حکومت اور عوام دونوں نے آخر کرونا کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا ہے عوام کی اکثریت گھروں تک محدود ہو گئی ہے اور حکومت بھی لاک ڈائون کو مفید قرار دینے لگی ہے اگرچہ اموات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ یہ تعداد یورپ اور امریکہ سے بہت کم ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ موذی مرض رُک رہا ہے ایسا نہیں ہے ہر روز دسیوں نئے کیسز سامنے آرہے ہیں کسی کسی دن تو تعدادسیکڑوں میں پہنچ جاتی ہے اور یہ تعداد بھی ہونے والے انتہائی کم ٹیسٹ ہونے کے بعد سامنے آتی ہے لہٰذا یہ حتمی ہر گز نہیںکہی جا سکتی بلکہ اصل تعداد اِس سے کہیں بڑھ کر ہے جو ابھی رپورٹ نہیں ہوئی۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی جا سکتی ہے کہ جلد سے جلد اس وباء کو ختم کرے اور اس کی کوئی دوا یا ویکسین تیار کی جا سکے اور دنیا پھر رواں دواں ہو۔اس لاک ڈائون نے دنیا کو اس کی حقیقت بھی سمجھا دی ہے اور کئی ایسے واقعات بھی ہو رہے ہیں جو اس سے پہلے نہیں ہوئے تھے مثلاََاوزون کی تہہ کی بحالی یا تیل کی قیمت کا گرنایا اس کے ذخائرضرورت سے زیادہ ہونا بہر حال یہ تو کچھ نکتہء ہائے معترضہ سمجھ لیجئے ۔اب آتے ہیں ان اقدامات کی طرف جو دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص اٹھائے گئے چونکہ یہ ایک عالمی وباء ہے لہٰذا تھوڑا سا ذکر پوری دنیا کا ہونا چاہیئے کہ وہ کیسے اس وباء سے متاثر ہو رہی ہے اور کیسے نمٹ رہی ہے۔جہاں تک متاثر ہونے کی بات ہے تو یورپ اور امریکہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہیں ایشیائی ممالک قدرے بہتر صورت حال میں ہیں اگرچہ اس کی ابتداء چین سے ہوئی لیکن اس نے سخت اقدامات کی بنا پر اس پر قابو پا لیااور اب وہاں بہت کم کیسز رپورٹ ہو رہے ہیںاور اس وقت باقی دنیا کے مقابلے میں بہتر صورت حال میں ہے اور دوسرے ممالک کی مدد کر رہا ہے لیکن اس بیماری میں سب سے بڑی مدداپنی کوشش اور احتیاط ہے اور اسی لیے پوری دنیا میں لاک ڈائون کی صورت حال ہے۔جن ملکوں نے جلد لاک ڈائون کیا وہ زیادہ فائدے میں رہے اور جنہوں نے تاخیر کی وہ بھی بہر حال اس پر مجبور ہوئے اور یوں دنیا تو تقریباََ بند ہو گئی لیکن اس کے ساتھ ہی کئی معاشرتی اور سماجی مسائل نے جنم لے لیا اور خاص کرروزانہ اجرت پر کام کرنے والا طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ان کی روزی روٹی کا مسئلہ
بن گیا جس کا سب سے ہولناک منظر بھارت میں دیکھنے میں آیاجہاں کروڑوں مزدور واپس اپنے اپنے آبائی علاقوں کی طرف چلے تو کئی ایک تو راستے ہی میں جان سے گئے خیر یہ تو ایک الگ موضوع ہے لیکن پاکستان میں بھی یہ لوگ شدید متاثر ہوئے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم نے احساس پروگرام کے تحت ایک ریلیف فنڈ بھی قائم کیا اگرچہ اس سے پہلے ہی تمام لوگ اپنی اپنی کو شش شروع کر چکے تھے اور اپنے جان پہچان والے حقداروں تک حق پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے جو ایک اچھی بات ہے اور پاکستانی معاشرے کا خاصہ ہے تاہم حکومتی کوشش کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔اب حکومت نے اس فنڈ کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن اس کے طریقہء کا ر کے اوپر کئی اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیںاور ان اعتراضات کی بھی اپنی جگہ اہمیت ہے کہ اس عالمی مسئلے کو اپنے سیاسی نام نموداور مفاد کے لیے استعمال نہ کیا جائے اب تک جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں ان میں اصلاح کی بہت گنجائش ہے۔سب سے پہلے تو اس فنڈ میں رقم جمع کرانے والے صاحبان اقتدارکے نام بمعہ رقم کی مالیت کے بتائے جائیںکیونکہ اگر ان کی طرف سے عطیات نہیں آئیں گے تو میرے جیسے عام آدمی اپنی حیثیت کے مطابق رقم جمع کرائے گااور اس سے کسی بڑے فنڈ کے بننے کی توقع نہیں ہونی چاہیئے۔ کچھ لوگ یہ بھی شور مچا رہے ہیں کہ بلدیاتی حکومتیں نہ ہونے کا اب نقصان ہو رہاہے کیونکہ مقامی کونسلر اپنے علاقے کے لوگوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں لہٰذا وہ یہ امداد ان تک بڑی سرعت اور ایمانداری سے پہنچا سکتے ہیں بالکل ایسا ہی ہے کہ وہ چار آٹھ گلیوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں لیکن ماضی کا تجربہ کچھ زیادہ اچھا نہیں۔میں بذاتِ خود ایسے بلدیاتی نمائندوں کو جانتی ہوں جن کے گھر کے کمرے سلائی مشینوں سے بھرے رہے ہیںلیکن پہنچی یہ مشینیں صرف جان پہچان والوں تک ہیںہر حقدار تک نہیں وجہ یہ کہ’’ ووٹ کس کو دیا مجھے تو نہیں دیا‘‘۔فنڈ ملنے پر گلیاں پختہ ہوئیںتو صرف اپنے گھر یا محلے کی یا قریبی منظور نظر رشتہ داروں کے گھر کی لہٰذا حکومت کو ان تمام پہلوئوںکو مد نظررکھنا چاہیئے۔اگرچہ حکومت نے کچھ احتیاطیں ضرور کیں ہیں مثلاََجس کا پاسپورٹ بنا ہو اس کو یہ امداد نہیں دی جائے گی، اس میں مزید احتیاط کی ضرورت ہے اور ریکارڈ کی مزید جانچ درکار ہے کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو محنت مزدوری کے سلسلے میں خلیجی ممالک میں گئے ہیں لیکن مناسب روزگار اور کمائی نہ ہونے کی وجہ سے واپس آگئے ہیں اور میں کئی ایسے لوگوں کو جانتی ہوں جو اب گھریلوملازمین کی حیثیت سے کسی کے گھر میں کام کر رہے ہیںیا دیہاڑی مزدوری کر کے اپنے گھر چلارہے ہیںلہٰذا موجودہ روزگار اور حیثیت معلوم کرنا بھی ضروری ہے۔ہاں جو ہزار کا بیلنس ڈال کر مہینے میں اڑاتے ہیں ایسے لوگوں کو ہرگز حقدار نہیں سمجھنا چاہیئے۔ہمارے میڈیا نے اس پورے مسئلے کے دوران کم از کم اب تک بہت مثبت کردار ادا کیا ہے لیکن جس وقت ہمارے اینکر یا اداکار، فنکار وغیرہ لوگوں کو ترغیب دلا رہے ہوتے ہیں کہ حج ، عمرے کے پیسے کسی غریب کو دے دیں تو وہ یہ یاد رکھیں کہ غریب اور سفید پوش طبقہ بہت مشکل اور لگن سے حج اور عمرے کے پیسے جوڑتا ہے اوروہ ابھی بھی پُر امید ہیں کہ اس بارنہ سہی اگلی بار حج و عمرے کی سعادت حاصل کر لیں گے تو یہ ترغیب دلانے سے پہلے وہ یہ ضرور کر لیا کریں کہ وہ اپنی طرف سے امدادی فنڈ کی رقم کا اعلان کریں اور ساتھ ہی ایوان اقتدار کے نمائندئوں کو راغب کریں کہ وہ اپنی تنخواہوں اور جدی پشتی دولت میں سے ایک اچھی رقم اس فنڈ میں دیں۔یہ کروڑوں اربوں کے مالک لاکھوں تو دے ہی دیں گے لیکن لاکھوں کے مالک ہزاروں اور ہزاروں کے مالک سیکڑوں سے آگے نہیں بڑھ سکیں گے ورنہ وہ اپنے خاندان کونہ کھلا پائیں گے لہٰذا پہلے یہ بڑے دیں، اپنے بے تحاشہ مال کی زکوٰۃہی نکال لیںتو سیکڑوں خاندانوں کو ان میں سے ایک یا دو چار مل کر سپورٹ کر سکیں گے۔اس وقت ذاتی طور پر بھی دیا جائے تو بھی بہتر ہے اور اگر فنڈ میں پیسے دیئے گئے اور ایمانداری سے تقسیم کیئے جائیں تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہ ایک منظم عمل ہوگا۔یہ یاد رکھیں ہم عوام اور چھوٹے لوگ ہمیشہ سے ہی اس طرح کے فنڈوں میں پیسے دیتے رہے ہیں اور پھر کبھی جان نہ سکے کہ وہ پیسہ کہاں گیالیکن اب کی بار خدا را ایسا مت کیجئے ہمیں بتائیے کہ ہمارا پیسہ کہاں گیا اور اسے سیاسی کارکنان تک بھی محدود مت رکھیئے ہر حقدار تک پہنچائیں، جیسے کرونا نہیں جانتا کہ وہ کس کے جسم میں داخل ہو رہا ہے بادشاہ وقت ہے یا کوئی فقیر۔ اس وباء نے تو انسان کو یہ بھی سمجھا دیا کہ انسان ،انسان ہے چاہے وہ کسی ملک کا شہزادہ ہو، وزیراعظم ہو ،صدر ہو یا اس کے گھر والے یا عام گلی کا انسان یا گلی کے نکڑ کا فقیر اور اسی خوف کے ساتھ یہ امداد دیجئے اور تقسیم کیجئے تاکہ کوئی بھوک سے نہ مرے۔