امریکی جریدے ٹائم کا سرورق دیکھا، دل باغ باغ ہو گیا، اندر سرورقی مضمون دیکھا، دل داغ داغ ہو گیا۔ واللہ، یہ تجارتی دھوکہ دہی کے مترادف ہے، کیس ہونا چاہیے۔
سرورق پر ہمارے ہیرو کی شاندار، مسکراتی تصویرتھی، سدا بہار جوانی فاتحانہ انداز میں خندہ لب تھی اور اندر کیا مواد تھا؟یہ کہ خان نے پاکستان کی معیشت کو برباد کر دیا۔ معیشت یعنی ملک ہی اجاڑ ڈالا۔ پھر لکھا، پھر خود مسلمانوں کے قتل عام پر چین کی حمایت کرنے والے خان صاحب امریکہ سے امداد کے خواستگار ہیں۔ پھر مزید ہرزہ سرائی کی کہ خان صاحب عورتوں کے بارے میں بے ہودہ گفتگو کرتے ہیں۔ بخدا اتنا جھوٹ۔ ہم نے اور دوسرے لوگوں نے خان صاحب کی جو آڈیوز س±نی ہیں، وہ تو پیار بھری، چاہت کی خوشبو میں بسی گفتگو کے سوا کچھ نہیں تھیں۔ ایسی پ±ربہار، کیف آور گفتگو کو بیہودہ مراد دینے والا ”ٹائم“ خود بے ہودہ ہے۔ بیہودہ کہیں کا۔ ویسے کیا کہئیے، آج کل ٹائم یعنی وقت ہی بیہودہ چل رہا ہے۔
_______________
ہماری طرح پی ٹی آئی کے لوگ بھی ٹائم کا سرورق (کاپی کرکے) اٹھا کر پھولے پھولے پھر رہے تھے، اس کی تصویر شیئر اور ری ٹویٹ کر رہے تھے۔ پھر اچانک کسی نے بتایا کہ میاں دھوکہ ہو گیا، اندر تو کچھ اور ہی لکھا ہے۔ بس ، پھر کیا تھا، سرورق غائب، ٹویٹ بھی ڈیلیٹ۔ اب بس میں نہیں، ہوتا تو ٹائم کا دفتر ہی ڈیلیٹ کر دیتے۔
_______________
خان صاحب کو ٹائم کی اس تجارتی دھوکہ دہی پر اس کے خلاف کیس کرنا چاہیے لیکن کیا کیجئے صاحب، خان صاحب اس معاملے میں ٹھہرے دریا دل، اپنی ذات پر حملے وہ ہمیشہ معاف کر دیتے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے ، برطانوی جریدے گارڈین نے کیا کیا ہرزہ سرائی خان صاحب کے باب میں نہیں کی۔ خیال تھا ایک زوردار کیس اس جریدے پر دائر ہو گا لیکن خان صاحب نے دریا دلی اور وسیع النظری دکھائی، کوئی کیس نہیں کیا۔ کسی نے پوچھا تو کہا، جانے دو، آواز سگاں کم نہ کند رزن گدارا۔ اس سے پہلے فنانشل ٹائمز نے پورا صفحہ ہی کرپشن کے نام سے چھاپ مارا، خان صاحب نے اسے بھی نظرانداز کیا اور وہی ”رزق گدا“ والے مصرعے کا الاپ کر کے بات ٹال دی۔ حوصلہ ہو تو ایسا۔
_______________
اس وسیع الظرفی کا انعام بھی تو خان صاحب کو ملا۔ رقیبوں نے کیسی کیسی رپٹ تھانے میں درج نہیں کرائیں۔ کبھی کہا، بنی گالہ کے کاغذات جعلی ہیں، کبھی یہ شکایت کی کہ بی آر ٹی پشاور میں سینکڑوں ارب کی کرپشن ہوئی، کبھی رنگ روڈ کا کھاتہ کھولا،کبھی توشہ خانے کے ہیرے جواہرات ، گھڑیوں اور ہاروں کا کیس اچھالا، کبھی پراپرٹی ٹائیکون سے ملنے والے -5 ارب کے ”عطیے“ کا ڈھنڈورا پیٹا۔ کچھ ہوا؟ بالکل نہیں، کچھ بھی تو نہیں ہوا۔ مدعی لاکھ ب±راچاہے توکیا ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے جو منظور سہولت کاراں ہوتا ہے
کیا دور ہے یہ دورِ رندانہ مرا
ساقی بھی مرا ہے تو یہ مے خانہ بھی مرا
_______________
بھارت کے ایک بہت کامیاب ہیرو، جنہیں کیریکٹر ایکٹر کہنا زیادہ مناسب ہے، منوج واجپائی نام کے ہیں۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ وہ کم رو تھے اور لوگ انہیں ان کے منہ پر کہہ دیتے تھے کہ تمہاری شکل اتنی اچھی نہیں لگتی۔ چنانچہ عمومی قاعدے کے تحت ان کا ہیرو کے طور پر آنا فلموںمیں ممکن ہی نہیں تھا لیکن پھر ایک دن مشہور ہدایت کار شیام بنیگل نے فلم زبیدہ میں ایک ”شہزادے“ کا رول دے دیا۔
منوج واجپائی کو یقین ہی نہیں آیا۔ انہوں نے بنیگل کو سمجھایا کہ یہ مت کریں، میری شکل ایسی ہے ہی نہیں کہ آپ مجھے اس طرح کا کردار دیں۔ بنیگل نے جواب دیا، میاں، ہم جسے ”ہیرو“ کا کردار دے دیں، وہی ہیرو ہو جاتا ہے۔
یہ ہے شوبز ”میڈیا“ کا جادو۔ اور بات سچ نکلی، منوج واجپائی بھارتی فلم انڈسٹری کے سٹار ہی نہیں، سپرسٹار بن گئے۔
جو طاقت فلم انڈسٹری والے میڈیا کی ہے، لگ بھگ ویسی ہی ابلاغی میڈیا کی بھی ہے۔ فلم کی صنعت جب کسی کو ہیرو کے سنگھاسن سے گرانے پر آتی ہے تو وہ پھر ایک دم وہ ہو جاتا ہے جسے ”ٹکے ٹوکری“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک گلیمرس ہیرو راجیش کھنہ تھے۔ اداکاری نہیں آتی تھی۔ اوورایکٹنگ کرتے تھے بلکہ سپرفیشیل قسم کی اوورایکٹنگ کے عادی تھے لیکن طے تھا کہ اسے ہیرو بنانا ہے چنانچہ وہ ہیرو بنا دئیے گئے اور سپر بلکہ میگا سٹار بن گئے۔ وہ کسی عوامی اجتماع میں آتا تو خبریں چلائی جاتیں کہ کھنہ کو دیکھ کر خواتین دیوانی ہو گئیں۔ اس طرح کی خبریں پڑھ کر اور تصویریں دیکھ کر جو خواتین ابھی دیوانی نہیں ہوئی تھیں، وہ بھی دیوانی ہو جاتیں۔
ایک دن وہ فلمسازوں کی نظروں سے گر گئے یا ان کا دل بھر گیا۔ س±پر ہیرو فلاپ ہیرو بن گیا۔ فلمیں ملنا بند ہو گئیں۔ موصوف کی حالت یہ تھی کہ تقریبات میں آتے تو دیوانی خواتین بھی فرزانی ہو جاتیں، وہاں سے کِھسک جاتیں۔ آخری زمانے کے انٹرویوز وہ رو رو کر دیا کرتے۔
سیاست میں بھی مصنوعی ہیرو بنائے جاتے ہیں۔ اس کے لیے میڈیا کو استعمال کیا جاتاہے۔ ریاستی وسائل صرف کئے جاتے ہیں۔ پھر وہ ہیرو راج کرتا ہے۔ ایک دن سیڑھیاںاور بیساکھیاں کھینچ لی جاتی ہیں۔ نتیجہ، منہ بکتر بند بالٹی میں چھپا کر عدالت آنا پڑتا ہے۔
_______________
خان صاحب نے ایک انٹرویو میں فرمایا، الیکشن نتائج مانوں گا یا نہیں مانوں گا، ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ پتہ نہیں الیکشن میں کیا ہو کیا نہ ہو یعنی الیکشن کا نتیجہ دیکھ کر ہی فیصلہ کروں گا کہ مانوں یا نہ مانوں۔
گویا اس بات کی تصدیق ہو گئی جو کچھ عرصے پہلے لکھی گئی تھی کہ خان صاحب صرف الیکشن کی تاریخ ہی نہیں مانگ رہے، وہ نتائج میں اپنی جیت کی ضمانت بھی مانگ رہے ہیں اور جیت بھی دوتہائی اکثریت والی۔
اب کہئیے، کیا ارادے ہیں، بچت کی ایک ہی صورت ہے، الیکشن کا ڈول ڈال کر نئی مصیبت مول لینے کے بجائے کوئی عارضی حکم نامہ جاری کر کے خان صاحب کو تمام اسمبلیوں میں دوتہائی تعداد دینے کا اعلان فرما دیا جائے اور انہیں تخت پر براجمان کر دیا جائے ورنہ __ وہی انارکی ، خانہ جنگی، خون بہنے کا بیانیہ لوٹ آئے گا۔