عزیز علوی
حکومتی سطح پر اچانک تبدیلیوں سے قومی سیاسی افق پر نئے بادل چھا جانے سے نئی نئی بحثیں شروع ہو گئی ہیں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کا مرحلہ کیا آیا اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی وزیر اعظم عمران خان نے اپنے سیاسی اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کیلئے مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور باپ پارٹی کے ساتھ براہ راست مذاکرات بھی کئے لیکن ان کے کچھ اتحادی ان سے الگ ہوگئے اور اپوزیشن کا ساتھ دینے چل پڑے جبکہ مسلم لیگ ق کے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے اپنی وزارت سے بھی استعفیٰ دے دیا اپوزیشن نے عمران خان کے پاور سینئر پنجاب میں جاکر وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد پیش کردی یہ صورت حال تحریک انصاف کی مرکزی اور صوبائی دونوں حکومتوں کے لئے چیلنج بن گئی وزیراعظم عمران خان کے ہاتھ امریکہ میں پاکستانی سفیر کا خط اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے خلاف ترپ کا پتہ بن کر آیا جسے انہوں نے تحریک عدم اعتماد کو ناکام َاور غیر موثر بنانے کے لئے اپنے سینے سے لگائے رکھا وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کا مرحلہ روکنے کیلئے وزیراعظم عمران خان نے ان سے استعفیٰ لے کر مسلم لیگ ق کے رہنماء اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی سے بنی گالہ میں ملاقات کرکے انہیں پنجاب میں وزارت اعلیٰ دینے کا اعلان کر دیا جوں جوں تحریک عدم اعتماد قریب آتی گئی عمران خان اسی تیزی سے عوامی جلسے منعقد کرنے لگے تاکہ وہ رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرسکیں اور دنیا میں یہ پیغام دے سکیں کہ وہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد عوام میں کہیں زیادہ پزیرائی رکھتے ہیں تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کو اچانک برطرف کردیا گیا اور ان کی جگہ تحریک انصاف کے سرکردہ رہنمائ عمر سرفراز چیمہ کو نیا گورنر پنجاب مقرر کردیاگیا اسی دوران قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد پر 3 اپریل کو ووٹنگ کرانے کا مرحلہ آیا قومی اسمبلی کا اجلاس زیر صدارت ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری منعقد ہوا اپوزیشن اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لئے ایوان میں موجود تھی لیکن اپوزیشن کی جانب رخ کر نے کی بجائے فلور قائم مقام وزیر قانون چوہدری فواد حسین کو دیا جنہوں نے ایوان میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت ختم کرنے کیلئے عالمی سازش کے تحت تحریک عدم اعتماد لانے پر سوالات اٹھائے اور اپوزیشن کی بیرونی طاقت کے ساتھ ملی بھگت کا معاملہ اٹھایا اور اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد آرٹیکل 5 کے زمرے میں دیکھ کر فیصلہ کرنے کی درخواست کی ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری نے اپنی رولنگ دی اور تحریک عدم اعتماد مسترد کردی جس پر اپوزیشن ہکا بکا رہ گئی اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے کے فوری بعد وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپنے مختصر خطاب میں صدر مملکت کو قومی اسمبلی توڑنے کی سفارش کر دی جس پر قومی اسمبلی توڑ کر 90 روز میں الیکشن کرانے کا اعلان کردیا گیا اسمبلی توڑنے کے اعلان کے ساتھ ہی وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہوگئی کیبنٹ ڈویژن نے وزیراعظم عمران خان کو بھی بطور وزیراعظم ڈی نوٹیفائی کردیاتاہم اس کے ساتھ ہی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے عمران خان کو نگران وزیر اعظم کے تقرر تک بطور وزیر اعظم فرائض انجام دینے کی سفارش کر دی اورپھر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم عمران خان اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمد شہباز شریف کو مکتوب ارسال کیا کہ وہ نگران وزیر اعظم کیلئے نام تجویز کریں وزیر اعظم عمران خان نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کا نام بطور نگران وزیر اعظم صدر مملکت کو تجویز کردیا جبکہ اپوزیشن لیڈر میاں محمد شہباز شریف نے قومی اسمبلی توڑنے کے اقدام کو قانون شکنی قرار دے کر نگران وزیراعظم کا نام بھجوا نے سے معذرت کرلی اس صورتحال میں ملکی سیاسی م منظر نامہ کشمکش میں مبتلا ہو رہا ہے حکومت نے قومی اسمبلی کا الیکشن کرانے کی ٹھان رکھی ہے لیکن اپوزیشن اس صورت حال میں نہ صرف الیکشن کی طرف جانے بلکہ قومی اسمبلی توڑنے اور عدم اعتماد کی ووٹنگ نہ کرانے کے آئینی اور قانونی سوالات کے جواب بھی چاہتی ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی جماعت کو حکم دے دیا ہے کہ وہ روزانہ ملک گیر احتجاج کرے اور یہ بتادے کہ ہم حکومت تبدیلی کے خلاف اپوزیشن کو عالمی سازش کا حصہ بننے کی مذمت کرتے ہیں اور ہم سب عمران خان کے ساتھ اور شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
قومی اسمبلی کے بغیر کیسا اپوزیشن لیڈر؟
Apr 07, 2022