جس حکمران کا دل کرتا ہے وہ آئین توڑتا ہے، آئین کو روندتا ہے یا آئین پر عملدرآمد کے بجائے ذاتی خواہشات کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔ ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں آئین کی پامالی نظر آتی ہے، جہاں آئین شکنی نظر آتی ہے، جہاں آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھنے کے رویے نظر آتے ہیں، جہاں ذاتی مفادات کو آئین پر فوقیت دینے کا رجحان دکھائی دیتا ہے۔ درحقیقت پاکستان میں ہر حکمران آئین کو صرف اس وقت اہمیت دیتا ہے جب اسے اپنی حکومت بچانی ہو، سیاسی مخالفین سے انتقام لینا ہو، احتجاج کرنا ہو، احتجاج کا دائرہ کا بڑھانا ہو۔ ایسے مواقع بہت کم ملتے ہیں جب آئین کو عام آدمی کی فلاح و بہبود کی روشنی میں دیکھا گیا ہو، عام آدمی کے حقوق کے حوالے سے بحث کی گئی ہو، عام آدمی کے بنیادی حقوق کے حوالے سے بھی بہت چیزیں ہیں لیکن آپکو ہمیشہ آئینی لڑائیاں صرف حکومت کے قیام اور خاتمے کے وقت ہی نظر آئیں گی۔ ملک کو ان دنوں بھی آئینی بحران کا سامنا ہے اور اس آئینی بحران کے بعد اب کوئی ایسی حکومت نہیں بچتی جو آئین شکنی کی مرتکب نہیں ہوئی۔ کوئی آئین کا سہارا لے کر غریبوں کا خون چوستا رہتا ہے، کوئی آئین کی تقریر کرتے کرتے اصل ذمہ داریاں بھول جاتا ہے، کوئی عدالتوں پر حملہ آور ہوتا ہے، کوئی اقتدار کے لیے آئینی ترامیم کرتا ہے، کوئی ایمرجنسی نافذ کرتا ہے، کوئی کاغذ کا ٹکڑا قرار دیتا ہے۔ سب نے اپنی اپنی جگہ آئین شکنی ضرور کی ہے۔ ان دنوں بھی سب اسی آئین پر اپنی اپنی جنگ لڑ رہے ہیں جسے سب اپنے اپنے وقت میں ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی کمی رہ گئی تھی انہوں نے بھی اپنا نام آئین شکنی
کرنے والوں کی فہرست میں لکھوا لیا ہے بلکہ یہ تو سب سے آگے نکل گئے ہیں۔ شاید تاریخ میں پی ٹی آئی آئین توڑنے والوں میں سب سے نمایاں نظر آئے۔ آج سندھ ہاؤس اور لاہور میں ہونے والے کاموں کو برا بھلا کہنے والے بتا سکتے ہیں جب لوگ ان کے پاس آ رہے تھے انہوں نے کیوں بازو پھیلا کر سب کو خوش آمدید کہا، جب ایسے لوگ آتے ہیں تو آپ انہیں روکتے نہیں اور جب جاتے ہیں تو
تکلیف ہوتی ہے۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا بڑا المیہ ہے۔ سیاسی جماعتیں کسی نظریے کے بغیر سیاست کرتی ہیں سب کا ایک ہی نظریہ ہے اور وہ نظریہ ضرورت یا نظریہ حکومت ہے، ضرورت کے وقت کچھ غلط نہیں رہتا اور حکومت حاصل کرنے کے لیے ہر چیز پر سمجھوتا کیا جا سکتا ہے۔ جب آپ مصلحت کا شکار ہوتے ہیں اور اصولوں پر سمجھوتا کرتے ہیں تو پھر وہی حال ہوتا ہے جو ان دنوں پاکستان تحریکِ انصاف کا ہو رہا ہے، کچھ شک نہیں کہ مستقبل میں ایسے ہی حالات کا سامنا کسی اور سیاسی جماعت کو بھی کرنا پڑے۔ جو اپنی برسوں کی وابستگی کو بھلا کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے پھر چند برس پی ٹی آئی میں گذار کر مختلف جماعتوں کا حصہ بن رہے ہیں وہ مستقبل میں ایسے فیصلے دوبارہ بھی کر سکتے ہیں۔ ایک آئین ہے جو تحریری شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ ایک سبق ہمیں مذہب سے ملتا ہے، اخلاقی طور پر مضبوط ہونے کا، وعدے نبھانے کا، حق کا ساتھ دینے کا۔ ہمیں مذہب بتاتا ہے کہ تمام اعمال ہمارے سامنے رکھے جائیں گے۔ ہمیں ایک ایک عمل کا حساب دینا ہو گا، ہم کیا کرتے رہے، ہم سے کسی دوسرے کے عمل کا حساب نہیں مانگا جائے گا لیکن جو جو ہم نے کیا ہے وہ پوچھا جائے گا۔ اگر ہم غلط کر رہے ہیں تو جواب دینا ہو گا۔ ہمیں لوگوں کی وکالت کرنے اور کسی بھی عہدے کے لیے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے سے پہلے یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔
ملک کو ان دنوں جس بحران کا سامنا ہے یہ واضح طور پر انتشار کا راستہ ہے۔ جب آئین و قانون پر عملدرآمد نہیں ہو گا اس کے نتیجے میں بدامنی پھیلے گی۔ انتشار پیدا ہوتا، قانون کی وقعت کم ہوتی ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں، جرائم پیشہ عناصر ایسے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ملک دشمنوں کو پاکستان کے حوالے سے منفی باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے، قانون توڑنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ موجودہ حالات کی ایک وجہ عدم برداشت بھی ہے۔ سیاست دانوں میں برداشت کی کمی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے اس حوالے سے بری مثال قائم کی ہے جو کچھ انہوں نے سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا ہے آنے والے دنوں میں اگر کوئی دوسری سیاسی جماعت حکومت بناتی ہے تو اس کی بھی ساری توجہ انہیں پھنسانے پر ہو گی۔ ان حالات سب سے زیادہ نقصان عام پاکستانی کا ہوتا ہے کیونکہ سیاسی قیادت حقیقی مسائل پر بات کرنے اور عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے سیاسی مسائل میں الجھی رہتی ہے اور عام آدمی پر بوجھ بڑھتا رہتا ہے۔ چند سال پہلے تک اگر کسی گھر میں دو افراد کے کام کرنے سے کچن چلتا تھا اور آج چار افراد کے کام کرنے سے بھی کچن نہیں چلتا۔ حالات جس طرف جا رہے ہیں یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ آئین توڑنے والے آئین شکنی کا دفاع کر رہے ہیں تو دوسری طرف آئین کا سہارا لیکر حکومت بنانے کے خواہشمند بھی میدان میں ہیں۔ نظریں سپریم کورٹ پر ہیں۔ جب تک حکمران طبقہ آئین کی حقیقی روح پر عمل نہیں کرتا اس وقت تک مسائل کم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اس سے پہلے ہمیں اخلاقی طور پر مضبوط ہونے کی ضرورت ہے اور اخلاقیات کا وہ سبق جو ہمیں مذہب سے ملتا ہے جب تک ہم اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے کسی صورت اصلاح ممکن نہیں ہے۔ اب مولانا فضل الرحمان جو کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ہیں انہوں نے رمضان المبارک کے پہلے جمعے کو یومِ تحفظِ آئین کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں آئین کی توقیر نہیں رہتی تو پاکستان کے وجود پر سوالیہ نشان ہوگا۔ مولانا نے اداروں سے آئین کے تحفظ کے لیے کردار ادا کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔ آج سپریم کورٹ میں قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس پر فیصلے کا امکان ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کسی بھی قسم کے فیصلے سے ملکی سیاست کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ بہرحال ہمیں عہد کرنا ہے پاکستان کے بہتر مستقبل اور آنے والی نسلوں کو آئین و قانون پر عمل کرنے والا معاشرہ دے کر جانا ہے۔ تاکہ ہمارا شمار بھی مہذب اقوام میں ہو اور آنے والی نسلیں ہم پر فخر کر سکیں۔