سرخ پھریرے والا

ایک شہرتھا جہاںغم ِ دنیا تونہیں لیکن غمِ جاناں کی فراوانی تھی،یہیں ۱۱مئی ۱۹۷۴ء کی ایک گرم دوپہرمیں ایک تخلیق کار نے زندگی کی آخری سانس لی اور ملک ِ عدم کوروانہ ہوا،وہ سرکاری ملازمت کے سلسلے میں ایک طویل عرصے سے یہاں مقیم تھا، یہاںاس کے دوست احباب بھی رہتے تھے مگرقریبی عزیزکوئی نہ تھا،وفات کے بعداس کی میت سرکاری کوارٹر میں پڑی تھی،شہرکے ڈپٹی کمشنر جاویدقریشی نے( جوخود بھی ایک شاعرتھے) ایک ٹرک منگوایا اور شاعرکی میت اس کے آبائی شہرجھنگ روانہ کردی۔راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے جنازے میں بیس سے زیادہ لوگ بھی شامل نہ ہوئے تھے۔یہ کہانی جدید اردو نظم کے عظیم شاعر مجیدامجدکی ہے اور شہر منٹگمری جسے اب ساہیوال کے نام سے پکاراجاتاہے،مجیدامجدکے اس شعر میں جین پال سارتر کی وجودیت کا پورا فلسفہ موجودہے:
میں روزاِدھرسے گزرتا ہوں کون دیکھتاہے
میں جب اِدھرسے نہ گزروں گاکون دیکھے گا
’’شب رفتہ‘‘مجیدامجدکی زندگی میں شائع ہونے والا واحدشعری مجموعہ تھا،ان کے انتقال کے بعد جاویدقریشی،پروفیسر آغا امجدعلی،عبدالرشید،فہیم جوزی اورسعادت سعید وٖغیرہ کی کاوشوں سے بقیہ کلام ’’شب رفتہ کے بعد‘‘کے عنوان سے منظرعام پر آیا۔ انکی شاعری کے بہت سے انتخاب بھی شائع ہوئے۔ مجیدامجدکا اولین شعر کلیات تاج سعید مرحوم نے ’’لوح دل ‘‘کے نام سے مرتب کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمدزکریا کا مرتبہ ’’کلیات مجیدامجد‘‘ اسکے بعد شائع ہوا۔آج ساری دنیامجیدامجد کی ادبی سیادت کوتسلیم کرچکی ہے۔اس عظیم شاعر کے انتقال کونصف صدی کا عرصہ بیت گیاہے لیکن آج بھی ان کی غیرمطبوعہ تحریریں کسی نہ کسی پرانے رسالے کی فائل سے جھانکنے لگتی ہیں۔اورادھرمجیدامجدکی لاش کو جھنگ روانہ کردینے کا دکھ آج بھی اہل شہرکے اجتماعی لاشعور کا حصہ ہے۔کسی کا مشہور جملہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کودہراتی ہے،جی ہاںتاریخ بعض اوقات اپنے آپ کو منسوخ کرنے کیلئے بھی دہراتی ہے۔گذشتہ نسلوں کی لاپروائی کا کفارہ بعدمیں آنے والی نسلوں کو اداکرنا پڑتا ہے۔لیجیے اسی شہرمیں تاریخ نے ایک دفعہ پھراپنے آپ کودہرایاہے۔
یہ 27 دسمبر 2020ء کی ایک کہرآلودرات تھی، جب ساہیوال کے سول ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں ایک لاابالی سی روح نے آخری ہچکی لی۔یہ جدید اردو شاعر ایزدعزیز تھا جس کی روح اس صبح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔وفات کے وقت اس کے پاس ایک نوجوان دوست عبدالباسط کے سوا اورکوئی نہ تھا۔اسکے عزیزواقارب دوسرے شہرمیںمقیم تھے، فوری طورپر ان کاپہنچنا ممکن نہ تھا۔عبدالباسط نے ساہیوال آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹرسیدریاض ہمدانی سے رابطہ کیا تووہ فوری طور پرہسپتال پہنچ گئے۔ریاض ہمدانی نے گاڑی سے اترکر عبدالباسط کو روتے ہوئے گلے لگالیا۔اسی لمحے یہ فیصلہ کیاگیا کہ ایزد عزیز جیسے سچے شاعر اورادیب نے اپنی تمام عمرشعروادب کے فروغ کی کوششوں میں بسرکردی، لہٰذااس کی آخری رسومات بھی ساہیوال آرٹس کونسل میں اداکی جائیں گی۔ صبح ہوتے ہی لوگ آرٹس کونسل میں جمع ہونے لگے۔شہرکے شاعروں اورادیبوں نے اپنے دوست کے سفرِآخرت میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا، لوگ پھوٹ پھوٹ کررورہے تھے۔ایزد عزیز نے اسی شہرکی فضائوں میں سانس لی اورمرنے کے بعد یہیں دفن ہوا۔
ہمارے اس شاعرنے ۶اگست 1954ء کوایک علمی وادبی گھرانے میں جنم لیا۔ان کے چچا معروف ادیب اورمفسر قرآن حمیدنسیم مرحوم کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ایزدعزیزنے ادبی دنیامیں ایک شاعر، افسانہ نگاراور مضمون نویس کی حیثیت سے شہرت پائی۔مجیدامجداورجعفرشیرازی جیسے بزرگوں کی صحبت میں رہا ۔ہمارا دوست زندگی کے سردوگرم سے خوب آگاہ تھا،یوں تواسکے تین شعری مجموعے شائع ہوچکے تھے لیکن بہت سا غیرمطبوعہ کلام ابھی زیورطبع سے آراستہ نہیں ہوسکاتھا۔ایزدعزیز کی وفات کے بعد اسکی تحریروںکوکتابی شکل میں محفوظ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔اس سلسلے میں ایک اجلاس منعقدہوا، جس میں احباب نے مرحوم کے قریبی دوستوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی،جس کا مقصد مرحوم کے کلام کی ترتیب وتدوین کے بعداشاعتی امور سے خوش اسلوبی کے ساتھ گزارناتھا۔اس کمیٹی میں راقم کے علاوہ ڈاکٹرندیم عباس اشرف،امتیازاحمدبٹ،واصف سجاد اور عبدالباسط شامل تھے۔کمیٹی نے مرحوم کی ڈائریوں، رجسٹروں اور کاغذات میں موجودمتن کو بڑی دقت نظرکے ساتھ پڑھ کر مصنف کی منشاکے مطابق ترتیب دیا۔یوں ایزدعزیز کاکل کلام بڑے اہتمام کے ساتھ’’یکتا‘‘کے عنوان سے منظرعام پرآگیا ہے۔کسی شاعرکے انتقال کے بعداس کی اس نوعیت کی پذیرائی کی مثال فی زمانہ مفقود ہے،البتہ کتابوں میں ضرور پڑھتے ہیں۔
ایزدعزیز کاشمار خوبانِ بوستاں میں ہوتاہے۔کہتے ہیں دریاسوکھ بھی جائے تو دریا ہی کہلاتاہے،ایزد پیشے کے اعتبار سے ایک بینک افسر تھا،کسی سکیم کے تحت گولڈن ہینڈ شیک لے کر ملک سے باہر چلا گیا،لیکن وہاں کامیاب نہ ہوسکا،جمع شدہ پونجی بھی لُٹ گئی۔واپسی ہوئی توزندگی کے ربط ویابس کا اندازہ ہوا لیکن مجال ہے جوکسی مشکل مرحلے پر اس کی وضعداری میں کمی آئی ہو۔ہمارے اردو شعراخاص طور پر مرزا اسد اللہ خاں غالب نے ایک شعری ترکیب ’’حجابِ پاسِ وضع‘‘کا استعمال کیا ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ زندگی کی مشکلات میں بھی کسی نہ کسی طرح اپنی وضعداری کو قائم رکھاجائے،میں نے پاسِ وضع کا خیال رکھنے والے بہت کم لوگ دیکھے ہیں،ایزد کانام ان لوگوں میں سرِفہرست ہے۔ میرا اس سے بے تکلف محبت کارشتہ تھا۔ایزد عزیز کی ادبی زندگی کا آغاز سترکی دہائی میں ہوا ،یہ دوقطبی نظام کا زمانہ تھا،ایزد کی ادبی زندگی کی ابتدا ترقی پسندی سے ہوئی اور اختتام صوفی ازم پرہوا۔آگ سے خاک تک کایہ سفر دراصل زندگی کے قیمتی رازوں تک رسائی کا عمل تھا۔میرے نزدیک راہبانہ انداز ِزندگی اگرچہ مثالی نہیں لیکن اس سے ایک خاص قسم کا لمحہ ٔ منور پیداہوتا ہے۔آپ اس کو سدھارتھ کے نروان سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ایزدعزیز ایک انامست درویش ،خوددار اور غیرت مندانسان تھا،اسکے شعری کلیات کی اشاعت ایک خوش خبری سے کم نہیں۔مجیدامجد ہوں یاایزد عزیز ،اگرشاعری میں بقاکے عناصرموجود ہیں تو ان کودبایا نہیں جاسکتا،ایک عظیم تخلیق کار کی عظمت کا سورج افقِ لحد سے طلوع ہوتا ہے۔ایزد کی زندگی کاسفرتمام ہوا ،شاعری کا سفر اب شروع ہواہے ۔یہاں ایزدعزیز کے دوشعر قارئین کے پیش خدمت ہیں:
پتے سے گر کے درس ِفنا دے گیامجھے
بارش کا قطرہ سرِ قضا دے گیامجھے
ایزد بس ایک نقرئی سکے کے واسطے
درویش زندگی کی دعادے گیامجھے     

ای پیپر دی نیشن