سکل ڈویلپمنٹ کا قومی ترقی میں کردار
خصوصی تحریر
پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر
وائس چانسلر خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجیئنرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یار خان
محض ڈگری نہیں ہنربھی دیجئے، یہ ایک ایسا جملہ ہے جس نے انسانی تاریخ کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی۔ ٹیوٹا، ڈاٹسن ، ہینو، ہنڈا، سوزوکی، کاواساکی، لیکسس، مزدا، مٹسوبشی، نسان، سوزو اور یاماہا۔۔۔یہ تمام برانڈز جاپان کے ہیں جبکہ شیورلے، ہنڈائی اور ڈائیوو جنوبی کوریا بناتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو دنیا میں آٹو موبیلز کا زیادہ بزنس شیئر ان ہی کمپنیز کے پاس ہے۔آئی ٹی اور الیکٹرونکس میں سونی سے لے کر کینن تک سب کچھ جاپان بناتا ہے جبکہ ایل جی اور سام سنگ جنوبی کوریا سپلائی کرتا ہے۔2104میں سام سنگ کا ریونیو 350بلین ڈالر تھا۔ایسر لیب ٹاپ تائیوان بناتا ہے جبکہ ویت نام جیسا ملک بھی ویت نا م ہیلی کاپٹرز کارپوریشن کے نام سے اپنے ہیلی کاپٹر اور جہاز بنا رہا ہے۔ محض ہوا، پانی اور دھوپ رکھنے وال سنگا پور دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے اور کیلیفورنیا میں تعمیر ہونے والا جدید ہسپتال بھی چین سے اپنے آلات منگوا رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق فن لینڈ کا نظام تعلیم دنیا میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ دوسرے نمبر پر جاپان اور تیسرے نمبر پر جنوبی کوریا ہے۔ انہوں نے اپنی نئی نسل کو ڈگریوں کے پیچھے بھگانے کی بجائے انہیں ٹیکنیکل ایجوکیشن فراہم کرنا شروع کر دیا ہے۔ آپ کو سب سے زیادہ ٹیکنکل سکول ان ہی تمام ممالک میں نظر آئیں گے۔ وہ اپنے بچوں کا وقت کلاس رومز میں بورڈ کے سامنے گنوانے کی بجائے حقائق کی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ ایک بہت بڑا ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ سنگا پور میں واقع ہے اور وہاں بچوں کا صرف بیس فیصد وقت کلاس روم میں گزرتا ہے باقی اسی فیصد وقت بچے اپنے اپنے شعبوں میں آٹو موبائیلز اور آئی ٹی سے متعلق لیبز میں گزارتے ہیں۔
دوسری طرف اگر پاکستان کے تعلیمی نظام پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیز آئی ٹی، انجیئنرنگ ، میڈیسن، کامرس، آرٹس اور سوشل سائنسز میں بے شمار ڈگریز آفر کر رہے ہیں اور ہر سال بے شمار سٹوڈنٹس ان ڈگری پروگرامز میں داخل ہوتے ہیں۔ چار سال کلاس روم میں گزار کر جب ڈگری حاصل کرتے ہیں تو ملکی ترقی میں کو خاطر خواہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ہمارے نظام تعلیم سے وابستہ تمام لوگوں کا فوکس سکل ڈویلپمنٹ سے زیادہ نمبرز اور سی جی پی اے پر ہوتا ہے۔ سٹوڈنٹس کی ساری تگ و دو اور کوشش کا حاصل محض نوکری کا حصول ہوتا ہے۔ پاکستان کے دوسرے ممالک کے ساتھ جو معاہدے ہوئے ہیں تاحال ان میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے معاہدے نہ ہونے کے برابر ہیں۔
تعلیم کے ذریعے ترقی کا سفر دو طرح ممکن ہوتا ہے۔ پہلا ایجوکیشن بجٹ میں اضافہ کیا جائے اور سکولز سے لے کر یونیورسٹیز تک اعلی تعلیمی سہولیات فراہم کی جائیں۔ نصاب کو جدید خطوط پر ڈیزائن کیا جائے۔ دوسرا ٹیکنیکل سکولز بنائے جائیں جہاں نوجوانوں کو سیکنڈری ایجوکیشن کے بعد مختلف ٹیکنیکل ڈپلومہ کروائے جائیں۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا صرف 2.6 فیصد تعلیم کے لئے مختص کرتا ہے جبکہ موازنہ کیا جائے تو جنوبی ایشیاءکے زیادہ تر ممالک کا تعلیمی بجٹ اس سے زیادہ ہے۔ بھوٹان کا تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کا 7.4 فیصد، انڈیا 3.8 فیصد، نیپال 3.7فیصد اورافغانستان کا تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کا 3.3 فیصد ہوتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی بجٹ کی یہ شرح اور بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا تعلیمی بجٹ کم سے کم سٹینڈر سے بھی کم ہے۔UNDP کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا تعلیمی بجٹ اس وقت دنیا کے 195 ممالک میں صرف 14ممالک سے بہتر ہے۔ پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کا معیار بہتری کی جانب گامزن ہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ نصاب کو ترتیب دیتے وقت انڈسٹری اور جاب مارکیٹ کی ڈیمانڈ کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ ہائر ایجوکیشن کا بجٹ بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ یونیورسٹیز میں بہتر تدریسی سہولیات کے ساتھ تحقیق کے لئے جدید لیبز فراہم کی جا سکیں۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے یونیورسٹیز کی لیبز میں آلات کی تعداد محدود ہوتی ہے اور سٹوڈنٹس کے لئے لیب ٹائم بھی کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے سکل ڈویلپمنٹ کا وہ معیار نہیں ہوتا جو کہ ہونا چا ہئے۔
ا س وقت پاکستان کی آبادی میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔ اقوام متحدہ کے ڈویلپمنٹ پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 64فیصد لوگوں کی عمر تیس سال سے کم ہے۔ اس اعتبار سے جنوبی ایشیائ میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے۔ جہاں نوجوانوں کی زیادہ تعداد گورنمنٹ کی ذمہ داریوں میں اضافہ کرتی ہے وہیں یہ ملکی ترقی کے لئے ایک زبردست ریسورس بھی ہے۔ موجودہ گورنمنٹ کی پالیسی برائے ہیومن کیپیٹل ڈویلپمنٹ بذریعہ ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ بڑی واضح ہے مگر ٹیکنیکل ایجوکیشن کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے اس کے اطمینان بخش نتائج نہیں آ رہے۔ پاکستان میں تقریبا دس فیصد نوجوان ٹیکنیکل سکل نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگار ہیں۔ پاکستان ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ (TEVT)سسٹم موجود ہے مگر اسے بھی چیلنجز درپیش ہیں۔ گورنمنٹ کی اپنی رپورٹ کے مطابق تیس لاکھ نوجوان ہر سال جاب مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں مگر TEVT کے تحت صرف پانچ لاکھ نوجوانوں کے ٹیکنیکل سکل دینا ممکن ہے۔ TEVT کے تحت تقریبا 3500 انسٹی ٹیوٹ کام کر رہے ہیں اور ایک مسلہ یہ بھی ہے کہ ان اداروں سے ڈپلومہ کرنے والے نوجوانوں کو نوکری کے حصول میں بہت زیادہ دشواری کا سامنا ہو تا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر ڈپلومہ کورسز انڈسٹری کی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتے ، نصاب پرانا ہے اور معیار تعلیم بھی تسلی بخش نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکنیکل ایجوکیشن کے کورسسز کو جدید بنیادوں پر انڈسٹری کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہو ڈیزائن کیا جائے۔ ایسے کورسز متعارف کروائے جائیں جن میں انٹرپرینیورل ایلیمٹ موجود ہو یعنی نوکری نہ بھی ملے تو ڈپلومہ ہولڈر اپنا کاروبار شروع کرنے کے قابل ہو۔ اس حوالے سے پاکستان کو ترقی پافتہ ممالک جیسا کہ جاپان، جرمنی، چائینہ اور سنگا پور کے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈگری کے ساتھ ہنر دینا یونیورسٹیوں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اسی ذمہ داری کو مدنظر رکھتے ہوئے تین سال قبل خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجیئنرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ساوتھ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف سکل ڈویلپمنٹ کا آغاز کیا گیا جس NAVTTC کے تعاون سے پینتالیس ڈپلومہ اور ڈگری پروگرامز متعارف کروائے گئے ۔ یہ تمام پروگرامز جاب مارکیٹ اور انڈسٹری کی ڈیمانڈ کے مطابق ڈیزائن کئے گئے ہیں۔ خواجہ فرید یونیورسٹی اس وقت تک رحیم یار خان میں قائم ساوتھ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف سکل ڈویلپمنٹ کے علاوہ راجن پور ، گڑھی اختیار خان اور صادق آباد کے پسماندہ علاقوں میں تین سکل ڈویلپمنٹ سنٹرز قائم کرکے انہیں فعال کر چکی ہے تاکہ محرومیوں کا شکار سمجھے جانے والے اس علاقے کے کم امدنی والے عوام خصوصا نوجوانوں کو گھر کی دہلیز پر علم کے حصول کی سہولت فراہم کی جا سکے۔ خواجہ فرید یونیورسٹی کے سکل ڈویلپمنٹ سنٹرز سے فارغ التحصیل طلبا و طالبات اس وقت ملک کے نامور اداروں میں اپنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ خواجہ فرید یونیورسٹی نے اپنی نوعیت کا ایک منفرد ماڈل متعارف کروایا ہے کہ روایتی تعلیم کے ساتھ سٹوڈنٹس کو ساوتھ پنجاب سکل ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے زیر انتطام مختلف جدید کورسز کی صورت ٹیکنیکل سکل ڈویلپمنٹ کا بہترین موقع بھی فراہم کیا ہے کیونکہ ڈگری کے ساتھ ہنر دینا نہ صرف تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے بلکہ وقت کی ایک اہم ضرورت بھی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ہائر ایجوکیشن میں جدید نصاب کی تیاری کے ساتھ ریسرچ کے ایلیمنٹ کر بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ درپیش مسائل کا حل دریافت ہو سکے اور دوسری طرف ٹیکنیکل ایجوکیشن فراہم کرنے کے وسائل بڑھانے کے ساتھ نوجوانوں کو اس کی ترغیب دلانا بھی ضروری ہے۔ کم از کم فلپائن کی طرح ٹیکنیکل ایجوکیشن کی کسی ایک صنف پر کام کر کے پوری دنیا کو اس فیلڈ کے ہنر مند افراد فراہم کرنے کے پروگرام ترتیب دینے سے بھی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ ٹیکنکل ایجوکیشن سے فارغ التحصیل طلبا کو نوکری کے حصول میں معاونت فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔ پاکستان جتنے زیادہ ہنر مند افراد پیدا کرے گا ملکی ترقی کی رفتار اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے کہ ہنر مند آدمی کبھی بھو کا نہیں مرتا۔ تو ضرورت اس بات کی ہے کہ محض ڈگری یافتہ نہیں بلکہ ہنر مند افراد پیدا کئے جائیں تاکہ تیز رفتار قومی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔