اسلام آباد(نا مہ نگار)قومی اسمبلی نے جمعرات کو پنجاب میں عام انتخابات ازخود نوٹس کیس کے حوالے سے قرارداد منظور کر لی جس میں کہا گیا کہ تین رکنی بنچ کے فیصلے کو پارلیمان مسترد کرتی ہے اور آئین و قانون کے مطابق اکثریتی بنچ کے فیصلے کو نافذ العمل قرار دیتی ہے، قرارداد میں وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اس خلاف آئین و قانون فیصلے پر عملدرآمد نہ کریں جبکہ سپریم کورٹ کے فل کورٹ سے اس پر نظرثانی کا مطالبہ کیا گیا ہے،قراردار کی منظوری کے وقت وزیر اعظم شہباز شریف بھی ایوان میں مو جود تھے۔، قومی اسمبلی نے مسجد اقصی میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف بھی متفقہ قرارداد منظور کرلی۔جمعرات کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی صدارت میں ہوا، وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضی جاوید عباسی نے ایوان میں تحریک پیش کی کہ رولز معطل کرکے قرارداد پیش کرنے کی اجازت دی جائے جس کی منظوری کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر خالد مگسی نے ایوان میں قرارداد پیش کی کہ 28 مارچ 2023 کو اس ایوان کی منظور کردہ قرارداد میں ازخود نوٹس کیس نمبر ایک 2023 میں سپریم کورٹ کے چار معزز جج صاحبان کے اکثریتی فیصلہ کی تائید کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد اور اعلی عدلیہ سے سیاسی و انتظامی امور میں بے جا مداخلت سے گریز کا مطالبہ کیا تھا، اکثر حلقوں نے بھی فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسے منظور نہیں کیا گیا تھا، نہ ہی ایک کے علاوہ باقی سیاسی جماعتوں کا مقف سنا گیا، پارلیمنٹ کی اس واضح قرارداد اور سپریم کورٹ کے چار جج صاحبان کے اکثریتی فیصلے کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے تین رکنی مخصوص بنچ نے اقلیتی رائے مسلط کر دی جو سپریم کورٹ کی اپنی روایت، نظریہ اور طریقہ کار بھی نفی ہے،اکثریت پر اقلیت کو مسلط کیا گیا، تین رکنی اقلیتی بنچ کے فیصلے کو پارلیمان مسترد کرتا ہے اور آئین و قانون کے مطابق اکثریتی بنچ کے فیصلے کو نافذ العمل قرار دیتی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ اجلاس آئین پاکستان کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر مقدمات کو فل کورٹ میں سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے کے عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ کے فیصلے کی تائید نہیں کرتا اور ایک ایگزیکٹو سرکلر کے ذریعے اس پر عملدرآمد روکنے کے فیصلے کو تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے، یہ ایوان اسی عدالت کے عجلت میں ایک اور بنچ کے روبرو سماعت اور چند منٹ میں فیصلے پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کرتا ہے جو سپریم کورٹ کی روایت اور نظریہ کی سرین خلاف ورزی ہے جو ناقابل قبول ہے۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان سیاسی معاملات میں بے جا عدالتی مداخلت پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے، حالیہ اقلیتی فیصلہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کر رہا ہے اور وفاقی اکائیوں میں تقسیم کی راہ ہموار کر دی گئی ہے، یہ ایوان ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کیلئے آئین و قانون میں درج طریقہ کار کے عین مطابق ملک بھر میں ایک ہی وقت انتخابات کے انعقاد کو ہی تمام مسائل کا حل سمجھتا ہے، یہ ایوان سی پی نمبر 5، 2023 تین رکنی بنچ کا اقلیتی فیصلہ مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم اور کابینہ کو پابند کرتا ہے کہ اس کےخلاف آئین و قانون فیصلہ پر عمل نہ کیا جائے۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان دستور آرٹیکل 63 اے کی غلط تشریح اور عدالت عظمی کے فیصلہ کے ذریعے ازخود تحریر کئے جانے کے فیصلے پر بھی تشویش کا اظہار کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ عدالت عظمی کا فل کورٹ اس پر نظرثانی کرے۔ سپیکر نے قرارداد ایوان میں پیش کی جسے منظور کر لیا گیا۔پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی محسن لغاری نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس ایوان کو ایک ایوان ہی رہنے دیں، ہم اس کو جلسہ گاہ نہ بنائیں تو بہتر ہوگا۔اس بات پر اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ فیصلے کے بعد بات ہوسکتی ہے جس پر محسن لغاری نے کہا کہ کیا ہم پارلیمان اور عدلیہ کی جنگ چاہ رہے ہیں؟ اگر عدلیہ کو زیر بحث لانا ہے تو آئین میں لکھ دیں کہ ججز پر بھی یہاں بات ہوگی، ہم خطرناک راستے پر جارہے ہیں۔ پبلک اکانٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ احتساب سب کا ہونا چاہئے، سپریم کورٹ کے ججوں کا بھی آڈٹ ہونا چاہئے، پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کرپشن کے جو کیسز بے نقاب کرتی ہے اس پر سپریم کورٹ حکم امتناعی جاری کر دیتی ہے۔نور عالم خان نے کہا کہ ایوان کے اندر اور باہر موجود جماعتوں کے لیڈروں سے استدعا ہے کہ وہ پاکستان کی وفاقیت کو نقصان نہ پہنچائیں، انہیں انتخابات کی فکر ہے تاہم یہ فکر نہیں کہ غریب کو آٹا میسر نہیں، معیشت تباہ ہو رہی ہے، سڑکیں بلاک کرکے انتشار پھیلایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف نے بھی نخرے شروع کر دیئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے غریب عوام اور معیشت کے لیے سوچیں اور انتشار ختم کریں، صرف ایک ادارہ سپریم کورٹ آف پاکستان ہے جس کا آڈٹ پبلک اکانٹس کمیٹی میں نہیں ہوتا، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے عرض ہے کہ کونسے قانون کے تحت وہ آڈٹ نہیں کرا رہے، کس قانون کے تحت تنخواہیں بڑھائی جا رہی ہیں، کس قانون کے تحت افسران کو بلا کر زبردستی پلاٹ دیئے جاتے ہیں،
بھاشا ڈیم فنڈ کا آڈٹ کرانا چاہتے ہیں جہاں پر پاکستان کے عوام اور اداروں نے فنڈز دیے ۔انہوں نے کہا کہ مجھے بتائیں کہ عمران خان نے 300 کنال زمین کیسے بنائی، بلٹ پروف گاڑی کہاں سے لائی، زمان پارک کا نیا گھر کس نے بنایا۔انہوں نے کہا کہ کرپشن کے جتنے کیسز پی اے سی میں ہم پکڑتے ہیں اس پر سپریم کورٹ حکم امتناعی جاری کر دیتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں10 سال حکومت کی، اس دوران کتنے وزیروں کوپکڑا گیا، سرکاری ہسپتالوں میں 15 لاکھ کے بیڈ خریدے گئے، ٹیکسٹ بک بورڈ میں تین ارب روپے کا کیس ہے اس پر کوئی کارروائی نیب نے نہیں کی،قرارداد پر بات کرتے ہوئے جے یو آئی کے رکن اسمبلی مولانا اسد محمود نے کہا کہ ہم کسی صورت بھی الیکشن کمیشن کے اختیارات سپریم کورٹ کو نہیں دیں گے، توہین عدالت لگانی ہے تو لگائیں ہم تیار ہیں، تنازع کا آغاز خود سپریم کورٹ کے ججز نے کیا۔انہوں نے کہا کہ آج کل عدالتوں میں فرمائشی فیصلے ہورہے ہیں، عمران خان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھیں گے، عمران خان کے ساتھ الیکشن کی تاریخ طے نہیں کریں گے۔ عمران خان یہودیوں کا ایجنٹ ہے، آئے روز زمان پارک میں ملاقاتیں ہورہی ہیں ہم عمران خان کو کسی صورت دوبارہ اقتدار میں نہیں آنے دیں گے،وفاقی وزیر شازیہ مری نے کہا کہ عدلیہ میں تقسیم پاکستان کے لیے خطرناک ہے، کوئی جمہوریت پسند اس تقسیم سے خوش نہیں، کوئی پاکستانی نہیں چاہتا کہ عدلیہ کے ادارے میں پھوٹ نظر آئے۔ پاکستان غیر یقینی کا متحمل نہیں ہوسکتا، شازیہ مری نے کہا ہے کہ مختلف اوقات میں جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ کبھی معین قریشی کبھی عمران خان کو لایا جاتا ہے، جب مختلف ناموں سے پروجیکٹ لانچ کیے جاتے ہیں، نقصان پاکستان کو ہوتا ہے، عمران خان کو لانے کے لیے دھاندلی کے تمام ریکارڈ توڑے گئے۔شازیہ مری کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سے اختیارات چھیننے کے لیے سازش کی جا رہی ہے۔