوں کار میں جبر و تسلط کی جن بے مہر روایات نے جنم لیا ہے ان کا خاتمہ نہ جانے کب ہوگا ۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام گزشتہ آٹھ ماہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندگی گزار رہے ہیں۔ہر گزرتے سمے روح و بدن کا ناطہ کمزور سے کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے۔جسم و جان کا رشتہ کچی ڈور سے بندھا ہوا ہے۔ عشق بلا خیز کا یہ قافلہ سخت جاں معلوم نہیں کب اپنی منزل کو پہنچے گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس وقت تک ظلم و ستم کی بے پناہ داستانیں لکھی جا چکی ہوں گی۔مقبوضہ کشمیر میں جاری کرفیو باقی دنیا کے کرفیو سے بوجوہ مختلف ہی نہیں ہزار گناہ زیادہ اذیت ناک اور تکلیف دہ بھی ہے۔
جسم پر قید ہے جذبات پہ ز نجیریں ہیں
فکر محبوس ہے ، گفتار پہ تعزیریں ہیں
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
ظلم پر ظلم دیکھیے ، گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران بین الاقوامی منظر نامے پر سوائے چند مذمتی قراردادوں کے کشمیر کرفیو کو کہیں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اہل مغرب جب انسانیت کا راگ لاپتے ہیں تو ان کی دوغلی اور منافقانہ پالیسی سے گھن آتی ہے۔کیا انسان صرف وہ ہیں جن کے رنگ گورے اور ہونٹ سرخ ہیں ؟جب کشمیر، افغانستان، عراق اور فلسطین کے مظلوم و مجبور انسانوں کا ذکر آتا ہے تو مغربی دانشوروں کی دانش متاع گم گشتہ ہو کے رہ جاتی ہے۔ماہرین نفسیات کی ساری ہنر کاریاں بھی اہل کشمیر پر ہونے والے نفسیاتی جبر کے سامنے دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔
کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والے جزوی کرفیو کا سامنا کرنے کے بعد دنیا اب بہتر طور پر کشمیر کے کرفیو کا ادراک کر سکتی ہے۔حیات انسانی کے رموز و غوامض سے آشنا جتنے بھی دانشوراور مبصرین انسانیت کا پرچار کرتے ہیں انھیں اس لفظ کی حرمت کے صدقے مودی سرکار کے دست تطاول کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور وادی میں محبوس و محکوم کشمیری مسلمانوں کی خبرگیری کرنی چاہیے۔شنید ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارتی فوج کی جانب سے انسانیت سوز مظالم اور اخلاقیات سے گری ہو ئی کاررو ائیوں کے ساتھ ساتھ اب کرونا وائرس کی زد میں بھی ہے۔ ( جاری)
٭…٭…٭