انتہاپسندی ایک رویہ ہے اور اس رویے کے بننے میں کئی عوامل کارفرماہوتے ہیں۔یہ عوامل اپنی ساخت میں جتنے سادہ لگتے ہیں اتنے یہ ہوتے نہیں ہیں۔ رویے رجحان میں بدلتے ہیں اور رجحان مخصوص بیانیوں پر پروان چڑھتے ہیں۔ جب کچھ رجحانات خطرے کی حدوں کو چھونے لگتے ہیں تو ان کی مختلف سیاسی، سماجی، مذہبی اور نفسیاتی ترجیحات ہوتی ہیں۔ ان موضوعات پر تحقیق مسلسل جاری ہے لیکن فی الوقت یہ یقین کرنے میں وقت درکارہے کہ وہ کیا عمل ہے جوکسی فرد کی ذہنی کیفیت یکدم تبدیل کردیتاہے اور وہ دہشت گردی کا ایندھن بننے پر تیارہوجاتاہے؟ لیکن یہ طے شدہ امر ہے کہ ایسے افراد دہشت گردی کے نیٹ ورکس سے منسلک ہونے سے پہلے مذہبی اجتماعیت کا حصہ بن چکے ہوتے ہیں اور عموماً ان کا یہ سفر غیرعسکری مذہبی جماعتوں اور تحریکوںسے شروع ہوتاہے۔غیرعسکری مذہبی قوتیں ابہام کا شکارہیں اور وہ دہشت گردی کی مکمل مخالفت کرنے سے ہچکچاتی ہیں اور اس ابہام کا الزام اپنے اوپر لینے کیلئے تیار نہیں۔ اب دینی مدارس یا ان سے منسلک تنظیموں کے وابستگان دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہیں تو جدید مذہبی ادارے ان سے اپنے آپ کو الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب جدید تعلیمی اداروں سے نکلے ہوئے افراد دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہیں تو مدارس کے وابستگان انگشت نمائی دوسری جانب کرتے ہیں۔ یہ مسئلے کے ادراک سے انکار اور راہ فرار کے سوا کچھ نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شدت پسندی کا مسئلہ خاصا پیچیدہ ہے اور ریاست اسے فوری حل کرنا چاہتی ہے لیکن یہ حل کیا ہو؟ بات گھوم پھر کر بیانیے پر آکر رک جاتی ہے۔ بیانیے کو ایک موم کی ناک سمجھاجاتاہے کہ جیسے چاہے موڑلی یا گھمادی جائے۔ نہ صرف حکومت بلکہ دانشور طبقے کا ایک حصہ بھی اس امر پر یقین رکھتاہے کہ بیانیے آرڈر پر تیارکئے جاسکتے ہیں۔ گویا جب ایک بیانیے کی افادیت باقی نہ رہے یا اس سے نقصان ہونے لگے تو فوری طور پر اسے نئے بیانیے سے تبدیل کردیاجائے۔اس حوالے سے پاکستان میں دو آراء پائی جاتی ہیں ان میں پہلا خالصتاً مذہبی بیانیہ ہے اور ریاست نہ صرف اسے قبول کرتی ہے بلکہ خود کو اس اقیم کا محافظ بھی گردانتی ہے۔ دوسرا بیانیہ سیکولر ہے جسے متبادل بیانیہ بھی کہاجاتاہے جوکہ جدید اورترقی پسند سماج کا تصور پیش کرتاہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ سیکولر طبقے کی جانب سے اس مسئلے کا طویل مدتی حل تجویز کیاجاتاہے جس میں نصابی اصلاحات سے ثقافتی اظہار اور سماج وریاست کے باہمی تعلقات میں تبدیلی سمیت بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ یقیناً یہ دہشت گردی کے مسئلے کا فوری حل نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نظریے کی جنگ میں ریاست مدد کیلئے اپنی مذہبی نظریاتی اتحادیوں کی جانب واپس ہولیتی ہے۔
دوسری جانب مذہبی طبقہ مقتدر اشرافیہ کا حصہ بن کر اپنی خدمات پیش کرتاہے تاہم مذہبی رہنما اس مسئلے کا ٹھوس حل پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ دہشت گردی کے واقعات کی محض مذمت اور ذمہ داوں کو بھٹکے ہوئے قرار دینے سے مقصد پورا نہیں ہوتا۔ یہی نہیں بلکہ اس سے شدت پسندانہ نظریات کی کشمکش کم کرنے کیلئے موثر متبادل بیانیہ تشکیل دینے میں کوئی مدد نہیں ملتی۔شدت پسندوں کے بیانیے کی طاقت انکی مذہبی دلیل یا اسلام کی مخصوص تشریح میں چھپی ہے۔ اس لیے مذہبی انتہا پسندوں کی اصل طاقت انکی نظریاتی ساخت میں پوشیدہ ہے جس کی بنیادی مذہبی حجت پر استوار ہے اور اسے سیاسی استدلال سے تقویت ملتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھاجائے تویہ صرف سطحی بیانیوں کی آویزش نہیں ہے بلکہ اس کا مذہبی استدلال یا اسلامی احکامات کی تشریح سے گہرا تعلق نظرآتاہے۔ مذہبی اشرافیہ متبادل بیانیوں کیلئے تیار نہیں ہے یا اس میں نیا بیانیہ پیش کرنے کی اہلیت میں نہیں پائی جاتی ۔ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان میں نفرت پر مبنی تقاریر پر پابندی کے نکتے کو درست یا غلط طور پر انتہاپسندی کے خاتمے کے اقدامات کا متبادل سمجھاہے، تاہم غور کیا جائے تو قانون نافذ کرنیوالے اداروں سے رابطہ اور ان پر اعتماد کی کمی تمام مسائل کی جڑ ہے جسے تاحال کمزور نہیں کیاجاسکا۔ یہی خلا پر کرنے کیلئے نیکٹا کا قیام عمل میں آیا تھا مگر حکام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سامنے آکر لڑنے کے بجائے بیانیے کنٹرول کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔عموماً نیکٹا کے غیرموثرہونے کیلئے سلامتی اور قانون نافذ کرنیوالے طاقتور اداروں کی جانب سے عدم تعاون کو ذمہ دار ٹھہرایاجاتاہے مگر خود حکومت نے بھی نیکٹا کومناسب وسائل اور اعانت مہیا نہیں کی۔ اگر ایسا ہوتاہے تو دہشت گردی کے خلاف بنایاگیا یہ ادارہ فعال اور موثرکردار ادا کرسکتا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نیکٹا نے اپنے لیے یہ انتہائی مشکل کام منتخب کرتے ہوئے یہ غلط اندازہ لگایا تھاکہ اسے متبادل بیانیے تخلیق کرنے میں کسی ادارے کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوگا۔بیانیے نعرے یا جھنکار نہیں ہوتے۔ بیانیے کسی معاملے پر وسیع تر مطابقت اور کسی قوم کی سوچ کا اظہار ہوتے ہیں۔ ان کی جڑیں کسی قوم کی تہذیبی گہرائی اور افراد سماجی کے رویوںمیں پیوست ہوتی ہے مگر اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بیانیے کی بنیاد ایک معقول ساخت پر قائم ہوتی ہے۔ یہ ساخت یاڈھانچہ مخصوص اقدار کا حامل ہوتاہے جن کو اپنانے سے رویے تشکیل پاتے ہیں اور انہیں راہنمائی ملتی ہے ایسے کاموںمیں ریاست کا بھی اہم کردار ہے مگر اس کیلئے سماج کی رضامندی اور اتفاق رائے بھی شامل ہوتے ہیں۔ریاست ایک ایسے عمل کا اہتمام کرسکتی ہے جہاں سماج کے مختلف حصے (مختلف النوع رائے اور مختلف ثقافتی،سماجی وشعوری پس منظرکے حامل) باہم گفت وشنیدکرسکتے ہیں۔ حکومت ایک نیشنل ڈائیلاگ فورم بھی قائم کرسکتی ہے اس سے سکالرز، ماہرین تعلیم، سیاسی ومذہبی راہنمائوں اور پالیسی سازون کو تمام اہم مسائل پر گفت وشنید اور ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کیلئے پلیٹ فارم میسر آجائیگا۔
اہم نکتہ
Apr 07, 2022