کسی درد مند کے کام آ کسی ڈوبتے کو اچھال دے
تابندہ خالد
موجودہ بحرانی صورتحال میں کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ سفید پوش طبقہ ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کیسے کرتا ہوگا۔ بچوں کی فیس ، ادویات کہاں سے پوری ہوتی ہونگی۔
ایک گراف کے مطابق بہت سارے غریب گھرانوں نے سکول کی فیس نہ ادا کرنے کے سبب اپنے بچوں کو سکولوں سے اٹھوا لیا ہے۔ اور صرف اور صرف ٹیوشن پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔
یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی حاجات کے لیے لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے۔ اس طبقے کو سلام کہ محنت مزدوری کرتے ہیں مگر بھیک نہیں مانگتے۔
انہوں نے معاشرے کا بھرم رکھا ہوتا ہے۔ اگر یہ صبر و تحمل سے کام نہ لیں تو معاشرے میں گداگری اتنی عام ہو جائے کہ ہر طرف سے یاجوج ماجوج کی مانند ضرورت مند لوگ دوڑے چلے آئیں۔ یہ لوگ اپنے چہرے سے ہی پہچان لیے جاتے ہیں۔ معاشرے میں حسن تب ہی پیدا ہوتا ہے جب سفید پوش لوگ عزت اور بھرم کو قائم رکھ پائیں اور ان کی حاجات بھی پوری ہوں۔اس ضمن میں کیا مخیر حضرات کا فرض نہیں بنتا کہ وہ ان سفید پوش طبقے کی مدد کریں۔
صرف اپنے لیے جینا کوئی کمال نہیں ہے۔کمال یہ ہے کہ انسان اپنے ساتھ ساتھ کمزور لوگوں کا بھی سوچے۔بعض مواقع پر اپنی بساط کے مطابق خرچ کریں۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ خوشی بانٹنے سے معاشرے میں نکھار آتا ہے۔ ایسے نادار افراد جو اپنی بچوں کو مفلسی کے باعث سکول نہیں بھیج پاتے۔ صاحب ثروت لوگ انہیں سکول پڑھا سکتے ہیں۔ دنیا کے ہر مذہب کی تعلیمات نے انسانیت کی بلا امتیاز خدمت کی تلقین کی ہے۔ علم ایک ایسا زیور ہے جس سے ذیادہ سے ذیادہ غریب بچوں کو آراستہ کیا جائے تاکہ مستقبل میں وہ اپنے اہل خانہ کو لاچاری کے گرداب سے نکال سکیں۔ عوام کے لیے انفرادی سطح پر کوشش کرنے کا بہترین عمل یہ ہے کہ غریب، یتیم اور مستحق بچوں کی تعلیم کےلیے کام کرنے والے کسی ادارے کے ساتھ حسب توفیق تعاون کیا جائے۔ وطن عزیز میں ایسے بہت سارے ادارے کام کر رہے ہیں جن میں ایک
غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ ہے جو کہ گذشتہ 26 سال سے پاکستان کے پسماندہ دیہاتوں میں فروغ تعلیم کیلئے کوشاں ہے۔ بیشتر فلاحی اداروں کا فوکس شہر ہی ہوتے ہیں، لیکن غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ نے دیہاتوں کو فوکس کیا ہے۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کا ہدف، دیہاتوں کے کم وسیلہ خاندانوں کے بچے ہیں۔ جن خاندانوں کے بچے غربت اور تعلیم بارے شعور نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ نے ان کیلئے تعلیمی راہیں ہموار کی ہیں۔ اس کے اغراض و مقاصد پاکستان کے دیہاتوں کو سو فیصد خواندہ بنانا ہے۔
اس وقت غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے 800 سے زائد سکول چاروں صوبوں کے دیہاتوں میں ہیں۔ جن میں کم وسیلہ خاندانوں کے 1 لاکھ 20 ہزار سے زاید بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔اپنے سکولوں میں پڑھنے والے تقریباً 47 ہزار سے زائد یتیم اور مستحق بچوں کی تعلیمی کفالت بھی کر رہا ہے۔
اسی طرح ، دیہاتوں کے نظر انداز سپیشل بچوں کیلئے بھی خصوصی تعلیمی پراجیکٹ (انکلوسو ایجوکیشن ماڈل) متعارف کروائے ہوئے ہے۔ جہاں 1200 سے زائد سپیشل بچے غزالی سکولوں میں، عام بچوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں۔ ان خصوصی بچوں کی تعلیمی کفالت بھی ٹرسٹ نے اٹھا رکھی ہے۔
جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کے ہندو بچوں کیلئے الگ تعلیمی پراجیکٹ بھی غزالی ٹرسٹ چلا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ٹرسٹ نے پہلے مرحلے میں ہندو بچوں کیلئے 7، الگ سکول بنائے ہیں جہاں تقریباً 800 ہندو بچے اور بچیاں مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
قارئین طولانی تمہید کا مقصد یہ ہے کہ بحرانی صورتحال میں غربائ کی مدد کی جانب راغب ہوا جائے جو معاشی طور پر کمزور ہیں جو اپنے بچوں کو ایک وقت روٹی تو روٹی کھلا سکتے ہیں مگر تعلیم نہیں دے سکتے۔خدائے بزرگ و برتر نے اس طبقے کی مدد کے لیے زکو? ،عشر، صدقات و خیرات کے ذرائع پیدا کیے ہیں تاکہ معاشرے کا تسلسل قائم رہے۔ لہذا اپیل ہے کہ ایسے اداروں کی مدد کی جائے جو مستقبل کے معماروں کے لیے دن رات کوشاں ہیں