ولادت باسعادت امام حسن

Apr 07, 2023

 آغا حامد علی شاہ موسوی 
 کتب احادیث کے اوراق نبی کریم ؐ کی اپنے نواسوں کے ساتھ محبت اور شفقت کے واقعات سے بھر ے پڑے ہیں ۔ پیارے نواسے حسن و حسینؓ کبھی دوران نماز رسول کریم ؐکی پشت پر سوار نظر آتے ہیں اور تاجدار کائناتؐ اپنے سجدے کو طویل فرما دیتے ہیں  تو کبھی نبی کریمؐ مدینہ النبی ؐ کی گلیوں میں نواسوں کو کبھی پشت اور کبھی کاندھوں پر سوار ی کراتے نظر آتے ہیں۔اپنے پیارے نواسوں حسنین کریمین ؓ کے ساتھ رسول کریم کی محبت جہاں انسانیت کیلئے لازوال درس ہے وہاں نبیؐ کے نواسے خوشنودی مصطفی ؐ و خداکیلئے وسیلہ بھی ہیں۔اسی لئے شافع محشرؐ سے شفاعت کا ہرطلبگاربارگاہ مصطفویؐمیںنواسوںکے صدقے جودو سخاکا سوالی نظر آتا ہے ۔نانا ؐنے اپنے نواسوں کے ساتھ محبت کی انتہا کردی جنہوں نے شریعت مصطفوی ؐ کی بقاو عروج کیلئے قربانیوں کو اوج کمال عطا کر دیا۔
نواسہ رسول حضرت امام حسن مجتبیٰؓ جن کے بارے میں اللہ کے پاک نبی ؐ نے ارشاد فرمایا  کہ میرا بیٹا حقیقی سردار ہے  15رمضان 3 ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں سورہ کوثر کی پہلی تفسیربن کر علی المرتضی ؓ و خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ؓ کے صحن میں تشریف لائے۔رسولِ خداؐ کیلئے امام حسن کی آمد بہت بڑی خوشی تھی کیونکہ جب مکہ مکرمہ میں آپ کے بیٹے یکے بعد دیگرے رحلت فرماتے رہے تو مشرکین طعنے دیتے اور آپ کو بڑا صدمہ پہنچتا۔ مشرکین کوجواب کے لیے قرآن مجید میں سورۃ الکوثر نازل ہوئی جس میں آپ کوخوش خبری دی گئی ہے کہ خدا نے آپ کو کثرتِ اولاد عطا فرمائی ہے اور مقطوع النسل آپ نہیں بلکہ آپ کا دشمن ہوگا ۔دنیا میں ہر انسان کی نسل اس کے بیٹے سے ہے لیکن کائنات کی اشرف ترین ہستی سرور کونین حضرت محمد مصطفیؐ کی نسل کا ذریعہ ان کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا یعنی امام حسن و حسینؓ کو قرار دیا گیا۔حضرت عمرابن خطاب ؓ اور حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا’’ہر عورت کی اولاد کا نسب اس کے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہ ؓکے ،میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا باپ ہوں‘‘حضرت عمر ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہر نسب منقطع ہو جائے گا سوائے میرے نسب (اولاد فاطمہ )اور رشتہ کے (حاکم المستدرک ،طبرانی  المعجم الکبیر،احمد بن حنبل فضائل الصحابہ،شوکانی )۔نصاری نجران کے ساتھ مباہلہ کیلئے بھی رسول خدا امام حسن و حسینؓ کو اپنے فرزندان کے طور پر ساتھ لے کر گئے جس پر قرآن کی آیت گواہ ہے ۔
امام حسنؓ کی کنیت ابو محمدتھی اور آپ کے القاب بہت کثیرہیں: جن میں طیب،تقی، کریم اہلبیت ،سبط اور سید زیادہ مشہور ہیں۔ محمدبن طلحہ شافعی کابیان ہے کہ آپ کا’’سید‘‘ لقب خود سرور کائنات کاعطا کردہ ہے (مطالب السؤل ص ۱۲۲)۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ امام حسن ؓسب سے بڑ ھ کر نبی کریم ؐ سے مشابہ تھے ۔ایک مرتبہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت امام حسنؓ کو بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو انہیں اپنے کندھے پر اٹھالیا اور فرمایا ، میرا باپ قربان ! آپ نبی کریمؐسے مشابہت رکھتے ہو۔۔۔چہرہ حسن کا ہے کہ شبیہہِ رسول ؐہے
عالم تمام نقشِ کفِ پا کی دھول ہے
بحارالانور میں ہے کہ جب امام حسنؓ سرورکائنات کی خدمت میں لائے گئے تو آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں ا قامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسنؓ اسے چوسنے لگے اس کے بعدآپ نے دعاکی خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا ۔
امام حسنؓ کی ولادت کے ساتویں دن سرکارکائنات نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی ( اسدالغابۃ )۔  علامہ کمال الدین کابیان ہے کہ عقیقہ کے سلسلے میں دنبہ ذبح کیا گیاتھا  امام شافعیؒ کا کہنا ہے کہ آنحضرت ؐنے امام حسنؓ کاعقیقہ کرکے اس کے سنت ہونے کی دائمی بنیاد ڈل دی ۔
آذان و اقامت کہنے کے بعد آنحضرت ؐ نے حضرت علی سے پوچھا۔ــ’’ آپ نے اس بچہ کا کوئی نام بھی رکھا؟‘‘امیرالمومنین ؓنے عرض کی ۔’’آپ پر سبقت میں کیسے کر سکتا تھا۔‘‘پیغمبر ؐ نے فرمایا ’’ میں بھی خدا پر کیسے سبقت کر سکتا ہوں‘‘چند ہی لمحوں کے بعد جبرائیل ؑ پیغمبر ؐ کی خدمت میں وحی لیکر آگئے اور کہا ’’ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ اس بچہ کا نام حسن ؓ رکھئے۔تاریخ خمیس میں یہ  مذکور ہے کہ جبرائیل امیں وحی لے کر پیغمبرؐکی خدمت میں نازل ہوئے اور فرمایا۔آپ کا پروردگار آپ کو سلام کہتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ علی ؓ آپ کیلئے ایسے ہی ہیں جیسے ہارون موسیٰ  ؑکیلئے تھے لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔آپ اپنے اس فرزند کا نام ہارون کے فرزند کے نام پر ’شبر‘رکھئے ۔ پیغمبر نے فرمایا کہ میری زبان تو عربی ہے۔ جبرائیل نے کہا آپ حسن ؓنام رکھئے۔پیغمبرؐ نے ایسا ہی کیا۔ (تاریخ خمیس) ماہرین علم الانساب بیان کرتے ہیں کہ خداوندعالم نے خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓکے دونوں شاہزادوں کانام انظارعالم سے پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسن وحسین نام سے کوئی موسوم نہیں ہوا تھا۔
امام حسن مجتبیٰ ؓ نے سات سال اور کچھ مہینے تک اپنے نانا رسول خداؐ کا زمانہ دیکھا اور آنحضرت صلی ؐکی آغوش محبت میں پرورش پائی۔ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد جو حضرت فاطمہ زہراؓ کی شہادت سے تین یا چھ مہینے پہلے ہوئی آپ اپنے والد ماجد کے زیر تربیت آ گئے تھے۔فرزند رسول امام حسن مجتبیٰؓاپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد امامت کے درجے پر فائز ہوئے اور ساتھ ساتھ خلافت اسلامیہ پر بھی متمکن ہوئے ۔ تقریباً چھ ماہ تک آپ مسلمانوں کے خلیفہ رہے اور امور مملکت کا نظم ونسق سنبھالے رہے۔آپ کا عہد بھی خلفائے راشدین میں شمار کیا جاتا ہے ۔
امام حسن کے والد بزرگوار خلیفۃ المسلمین حضرت علیؓنے جب 21رمضان کو شہادت پائی اس وقت امام حسن کی عمر 37 سال چھ یوم کی تھی۔ حضرت علیؓ کی تکفین و تدفین کے بعد عبداللہ ابن عباسؓ کی تحریک سے قیس ابن سعد بن عبادہ انصاریؓ نے امام حسنؓ کی بیعت کی اوران کے بعدتمام حاضرین نے بیعت کرلی جن کی تعدادچالیس ہزارتھی یہ واقعہ21رمضان40 ھ یوم جمعہ کاہے( ابن اثیر)اس وقت آپ نے لوگوں سے صاف صاف یہ شرط بیان کردی کہ ’’اگر میں صلح کروں تو تم کو صلح کرنا ہوگی او راگر میں جنگ کروں تو تمھیں میرے ساتھ مل کر جنگ کرنا ہوگی ‘‘سب نے اس شرط کو قبول کرلیا ۔آپ نے انتظامِ حکومت سنبھال کراطراف میں عمال مقرر کئے , حکام متعین کئے اور مقدمات کے فیصلے کرنے لگے۔لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اسلامی معاشرہ انتشار کا شکار ہے اور تو آپ نے تخت حکومت کو خیر باد کہہ دیا۔ کیونکہ امام حسنؓ کا واحد مقصد حکم خدا اور حکم رسول کی پابندی کااجراء تھاامام حسن ؓ نے دین خدا کی سربلندی ،فتنہ وفساد کا سر کچلنے ،کتاب خدا اور سنت رسول پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے اپنے نانارسول خدا ؐ کی صلح حدیبیہ کی تاسی میں تخت حکومت کو ٹھوکر مار کر جو تاریخی صلح کی وہ اسلام کی تاریخ کا ایساناقابل فراموش با ب ہے جس کی نظیر نہیں ملتی ۔امام حسنؓ نے دین خداوندی کے ارتقا،شریعت مصطفویؐ کی بقا ، امت مسلمہ کی فلاح اور امن کے احیاء کی خاطر دنیا کی سب سے بڑی امارت و حکومت کو ٹھوکر ماردی۔
حضرت ابوبکرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہؐمنبر پر جلوہ افروز تھے اور  امام حسنؓ آپ کے پہلو میں تھے کبھی آپ لوگوں کی جانب متوجہ ہوتے اور کبھی ان کی طرف ،پھر آپ نے ارشاد فرمایا،'' میرا یہ بیٹا حقیقی سردار ہے اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو بہت بڑے گروہوں میں صلح کروادے گا''۔امام حسن کیلئے دنیا کی حکومت یا امارت کیا معنی رکھتی تھی امام حسنؓ تووہ ہستی ہیں جنہیں خدا کی وحی کے بغیر کلام نہ کرنے والے رسول برحق ؐ نے دنیا ہی نہیں آخرت میں جنت کا بھی سردارقرار دیا۔
حضرت امام حسن ؓ اس خانوادہ اہلبیت سے تعلق رکھتے تھے جسے پاک و پاکیزہ رکھنے کا اعلان اللہ تعالی نے قرآن میں کیا ہے ۔امام حسنؓ کوئی عام بچے نہ تھے بچپن میںبھی لوح محفوظ کا مطالعہ کرتے تھے ۔حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے آقا ومولیٰؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ، جس نے حسن اور حسینؓ سے محبت کی،اْس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی،اْس سے اللہ تعالیٰ نے محبت کی اور جس سے اللہ نے محبت کی ،اْس نے اسے جنت میں داخل کردیا۔ اورجس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا،اْس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا،وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہو گیا اور جو اللہ کے نزدیک مبغوض ہوا ، اللہ تعالیٰ نے اسے آگ میں داخل کردیا۔ (المستدرک للحاکم)
 امام حسن اپنے بابا امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالبؓ کی مانند عبادت الہی میں بھی یکتا تھے ۔ امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ امام حسنؓزبردست عابد، بے مثل زاہد، افضل ترین عالم تھے آپ نے جب بھی حج فرمایاپیدل فرمایا،کبھی پابرہنہ حج کے لیے جاتے تھے جب آپ وضو کرتے تھے توآپ کے چہرہ کارنگ زرد ہوجا یاکرتاتھا اورجب نمازکے لیے کھڑ ے ہوتے تھے توبیدکی مثل کانپنے لگتے۔ امام شافعی لکھتے ہیں کہ امام حسنؓنے اکثراپناسارامال راہ خدامیں تقسیم کردیا اور بعض مرتبہ نصف مال تقسیم فرمایا وہ عظیم و پرہیزگارتھے۔
امام حسن و حسین ؓکے ساتھ رسول خدا ؐ کی محبت محض رشتے کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ آپ کی زندگی تعلیمات مصطفوی ؐ کی عملی تفسیر ہے آپ کا ہر کلام ہر اقدام امت مصطفوی کیلئے درس حیات ہی نہیں راہ نجات بھی ہے ۔عہد حاضر جسے دور جنگ و جدل کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ، تاریخ کے اس نازک مرحلے پر پوری امت مسلمہ اور بالخصوص مسلم حکمران و لیڈراور بالخصوص عالم اسلام کو جب انتشار افتراق کے بجائے اتحاد کی اشد ضرورت ہے، سیرت امام حسن ؓکی پیروی کر کے ہم سب اپنے درمیان  امن کے پھولوں کی مہکار سے اس چمن کو گلنار  بنا سکتے ہیں۔لہٰذا آج بھی امت مسلمہ کے تمام مسائل کا حل نواسۂ رسول ِزمن ؐحضرت امام حسن ؓکے افکار و کردار میں پوشیدہ ہے ۔
ٹھکرا کے تخت و تاج حسن نے یہ کہہ دیا
لے لے جسے یہ ریت کی دیوار چاہئیے
منشور ِامن عالم اسلام جو بنے  
مذہب کو آج بھی وہی کردار چاہئیے 

مزیدخبریں