ٹی وی نامہ …جو گہرائی میں گئے

’’جو گہرائی میں گئے‘‘1984/85 میں لکھا طویل دورانیے کا کھیل تھا جسے تاج حیدر نے نہایت چابک دستی سے لکھا اور کاسٹ اور کریو نے محنتِ شاقہ کے ساتھ پروڈیوس کیا تھا۔ یہ اُن پاکستانیوں میں سے کچھ بد نصیبوں کی کہانی تھی جو مافیا کے پالے ہوئے جعل سازوں کے ذریعے، بہتر کمائی کے لالچ میں وطنِ عزیز سے ہجرت کرتے ہیں اور خوار و زبوں حال ہوتے ہیں۔ چھ دن متواتر کھُلے سمندر میں اس کھیل کی عکاسی کی گئی۔ہم سب چھ بجے صبح کراچی ٹی وی سنٹر پر آجاتے اور وین میں ٹھُنس کر کیماڑی پہنچ جاتے۔ ہمیں غربت کی وجہ سے ایک پُرانی‘ سمندر میں ڈیزل سپلائی کرنے والی کشتی کرائے پر حاصل کرنا پڑی تھی۔ ڈیزل کی بدبو اور کھلے سمندر کی وجہ سے ساری مردانہ کاسٹ کو قے آوری کی کافی پریکٹس ہوئی۔ صرف لیاقت حسین خاں دُرانی اور میںسمندری بیماری کا شکار نہیں ہُوئے تھے۔ کاسٹ کی خواتین کاچوں کہ اِن ڈور ہی کام تھا تو وہ ظاہر ہے بچی رہیں۔ لطیفہ یہ تھا کہ کاسٹ اور کریو کے لیے خالص گھی میں بنا کھانا ’’کاکے دا ہوٹل‘‘ سے منگوایا جاتا تھا۔ ’’کاکے دا ہوٹل‘‘ کراچی کے پاکستان چوک میں ریلوے کرکٹ گراؤنڈ سے ملحق واقع تھا اور ایک عرصے تک ہم ٹیلیوژن کے چند دوست اسی ڈھابہ نما ’ہوٹل‘  یا  ریسٹوران سے کھانا کھانے بڑا اہتمام کرکے آیا کرتے تھے۔ایک پنجابی دیہاتی، دہرے جسم کے مالک بزرگ ہمیں انتہائی محبت اور شفقت سے کھانا کھلاتے تھے اور کھانا بھی دیسی گھی میں تر بتر۔ وہ شفیق بزرگ ہمیں روٹیاں بھی دیسی گھی میں ڈوبی کھلاتے تھے۔بتایا کرتے کہ میں تاندلیاں والا سے دیسی گھی کے کنستر منگواتا ہوں۔ہم نے کبھی اُن کا نام پوچھنے کی زحمت ہی نہ کی۔ وہ کھانے کی قیمت بھی واجبی سی لیتے تھے۔ ہمیں پتا ہی نہ چلا اور وہ بزرگ ایک روز فوت ہو گئے ۔وہ تو جنت کو سدھار گئے مگر ہم پھر بھی ببہانہ بنا کر اس ڈھابے پر جاتے اور اُن بزرگ کا بیٹا’’کاکا‘‘ ہمیں کھانے کھلاتا مگر وہ گھلاوٹ جو بزرگوں کے دم سے تھی وہ عنقا ہوتی گئی۔آج کل وہ ہوٹل بھی موجود نہیں۔افسوس ہم پر سے وہ سائے اُٹھتے گئے جو ہمارے لیے ٹھنڈی چھاؤں کیے رہتے تھے ۔ میں آج بھی جب پاکستان چوک سے گزرتا ہوں ’’کاکے دا ہوٹل‘‘ ،اُن بزرگ کے ہاتھ کے پکے وہ انتہائی لذیذ ذائقے دار کھانے اور کاکے کے بزرگ والد کو تلاشتا ہوں! ۔۔۔۔۔
’’جو گہرائی میں گئے‘‘  جگمگاتے ستاروں سے مزیّن ایسا کھیل تھاجو اپنے اندر ایک اتھاہ گہرائی لیے ہوئے تھا اسی لیے اس کھیل کوعوام وخواص نے اتنا سراہا کہ یہ1986 کا پی ٹی وی ایوارڈ جیت گیا ‘حالاں کہ مقابلے میں جنابِ یاور حیات اورجنابِ محمد نثار حسین تھے۔اس کھیل کے درخشاں ستارے محترمان محمود علی، محمد قوی خان،زینت یاسمین، نیلما حسن، لیاقت حسین خان درانی،لطیف کپاڈیہ،لطیف نامی، بہروز سبزواری ،انیل چوہدری، اسلم لارٹر،فٖہمید احمد خان، اقبال قریشی،شمیم حسن، روحانی بانو، ایم وارثی،  وکیل فاروقی ،ظِلّ سبحان ، طلعت حسین کی صاحبزادی اور دیگر کئی فنکار تھے (افسوس میں بعض کا نام بھول گیا ہوں)۔ بہت پیارے اور بہت ٹیلینٹڈ کیمرہ مین اسرار ندیم ہمارے بیرونی عکاسی کے ذمہ دار تھے۔ نیاز احمد نے خوبصورت موسیقی ترتیب دی تھی ۔کھیل سمندر میں ایک کشتی میں ریکارڈ ہوتا تھا۔ ایک روز ، اور وہ غالباً ہمارا سمندر میں ریکارڈنگ کا آخری دن تھا اسرار ندیم وقت پر نہ آ سکے۔ ہم نے کافی انتظار کیا مگرجانے کیا بات ہوئی کہ کیمرہ مین نہ آ سکے۔ اُس دن میں نے کیمرہ سنبھالا اور سارا دن عکاسی کرتا رہا۔’’جو گہرائی میں گئے‘‘ 1984 میں پروڈیوس ہُوا مگر ٹیلی کاست کہیں اگلے برس ہُوا۔ دراصل بُرہان الدین حسن صاحب جو اُن دنوں کراچی سنٹر کے جنرل مینجر تھے ایک مکالمے سے بدک گئے ۔مکالمہ کشتی کے کئی مسافروںمیں سے بچ گئے ایک مسافر(محمد قوی) کے خیال میں آنے والی اُس کی بچی(طلعت حسین کی صاحب زادی) کا تھا جو اُسے تسلی دیتی ہے کہ وہ پریشان نہ ہو کوئی نہ کوئی اُسے بچانے آئے گا۔وہ ضیائی دور تھا اُس شان دار کھیل کے خالق تاج حیدر تھے، تو خواہ مخواہ بھی دھیان میں یہی آتا کہ کوئی آئے گا کا تعلق لازمی طور پر ذوالفقار علی بھُٹو سے ہے۔حالاں کہ اُس مکالمے کا در اصل مطلب یہ تھا کہ کوئی غیبی طاقت اس قوم کی تباہ حال کشتی کو بچانے ضرور آئے گی۔ بُرہان صاحب مجھے کہتے کہ یہ مکالمہ کاٹ دو اور میں کہتا کہ یہ مکالمہ تو اس کھیل کی جان ہے جو قرانی حکم سُجھاتا ہے کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا۔ مگر یہ بات اربابِ اختیارکو سمجھ میں آتے ہوئے بھی سمجھ میں نہ آتی۔وہ بھُٹو ہی کو مسیحا سُجھتے رہے!!ڈرامہ رُکا رہا اور اصرار بھی جما رہا ۔ حتیٰ کہ ایک دن بُرہان صاحب نے میری ٹھوڑی چھُوکرمِِنّت کی کہ یہ مکالمہ نکال دوں۔ میں پسیج گیا اور جہاں سے وہ کہہ رہے تھے وہاں سے مکالمہ کاٹ دیا۔ ڈرامہ ٹیلی کاست ہُوا، اور اُس برس پی ٹی وی ایوارڈ کے لیے یاور حیات اور محمد نثار حسین کے ساتھ مجھ عاجز کو بھی نامزد کر دیا گیا۔ مجھے یاد ہے میں اُس وقت کراچی سنٹر کے پروگرام مینیجر صاحب کے دفتر میں دیگر ساتھیوں کے ساتھ موجود تھا جب یہ خبر آئی۔ میں نے بے ساختہ کہا ،’’ اس بار ایوارڈ مجھے ملے گا۔‘‘ کسی نے پوچھا، کیوں؟ میرا جواب تھا ’’ دو وجوہات کی بنا پر۔ ایک تو یہ کہ میرا ڈرامہ بہت اچھا ہے اور دوسرے یہ کہ اب کے میری باری ہے۔‘‘ اتفاق دیکھیے کہ اُس برس کا ایوارڈ میرے نام رہا۔ ہم تینوں نامزدگان ساتھ ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے آصف رضا میر سے ایوارڈ وصول کیا اور آ کر یاور حیات کے قدموں میں رکھ دیا۔ میں آج بھی یاور حیات کو ٹی وی کا بہترین پروڈیوسر گردانتا ہُوں۔جہاں تک متنازعہ مکالمے ،’’ابو آپ پریشان نہ ہوں‘ کوئی آئے گا!‘‘ کا تعلق ہے اُسے میں نے برہان صاحب کے حکم کے مطابق کاٹ تو دیا تھا مگر خوبیٔ قسمت سے وہ مکالمہ اُسی جگہ کے آس پاس ہی دہرایا گیا تھا ۔ ڈرامہ میرے پاس موجود نہیں اور نہ ہی مجھے یاد ہے کہ یہ مکالمہ کیسے ڈرامے میں بولا گیا ؟ تاہم  بولا ضرور گیا ہے! 
اگلے برس میں سارا سال پاک چائنا کو پروڈکشن میں مصروف رہا اور صرف ایک ہی کھیل اسد محمد خاں کا لکھا ’’رت جگا‘‘ پروڈیوس کر سکا۔ لطیفہ یہ ہُوا کہ ’’رت جگا‘‘ کھیل پر پی ٹی ایوارڈ کے لیے میں پھر نامزد ہو گیا ۔ مقابلے پر سید حامد قاسم جلالی بھی تھے۔ جب مجھے اپنی نامزدگی کا پتہ چلا تو میرے منہ سے بے ساختہ نکلا ، ’’اس بار مجھے ایوارڈ نہیں ملے گا‘‘ پوچھا گیا ،’’کیوں؟‘‘ میں نے کہا تھا ،’’ دو وجوہات کی بنا پر۔ ایک تو اس لیے کہ میرا کھیل بہت اچھا ہے اور دوسرے اس لیے کہ میری باری نہیں ہے۔‘‘ مجھے ایوارڈ نہ ملا۔’’جو گہرائی میں گئے‘‘ ایک انتہائی علامتی کھیل تھا جو قطعی طور پر علامتی نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ تاج حیدر نے انتہائی چابک دستی سے اس کھیل کا تانا بانا بُنا تھا۔اس کھیل کی ابتدا ہی شاہ لطیف کی ایک وائی سے ہوتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جنہوں نے گہرائی میں غوطے لگائے اُن ہی نے آب دار موتی پائے۔ کہانی کیا تھی؟ انتہائی پیسے والے متعدد کاروبار کرتے ہیں لیکن اُنہیں اس کا احساس نہیں ہے کہ اُن کے دھندوں سے غریبوں کی جانیںبھی ضائع ہو سکتی ہیں۔ ڈرامے میں ان پیسے والوں کو’ صاحب ‘کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ان کا دھندہ سمندر سے بھی متعلق ہے۔ان کے کارندے غریب غرباء سے پیسے لے کر مختلف مجبور لوگوں کو نزدیکی عرب ریاستوں کے ساحلوں تک پہنچاتے ہیں۔ ایک ایسی ہی مخدوش کشتی پر پندرہ بیس مسافررات کی تاریکی میں سوار کیے جاتے ہیں ۔مسافر پاکستانی قوم کے علامتی کردار ہیں جن میں کمینے بھی ہیں اور کرپٹ بھی، معصوم بھی ہیں اور بد معاش بھی۔ کشتی کا ’’ناکوا‘‘ یعنی کیپٹن(ظہور احمد) ایک ایسا کردار ہے جو ویسے تو رف اینڈ ٹف ہے مگر اُسے بھی معلوم نہیں وہ بھی صاحب لوگوں کے ذاتی مفاد کے لیے ہی کام کر رہا ہے۔وہ انسانیت سے عاری نہیں ہے۔ مگر وہ سخت گیر کپتان ہے۔کشتی میں ایک کمینہ صفت انسان(لیاقت درانی) بھی ہے جو‘ ان گنے چنے مجبوروں کو بھی دھوکے اور سازش سے لوُٹتا ہے،کشتی بیچ سمندر خراب ہو جاتی ہے اور باوجود ناکوا اور اُس کے ساتھیوں کی کوشش کے ٹھیک نہیں ہو رہی۔بچارے مسافر بیمار کشتی میں بیماری، بھوک اور پیاس سے ایک ایک کرکے مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔صرف ایک مسافر ابھی تک زندہ ہے لیکن نڈھال ہے۔ اُسے اُس کی بچی اُس کے اپنے فریبِ نظر کے تحت نظر آتی ہے جو اُسے تسلی دیتی ہے کہ کوئی آئے گا ! اور ایک دن کوئی آجاتا ہے اور پکار پکار کر پوچھتا ہے،’’کوئی ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟نڈھال ،خراب انجن  کے پاس بندھا ہُوا مگر زندہ مسافر اپنی بچی کُھچی پوری طاقت کے ساتھ چیختا ہے،’’ہاں میں زندہ ہو۔۔۔۔ں۔‘‘میرے سامنے یہ کھیل تاج حیدر نے یہ کھیل لکھا، میں نے اِسے پروڈیوس کیا، میں نے اِسے ڈائریکٹ کیا، میں نے ہی اِسے ایڈٹ کروایا۔اس دوران میں جب جب بھی میں اُس چھوٹے سے سین کو دیکھتا ‘ میں بے ساختہ رونے لگتا۔ وہ سین یہ ہے: باپ(قوی)ایجنٹوں (لطیف کپاڈیہ اور اُس کا ساتھی)کے ذریعے کشتی پر سوار ہو کر کئی دن پہلے سفر پر جا چکا ہے۔ ماں(روحانی بانو) اور بیٹی ایجنٹوں سے کئی بار پوچھنے آتی ہیںکہ ابھی تک باپ کے پہنچنے کی اطلاع کیوں نہین آئی ۔ ایجنٹ جھوٹی تسلّیاں دیتے رہتے ہیں۔کشتی خراب ہو چکی ہے۔رات بچی ابو کے بارے میں ماں سے پوچھتی ہے کہ ابو کے پہنچنے کی اطلاع کیوں نہیں آ رہی۔بچی ماں سے کہتی ہے کہ ابو کہتے تھے وہ ماں کے ہاتھوں تنگ آ کر جا رہے ہیں۔اس پر جنجھلائی ہوئی ماں بچی کو تھپڑ مارتی ہے اور خود ہی رونے لگتی ہے۔ بچی معصومیت سے کہتی ہے، ’’امی آپ کیوں رو رہی ہیں میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی۔‘‘اور جب بھی میں یہ سین دیکھتا بے اختیار میرے آنسو بہنے لگتے۔کچھ ایسا تھا وہ دل خراش اور عظیم کھیل۔تاج حیدر کا لکھا ’’جو گہرائی میں گئے‘‘۔   

ای پیپر دی نیشن