پاکستان کو اقوام متحدہ نے ان دس ممالک کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے جو آنے والے برسوں میں زرعی اجناس کی کم پیداوار کی بدولت خوراک کی شدید قلت جیسے خطرات سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ مذکورہ خطرے کی وجہ موسمیاتی تبدیلی کو قرار دیتا ہے جس کے اثرات گزشتہ ایک برس سے پاکستان بھگت رہا ہے۔ 2022 ء میں بھی یہی ایام تھے جب بلوچستان وسندھ میں بارشوں اور جنوبی پنجاب میں کوہ سلیمان سے آنے والے سیلابی ریلوں نے تونسہ اور دیگر علاقوں میں فصلوں کو نقصان پہنچایا ، پھر چند ماہ بعد مون سون کی غیر معمولی بارشوں نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے کر ہر طرف تباہی پھیلا دی۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں ہزاروں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں برباد ہوگئیں۔ ان غیر معمولی بارشوں کے اثرات ابھی ختم نہیں ہوئے تھے کہ 15 مارچ 2023 ء سے شروع ہونے والے بارشوں اور ژالہ باری کے حالیہ سلسلے نے سندھ اور پنجاب میں گندم کی فصل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
اس صورتحال سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ موسمی تبدیلیوں کے مذکورہ اثرات پاکستان کی معیشت پر زرعی اجناس کی موجودہ تباہی آنے والے مہینوں میں پہلے سے کمزور اقتصادی صورتحال کو مزید گھمبیر بنانے کا سبب بنے گی۔ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی معیشت کا زیادہ انحصار صوبہ پنجاب اور سندھ کی زراعت پر ہے جس میں گندم اور کپاس کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ دیگر فصلوں میں چاول‘ مکئی‘ گنا اور چنا وغیرہ شامل ہیں۔
اسی طرح بلوچستان اور خیبرپختونخوا پھلوں اور خشک میوہ جات کے لیے مشہور ہیں جبکہ آم کی پیداوار بھی بتدریج پاکستانی معیشت میں اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یوں اگر موسم کے بدلتے تیوروں پر نظر ڈالیں توآم کے باغات ہوں ، یہ ربیع کی فصلیں ہوں یا خریف کی سب موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ پاکستان فصلوں کی فی ایکڑ اوسط پیداوار کے حوالے سے دنیا بھر میں زراعت کے شعبہ میں ہونے والی ترقی کے باوجود بہت پیچھے ہے۔ زرعی رقبے میں اضافہ اور زراعت میں جدید تقاضوں کو بروئے کار لانے میں ناکامی ذمہ دار کون ہے؟ یہ بات بے معنی ہو چکی ہے ۔ فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ آنے والے برسوں میں خوراک کی کمی کے حوالے سے ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے غیر معمولی اقدامات کو بروئے کار لایا جائے جس میں ملک کے چاروں صوبوں میں لاکھوں ایکڑ بنجر پڑی زمینوں کو قابل کاشت بنانا اہم پیش رفت ہوسکتی ہے۔یہاں عالمی بینک کی طرف سے پاکستان کی زراعت سے متعلق جاری کردہ رپورٹ کا ذکر بھی ضروری ہے جس کے مطابق پاکستان میں زراعت کے شعبہ میں ترقی نہ ہونے کی ایک وجہ ملک کے اندر بڑی جاگیروں کی موجودگی بھی ہے۔
پاکستان کے اندر زراعت سے منسلک 63 فیصد کے قریب کسان بے زمین کاشتکار ہیں جبکہ 5 فیصد جاگیردار 64 فیصد قابل کاشت زرعی رقبے کے مالک ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق، پاکستان میں 5 ایکڑ سے 50ایکڑ تک زمین کے مالکان اپنی فصلوں سے بڑے مالکان اور جاگیرداروں کے مقابلے میں فی ایکڑ اوسط پیداوار زیادہ حاصل کرتے ہیں۔ اس کی وجہ پاکستان میں زرعی اصلاحات کی راہ میں بااثر جاگیرداروں کی طرف سے ڈالی جانے والی رکاوٹیں ہیں۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ پنجاب اور سندھ کے بڑے جاگیردار ایک طرف اپنے ہاریوں کو بہت کم معاوضہ اور سہولیات دے کر زیادہ پیداوار چاہتے ہیں جوکہ ممکن نہیں۔ تو دوسری طرف ان جاگیرداروں نے انتہائی قیمتی قابل کاشت رقبوں پر شکار گاہیں بنارکھی ہیں۔یہ عمل ان کے دبدبہ اور شان میں اضافہ کا سبب ضرور ہے لیکن مجموعی طورپر اس کا خمیازہ ملک کی معیشت کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ بڑے جاگیرداروں اورزمینداروں میں سے بہت کم ہیں جو زراعت میں جدت اور نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے علاوہ نئے تجربات کی کوششوں میں رہتے ہیں تاہم ان کی یہ کاوشیں محدود اور ملک مجموعی معاشی تقاضوں کے مطابق آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ اپنی قیمتی زرعی زمین غیر ملکی سرمایہ کاروں کے حوالے کرنے کی بجائے ملک کے اندر مؤثر انداز سے خوراک کے وسائل بڑھانے کی طرف توجہ دی جائے اور اس کے لیے پاک فوج سے تعاون حاصل کیا جائے ۔ ملک کے اندر گزشتہ ایک برس سے جاری سیاسی صورتحال کی بدولت پاک فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر جس طرح کا پروپیگنڈا جاری ہے اس کی وجہ سے ممکن ہے بہت سے قارئین اور’بڑے جاگیردار‘ بنجر زمینوں کو آباد کرنے ، خوراک کی کمی جیسے خطرات سے نمٹنے کے لیے پاک فوج کے ذریعے ملک میں بیکار پڑی بنجر زمینوں کو آباد کرنے اور زراعت کے شعبہ میں ترقی کے منصوبوں کو بھی سیاسی تناظر میں تنقید کا نشانہ بنائیں ۔ تو پھر انھیں چاہیے کہ وہ صرف پروپیگنڈا کے زیر اثر صرف تنقید کرنے کی بجائے پاکستان کو درپیش خوراک کی کمی جیسے چیلنج کے تدارک کا کوئی متبادل بھی سامنے لائیں اور بتائیں کہ وہ اراضی جو لاکھوں ایکڑ پر محیط ہے اور گزشتہ 75برسوں سے بنجراور بیابان پڑی ہے کون سی ایسی جادو کی چھڑی ہے جس کے گھمانے سے بنجر زمین لہلاتے کھیتوں میں تبدیل ہوجائے گی ؟
٭…٭…٭
بنجرزمینوں کی آبادکاری میں پاک فوج کی معاونت
Apr 07, 2023