گزشتہ سے پیوستہ ’’ولایت نامہ‘‘ میں ہلکی کپکپاہٹ کے شکار اپنے دائیں بازو اور قلم کے حوالے سے یہ وضاحت کی تھی کہ آنیوالے چند دن ملکی اور قومی سیاست پر بھاری ہی نہیں فیصلہ کن بھی ہونگے اور وہی ہوا۔ ڈپٹی سپیکر نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئین پاکستان کی مختلف دفعات کا حوالہ دیتے ہوئے وہ اعلان کر دیا جس کے بارے میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنیوالی گیارہ اپوزیشن جماعتوں اور کروڑوں میں بکنے والے منحرف اراکین نے سوچا تک نہ تھا۔ راتوں رات اقتدار کے حصول کیلئے کھیلی اس سیاسی شطرنج میں اپوزیشن کی بنیادی توجہ تحریک عدم اعتماد کے ان 195 پیادوں پر رہی جنہیں دوڑائے بغیر فتح سے ہمکنار ہونے کی انہیں قوی امید تھی مگر دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے موقع پاتے ہی ایسی چال چلی جس نے اپوزیشن پیادوں کے تمام راستے بند کرتے ہوئے یہ ثابت کر دیا کہ کھیل اور سیاست میں خوداعتمادی اور دماغی صلاحیتوں کا اگر بروقت استعمال نہ کیا جائے تو شکست مقدر بن جاتی ہے۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 69 میں پارلیمنٹ کے اندر ہونیوالی کارروائی کے آئینی تحفظ کے بارے میں جب صاف لکھا ہے تو اپوزیشن کے بڑے بڑے سیاسی کھڑپینچ اس شق کا ادراک کیوں نہ کر سکے؟ سیاست میں اپنی عمریں ’’گلانے‘‘ کے دعویدار ان لیڈروں کو یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ آئین کے آرٹیکل 224/A کے تحت موجودہ وزیراعظم اس وقت تک قومی ذمہ داریاں نبھانے کے مجاز ہیں جب تک نگران وزیراعظم مقرر نہیں ہو جاتا۔ نگران وزیراعظم کی تقرری کیلئے پندرہ دن کا عرصہ درکار ہے۔ عدالت عظمیٰ کا مکمل فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ تاہم یہ بات صاف عیاں ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی لارجر بینچ میں سماعت اگر جاری رہی تو ریاست پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے کئی راز افشاں ہونگے۔ وزیراعظم عمران خان کو فوری طور پر اقتدار سے ہٹانے کے مراسلے سمیت‘ ملکی سا لمیت کو نقصان پہنچانے اور ملک میں نیا سیاسی سیٹ اپ لانے کے سلسلہ میں بھاری رقوم سے خریدو فروخت ہوئی ۔ سیاسی گھوڑوں کا اپوزیشن کو جواب بھی دینا ہوگا۔ قوم اور بالخصوص برطانیہ میں مقیم گیارہ لاکھ پاکستانی اپنی عدالت عظمیٰ سے یہ توقع رکھے ہوئے ہیں کہ آئین اور قانون کی روشنی میں اعلیٰ عدالت ایسا فیصلہ دیگی جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائیگا۔ عدالت عظمیٰ فیصلہ کیا دیتی ہے‘ فی الحال اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کا پنجاب کے گورنر چودھری محمد سرور کو فوری طور پر برطرف کرنے سے پنجاب کی الجھتی سیاسی صورتحال میں ایک واضح تبدیلی کے آثار نمایاں نظر آئے ہیں۔
پنجاب کے ساڑھے تین سال رہنے والے گورنر چودھری محمد سرور کو فوری طور پر برطرف کیوں کیا گیا؟ مجھے معلوم تھا کہ ان پر ڈبل گیم کھیلنے کا الزام ہے مگر میری خواہش تھی کہ ان سے اندر کی وہ بات بھی معلوم کروں جس پر وزیراعظم کو انہیں فوری طور پر برطرف کرنے کے احکامات جاری کرنا پڑے۔ چودھری سرور صاحب کا فون پر کہنا تھا کہ انہیں برطرف کرنے کی بنیادی اور سب سے بڑی وجہ ان کا اصولوں پر ڈٹے رہنا اور پاسداری کرنا ہے۔ میری برطانوی سیاست کے آپ سمیت برطانیہ کے گیارہ لاکھ پاکستانی گواہ ہیں کہ ایک سیلف میڈ شخص ہوتے ہوئے برطانوی رکن پارلیمنٹ کا مشکل ترین سفر میں نے اصولوں اور قواعد و ضوابط کے تحت جس طرح طے کیا یہ میری تربیت کا حصہ ہے۔ نوازشریف دور میں بھی اصولوں پر مستعفی ہوا۔
اس مرتبہ بھی مجھ سے غیرآئینی کام کرانے کی ایسی کوشش کی گئی جو میرے ضمیر اور اصول کیخلاف تھی مگر پارٹی اور وزیراعظم کا وفادار ہونے کے باوجود رات کے اندھیرے میں مجھے برطرف کیا گیا جس کی وزیراعظم سے مجھے قطعی امید نہ تھی۔ 2 اپریل کو عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کرنے اور اس روز اسمبلی کا فوری اجلاس بلانے کے اقدام کو میں نے غیرآئینی تصور کرتے ہوئے پہلے تو دستخط کرنے سے انکار کیا مگر وزیراعظم عمران خان صاحب سے ون ٹو ون ملاقات کے دوران پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور چودھری پرویز الٰہی کے طریقہ سیاست کے بارے میں اپنے تحفظات بیان کرنے کے بعد اس سوچ کے ساتھ میں نے دستخط کر دیئے کہ عمران خان میرے وزیراعظم اور میں تحریک انصاف کا ایک کارکن ہوں۔ آپ کی دانست میں معاملہ جب غیرآئینی تھا تو پھر آپ نے دستخط کیوں کئے؟ میں نے پوچھا۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ بوجھل دل سے میں نے دستخط کئے مگر میں نے کبھی یہ سوچا نہ تھا کہ اس رات مجھے میری وفاداری کے باوجود مجھے یہ سزا دی جائیگی۔ آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ گزشتہ دو سال کے دوران پنجاب کی سیاست اور وزیراعلیٰ کے کمزور فیصلوں اور پنجاب اسمبلی میں جاری رسہ کشی کو دیکھتے ہوئے دس مرتبہ میں نے استعفیٰ دینے کی کوشش کی۔ میں یہ ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ لوگ مجھ پر انگلی اٹھائیں مگر یہاں پھر ’’لائلٹی‘‘ راستے کی رکاوٹ بنی۔ میرا ضمیر آج مطمئن ہے کہ آئین کے خلاف میں نے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جس سے پارٹی میں جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑتا۔ میں ہی نہیں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین سمیت کئی دیگر شخصیات بھی وزارت اعلیٰ کی امیدوار تھیں مگر افسوس! عمران خان کو پارٹی کے 184 اراکین میں سے کوئی بھی معزز رکن وزارت اعلیٰ کیلئے موزوں نہ مل سکا اور یوں عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔
پھر اس ساڑھے تین سالہ دور میں پنجاب میں جو کچھ ہوا‘ ہر تین ماہ بعد جس طرح افسران تبدیل کئے گئے‘ ڈی سی لگوانے کی جس طرح بولیاں لگیں‘ رشوت ستانی کا جس طرح بازار گرم رہا‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ میں نے جہاں تک ممکن ہو سکا آواز اٹھائی مگر جن پہ تکیہ تھا وہی پتے جب ہوا دینے لگیں تو غیروں سے شکوہ کیا۔ آئندہ کا سیاسی لائحہ عمل؟ میں نے پوچھا۔ اس بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ حالات بدستور مخدوش ہیں۔ آپ کو سب سے پہلے آگاہ کروں گا۔ چودھری سرور نے ایک قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔