چینی 110 روپے کلو کرنے کی دھمکی دینے والے نادان ہیں: سیف اللہ نیازی
اسوقت آٹا چینی کے بحران نے سیاسی میدان میں وہی اہمیت حاصل کر لی ہے جو عالمی سطح پر کرونا کو حاصل ہے۔ حکمران 25 اپریل کو رپورٹ آنے پر کارروائی کا سندیسہ دے رہے ہیں۔ اپوزیشن والے فوری کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ عوام ان دونوں کی قوالی سن رہے ہیں۔ یہ دونوں تو چلیں بڑ راگ اور راگنیوں سے واقف ہیں۔ بے شک شدت جذبات سے کبھی بے سرے ہو جاتے ہیں۔ قوم ساتھی قوال فوراً سُر اور تال برابر کر دیتے ہیں۔ مگر یہ جواب شوگر مافیا کی نئی ٹولی سامنے آئی ہے۔ یہ تو لگتا ہے آداب قوالی سے مکمل ناواقف ہے۔ اس وقت شوگر اور آٹا ملز مالکان تو سبسڈی اور چینی کی قیمت میں اضافہ کی جواب طلبی سے جان چھڑانے کے چکر میں ہیں۔ ایسے موقع پر جس شوگر ملز مافیا نے چینی 110 روپے کلو کرنے کی دھمکی دی ہے۔ خدا جانے ان کی ڈوریاں کون ہلا رہا ہے۔ یہ وقت دھمکیاں دینے کا نہیں توبہ کرنے کا ہے۔ مشہور ہے کہ جنہوں نے گاجریں کھائیں ان کے پیٹ میں ہی درد ہو گا۔ سو اب کہیں یہ مافیا بھی اپنا کیا دھرا چھپانے کے لیے تو دھمکیاں نہیں دے رہا ۔ اگر ایسا ہے تو پہلے ان کا بندوبست ضرور کیا جائے ان کی ملیں ضبط کی جائیں اور ان کا ریکارڈ چیک کیا جائے جو رمضان المبارک میں عوام کا رہا سہا خون نچوڑنے کے چکروں میں ہیں۔
٭٭٭٭
ٹھٹھہ کے نواحی دیہات میں درجنوں افراد نے کرونا سے بچنے کے لئے ٹنڈ کرا لی
ان لوگوں کو کسی حاذق حکیم کہہ لیں یا طبیب یا ڈاکٹر نے یہ مژدہ سنایا تھاکہ گرمی سے کرونا کا وائرس مر جاتا ہے۔ سو انہوں نے اپنے جسم کو بہرصورت گرم رکھنے کے لیے سر کے بال تک اتروا لیے تاکہ ان کی چم چماتی ٹنڈ پر براہ راست گرمی کا نزول ہو اور وہ کرونا سے محفوظ رہیں۔ شکر کریں انہوں نے صرف ٹنڈ کرائی۔ ورنہ وہ اس علاج بالمثل کی لپیٹ میں آ کر کہیں لباس بھی اتار کر براہ راست سن باتھ سے مستفید ہو سکتے تھے۔ اگر یہی کام موسم گرما میں گرمی سے نجات کے نام پر کرتے یا جوئوں سے نجات کے لیے یہ پریکٹس کرتے تو انہیں عقل مند کہا جا سکتا تھا۔ مگر کرونا سے نجات کے لئے گنجا ہونے والی بات نہ کسی نے کی ہے کہ کہی ہے۔ شکر ہے اسوقت آمدورفت پر پابندی ہے۔ ورنہ یہ شرطیہ علاج تیزی سے سندھ کے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ باقی ملک میں بھی مقبول ہو جاتا۔ اس طرح موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر میں ٹنڈوں کی فصل پکنے کا شور شرابا ہوتا۔ اس طرح ہر طرف ٹنڈوں کی بہار نظر آتی ہے۔ اس سے کرونا کا علاج ہو نہ ہو سن سٹروک کے سبب بیمار ہونے والوں کی تعدادمیںاضافہ ضرور ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭
پائلٹس کے انکار کے بعد کراچی سے فضائی آپریشن معطل، لاہور سے شروع
کراچی ائیر پورٹ پر بیرون ملک میں پھنسے پاکستانیوں کو لانے والے جہاز کے پائلٹوں کو قرنطینہ میں بھیجنے کا معاملہ تو محکمہ صحت حکومت سندھ کے گلے میں ہڈی بن کر پھنس گیا ہے۔ پی آئی اے انتظامیہ نے کراچی سے فضائی آپریشن معطل کر کے لاہور سے سروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب گرچہ ان چاروں پائلٹوں کو صحتیاب قرار دے کر گھر جانے کی اجازت مل گئی ہے۔ مگر اب پائلٹوں نے بنا حفاظتی لباس و سامان کے بیرون ملک پرواز لے جانے سے انکار کر دیا ہے جس کی حکومت نے حامی بھر لی ہے۔ ویسے بات تو دونوں کی صحیح ہے۔ کسی کو بھی کرونا ٹیسٹ کرانے سے انکار نہیں کرنا چاہئے۔ اگر کوئی مشتبہ ہو تو خواہ وہ پائلٹ ہو یا مسافر اسے قرنطینہ جانے سے انکار نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ان کا مسئلہ نہیں انسانی جانوں کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔ دوسری بات کہ جو پائلٹ کرونا سے متاثرہ ممالک سے پاکستانیوں کو واپس لا رہے ہیں اور ان ممالک کے شہریوںکو وہاں لے جا رہے ہیں وہ واقعی قابل تعریف ہیں۔ ان کی جان کی حفاظت حکومت اور پی آئی اے کی ذمہ داری ہے جو انہیں پوری کرنی چاہئے۔ ذرا ذرا سی بات پر سیخ پا ہونے والی پالیسی کبھی درست نہیں ہوتی اس سے مسائل بڑھتے ہیں کم نہیں ہوتے۔ سو اس مسئلہ کو بھی خوش اسلوبی سے حل کیا جائے تاکہ بیرون ملک پھنسے پاکستانی انتظار کی سولی سے اتر سکیں۔ اسوقت ہزاروں گھرانے اس مسئلے سے متاثر اور اپنے پیاروں کیلئے پریشان ہیں۔
٭٭٭٭٭
دئیے یا شمع جلانے سے کرونا کا مسئلہ حل نہیں ہو گا: راہول گاندھی
بھارت کے وزیراعظم مودی کی ہر بات ’’اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘‘ والے محاورے کی طرح بالکل جلیبی کی طرح سیدھی ہوتی ہے۔ اب موصوف نے خدا جانے آدتیہ یوگی کی فضول باتوں میں آ کر یا امیت شاہ کے رذیل مشوروں میں آ کر اعلان کیا کہ کرونا سے بچائو کے لئے اتوار اور پیر کی درمیان رات 9 بجے پورے ہندوستان کی لائٹیں بند کر کے 9 منٹ تک دیپ اور موم بتیاں روشن کی جائیں۔شاید اس طرح وہ سمجھ رہے ہیں کہ کرونا کو اندھیرا دیکھ کر لگے گا کہ بھارت میں اب کوئی گھر نہیں بچا۔ اس لئے بھارت میں نہیں آئے گا۔ بھگوان جانے مودی کی بدھی کس نے نشٹ کر دی ہے کہ انہیں یقین آ گیا کہ اس طرح کرنے سے ہندوستان جہاں کرونا تیزی سے پھیل رہا ہے محفوظ ہو جائے گا۔ اس پر بھارت کی تمام سیاسی اور سماجی جماعتوں نے مودی جی کی خوب کلاس لی ہے ۔ راہول گاندھی نے بھی کہہ دیا کہ ایسے دقیانوسی اقدامات سے کرونا کا مسئلہ حل نہیں ہو گا ہمیں سائنسی بنیادوں پر اس سلسلے میں اقدامات کرنا ہوں گے۔ مگر جس دیش میں گائو ماتا کے موتر کو پوتر مانا جاتا ہو اور اس کے پسینے کو کرونا کا شافی علاج تصور کیا جاتا ہو وہاں سائنس و ٹیکنالوجی کی بھاشا کون سنے گا۔ اس وقت بھارت میں مودی سرکار کی چھتر چھایا تلے اوھام پرستی کا دور دورہ ہے۔ آدتیہ جوگی اور امیت شاہ جیسے توہم پرستوں کی موجودگی میںحکومت اگر موم بتی اور دئیے جلا کر کرونا سے بچائو کا ڈھونگ رچا رہی ہے تو اسمیں تعجب کی کیا بات۔