دنیا جراثیمی جارحیت کے نشانے پر؟؟

دنیا بھر میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ کیا کرونا وائرس جراثیمی جنگ کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
مجھے جب کسی پیچیدہ سوال کا سامناہوتا ہے تو لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفی سے رابطہ کرتا ہوں۔ جنرل صاحب نے پاکستان کی دفاعی کمان کے ادارے کی بنیاد رکھی تھی۔
جنرل مصطفی نے اب میری معلومات کے لئے بتایا ہے کہ دنیا میں ایک ایسی طاقتور مسلم دشمن لابی موجود ہے جسے کسی مذہب سے تو نہیںجوڑا جا سکتا مگر اس کا ٹارگٹ مسلم دنیا ہی بنتی ہے۔جنرل مصطفی نے کہا کہ وہ اس تفصیل میںنہیں جاتے کہ امریکہ اور ناٹو افواج نے کس طرح لیبیا، عراق۔یمن، افغانستان، شام اور پاکستان کو تہس نہس کیا۔ پاکستانی تو ہر گز نہیں جانتے کہ ا نہیں کس جرم کی سزا بھگتنا پڑی اور ان کے ساٹھ ہزار پیاروں کی جان دہشت گردی کی وارداتوں کے ذریعے کیوں لی گئی۔
عراق پر جارحیت کے لئے امریکہ نے یہ ڈھونگ رچایا کہ صدام حسین کے پاس ایٹمی، اور جراثیمی اسلحے کا ڈھیر ہے۔ یہی الزام اسامہ بن لادن پر عائد کیا گیا اورعراق کا فالودہ نکال دیا گیااور افغانستان کا تورا بورا بنا دیا گیا۔
اس پر بھی عالمی لابی کی تسلی نہ ہوئی۔ اس نے خاموشی سے ایک ایساوائرس بنانا شروع کر دیا جو مسلمان اور غیر مسلمان کی تمیز کے بغیر ہر کسی کی جان لے سکے۔ دنیا کی بڑی طاقتوں کے پاس ایٹمی ، کیمیائی ا ور جراثیمی اسلحے کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔
اب وسیع تباہی کے لئے ممکنہ طور پر ایک وائرس کو استعمال کیا گیا ہے۔ اس کی زد میں ہر ملک ہے اور بظاہر کسی کے پاس اس کا علاج نہیں ہے مگر عالمی طاقتور لابی بالآخر ایک ایسی ویکسین تیار کرنے کا دعوی کر دے گی جسے آب حیات کا قطرہ سمجھ کر پینے کے لئے ہر کوئی منہ کھولے اپنی دہلیز پر کھڑا ہو گا۔اور اس کی ہر قیمت دینے کو تیار ہو گا۔
میںنے اپنے اس تجزیئے کی بنیاد جنرل مصطفی کی تھیوری پر رکھی ہے۔ میں صاف دیکھ رہا ہوں کہ صرف کرونا وائرس کا خوف مسلط کر کے حرمین شریفین کو بند کروا دیا گیااور ساری دنیا ئے اسلام کی مساجد میں پانچ وقت نمازوں اور جمعہ کو محدود کرنے میں کامیابی حاصل کر لی گئی ہے۔ عام حالات میں کوئی بھی حرمین شریفین کو بند کرنے کی جسارت کرتا تو دنیا بھر کے اربوں مسلمان سر دھڑ کی بازی لگا دیتے مگر آج ایک مسلمان نے بھی چوں تک نہیںکی ۔ تو اس سے بڑی کامیابی اس لابی کو کیا مل سکتی تھی۔ ابھی ایک ماہ ہوا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی دلی میںموجودگی کے دوران شہر میں تین روز تک مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی اوراب سبرا منیم سوامی نے کہا ہے کہ بھارت کے سیکولر آئین کی غلط تشریح کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو ہندوؤں کے مساوی حقوق حاصل ہیں، اس پر وزیر اعظم عمران خان نے زوردار مذمت کی ہے۔ عمران خان کی رگ حمیت کو بار بار آزمایا جا رہا ہے۔ کشمیر کی وادی میں نوے لاکھ مسلمانوں کو پچھلے برس اگست سے لاک ڈائون میں رکھا گیا ہے، کسی عالمی حقوق کے ادارے نے ان مسلمانوں کو بھارت کے ظلم و ستم سے نجات دلوانے کی کوشش نہیں کی، زبانی جمع خرچ کا کیا فائدہ۔
امریکہ کو کرونا کی ہلاکتوں کی کیا پروا ہو گی۔ اس کے ہاں تو ہر سال پینتیس ہزار افراد صرف نزلے زکام ا ور فلو سے مر جاتے ہیں۔ چین نے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا ہے ۔ یورپ میںہلاکتوں سے بھی امریکہ کی صحت پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ اصل میں اس نے عالم عرب کی تیل کی معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ نہ کرونا سے مرنے والے کی تدفین کی جاتی ہے اور نہ تیل کی معیشت کے جنازے کو کندھا دیا جا ئے گا ۔
کرونا کے بارے میںسازشی تھیوری پر اب میڈیا پر کھلم کھلا بحث جاری ہے۔ کوئی ا س پر یقین کرتا ہے اور کوئی نہیں کرتا مگر اس کے نتائج پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے خاص طور پر مسلم دنیا کو۔
اس وقت جراثیمی جنگ غیر اعلانیہ طور پر جاری ہے۔نظر نہ آنے والی عالمی خونخوار لابی کے ہاتھوں میں WHOنے کرونا کا کنٹرول سنبھال لیا ہے ، میڈیا اس کا بھونپو بنا ہوا ہے ، ہر آدمی خوف زدہ اور سراسیمہ ہے ،اور خاص طور پر مسلمانوں کے اللہ پر توکل ، بھروسے، یقین اورایمان کو متزلزل کر دیا گیا ہے ۔
جراثیمی جنگ کی طرف پہلا اشارہ چین نے کیا اور اس نے امریکہ پر انگلیا ں اٹھائیںکہ مشترکہ فوجی مشقوں کے دوران امریکی فوجیوں نے دوہان میں یہ وائرس چھوڑا،جنرل مصطفی کہتے ہیں کہ ووہان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی ایک مسلمہ امر ہے ،جواب میں امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ یہ سب چائنہ وائرس کی کارستانی ہے ،سابق امریکی نائب صدر جو بائڈن نے چین کو جراثیمی حملے کی دھمکی دے دی ہے۔ امریکہ میں چینی سائنس دانوں کی گرفتاری کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔
کرونا وائرس کا توڑ شاید اسی طرح نہ ملے جیسے ایٹم بموںکا توڑ تلاش نہیں کیا جا سکا ، امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر دو چھوٹے چھوٹے ایٹم بم پھینکے تھے اور ایک لمحے میں ۳ لاکھ انسان ہلاک ہوگئے تھے، بھارت اب تک کشمیر میں ایک لاکھ بے گناہوں کو شہید کرچکا ہے، پاکستان میں دہشت گردوں نے دس برسوں میں ستر ہزار انسانوں کی جان لی، یعنی ایک سال میں سات ہزار اور ایک دن میں اڑھائی سو۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن