امیر سید علی بن شہاب شاہ ہمدان ارشاد فرماتے ہیں:’’پس ان فاجر (حکمرانوں )کی تنبیہ کے لیے اوران ظالم فاسقوں کی ہدایت کے لیے جنہوں نے سلطنت اورحکومت کو تکبر کا سرمایہ سمجھ لیا ہے ، وزارت اورامارت کونفس اورہوا کی خواہشات کا دام بنالیا ہے۔
ظلم وستم کو بادشاہی کا آئین سمجھ بیٹھے ہیںاور فسق وفجور کو بزرگی کی رسم جان چکے ہیں۔ انبیاء کرام کی بادشاہی اور خلفا ء راشدین کی خلافت کے کچھ حالات لکھے جاتے ہیں۔تاکہ یہ تذکرہ عالم آخرت کے طالبوں (کے لیے رہنمائی )اور، وساوس شیطانی کے گرفتاروں اورخواہشات نفسانی کے اسیروں کے لیے حجت رہے۔
مروی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی ہلاکت کے بعد بنی اسرائیل کی حکومت تفویض کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم بھیجا کہ بنی اسرائیل کو اریحا کی طرف لے جائو اورقومِ عمالقہ کے ساتھ جنگ کرو، فوج تیار ہوگئی ،یہ بارہ لشکر تھے اورہر لشکر میں ایک لاکھ بیس ہزار سپاہی تھے۔اس لشکر کے بارہ نقیب تھے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام 36یا 39سال اس فوج کے حاکم رہے۔ لیکن ان ایام میں ان کے پاس نہ ذاتی سواری تھی اورنہ ذاتی رہائش ،سادہ سی پوستین استعمال کرتے اوراونی ٹوپی سرپر رکھتے تھے۔ کچے چمڑے کا جوتا پائوں میں ہوتا اور دو شاخہ چھڑی ہاتھ میں ۔جہاں رات آتی وہیں قیام کرلیتے ۔کبھی پیٹ بھر کر نہ کھاتے ۔بنی اسرائیل باری باری آپ کی خدمت میں کھانا پیش کرتے ایک دن سبطِ الائے میں قیام تھا ۔ جس شخص کے کھانے کی باری تھی وہ شخص کھانا لانا بھول گیا۔ جب بھوک کی کیفیت بہت بڑھ گئی ۔تو جناب باری میں عرض کیا کہ اے مولائے کریم یہ کیسی حالت ہے جس میں میں مبتلا ہوں کہ ایک شخص مجھے صبح کھا نا دیتا اور ایک شام کا، اللہ جل شانہٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اے عمران کے بیٹے دل تنگ مت کروہم اپنے مقبولوں کی روزی عام لوگوں کے ذمے اس لیے لگادیتے ہیں کہ یہ لوگ بھی ہمارے دوستوں کو کھانا کھلانے کی برکت سے سعادت ابدی حاصل کریں۔