مجیب الرحمٰن شامی
مجید نظامی حکیم تو پیدائشی تھے ہی، پنجاب یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر بھی بنا ڈالا ہے۔ انہوں نے شعوری آنکھیں کھولیں، تو حکیم الامت علامہ اقبال سے ناطہ جوڑلیا، انہی کی فکر کے سائے میں پروان چڑھے۔ بڑے بھائی حمید نظامی علامہ اقبال کی صحبت سے باقاعدہ فیض اٹھا چکے تھے۔ ان کی رہنمائی نے انہیں قائداعظم محمد علی جناح کے دردولت تک پہنچایا تھا، یہیں انہیں نے نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان کو زندگی کا محور بنایا۔ طلبہ سیاست میں سرگرم ہوئے اور اپنا اخبار نکالنے کا منصوبہ بھی بنایا۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے مطب سے حاصل کردہ نسخے نے انہیں حکیم صادق بنا دیا اور مسلمان قوم کی رگوں میں نئی زندگی دوڑانے کی کوشش کرنے والوں میں نمایاں ہوگے۔ قائداعظم اسلامیان ہند کو آواز دے رہے تھے، مجتمع کر رہے تھے، حمید نظامی ان کے پرچم بردار بن گئے۔ بڑے بھائی کی انگلی چھوٹے بھائی نے بھی پکڑ لی۔’’نوائے وقت‘‘ ان کی نو ابھی بن گیا۔ پاکستان حاصل تو کر لیا گیا۔ لیکن چند ہی سال بعد اس پر قبضہ ظالمانہ ہوگیا۔ حمید نظامی صدمے کی تاب نہ لا کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ مجید نظامی نے ان کی جگہ’’نوائے وقت‘‘ کی ادارت سنبھال لی۔ حمید نظامی کی طرح مجید نظامی کو بھی آزاد کی جنگ لڑنا پڑ گئی۔ وہ غیروں کے خلاف لڑے تھے، انہیں اپنوں سے نبردآزما ہونا پڑا۔ بندوق کی طاقت کو قلم کی طاقت سے زیر کرنے کا کام آسان نہیں تھا لیکن مجید نظامی نے ایسا کر دکھایا۔ گزشتہ پچاس سال انہوں نے اسی جہاد میں گزارے ہیں۔ مقابل بدلتے رہے، ان کے حربے بدلتے رہے لیکن قلم کا سر قلم کرنے کی خواہش موجود رہی۔ مجید نظامی ذہن کے پکے نکلے۔ ایوب خان ہوں، یحییٰ خان، ضیاء الحق ہوں یا بھٹو ، یا مشرف وہ سب سے یہی کہتے رہے کہ عوام کی حکومت قائم کرو جو عوام کے ذریعے ہو اور عوام ہی کے لئے ہو۔ ان کی بات کبھی سنی گئی، کبھی ان سنی کر دی گئی، کبھی مسکرا دیا گیا، کبھی تائو کھایا گیا، کبھی آنکھ چرا لی گئی، کبھی غصہ نکالا گیا۔ اس سب میں بہت کچھ ضائع ہوگیا، بہت کچھ دائو پر لگ گیا، لیکن بہت کچھ بچانے میں کامیابی بھی ہوگئی۔
مجید نظامی نے سلطانی جمہور کا ترانہ مسلسل گایا، مسلسل یاد کرایا کہ بقاء اسلام اور جمہوریت میں ہے، اقبالی مطب کا یہ نسخہ انہوں نے گھر گھر پہنچایا، طاقتوروں کو اس کے ذریعے سے کمزور بنایا اور کمزوروں کو طاقت عطا کی۔ خدا خدا کرکے تھکی ہاری، لیکن پرعزم قوم اثاثہ بچانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ بندوق تھک گئی ہے، لیکن سیاست بھی ہانپ رہی ہے۔
مجید نظامی کو حکیم الامت تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ حضرت علامہ کا اعزاز ہے، لیکن زبدۃ الحکماء کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پنجاب یونیورسٹی نے انہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری عطا کی ہے، ڈاکٹر بنا ڈالا ہے یا یہ کہئے کہ تسلیم کر ڈالا ہے۔ ظاہر ہے، وہ سٹیھتو سکوپ والے ڈاکٹر نہیں ہیں، افراد کا علاج سرنج لے کر نہیں کر سکیں گے، لیکن قوم کے امراض کا علاج تو بہرحال کریں گے، بلکہ کرتے رہیں گے۔ انہیں حکیم کہا جائے یا ڈاکٹر، ان کے نسخے کو اردو میں لکھ لیا جائے یا انگریزی میں۔ معجون تیار کرلی جائے یا’’ٹیبلیٹس‘‘ بنا لی جائیں، جو ہر ایک ہی ہے… اسلام اور جمہوریت… اسلام منزل ہے اور جمہوریت راستہ۔
مجید صاحب سے میری پہلی ملاقات کراچی کے جبیں ہوٹل میں ہوئی تھی۔ یہ 1969ء کے کسی مہینے کی بات ہے۔ ایوب خاں رخصت ہو چکے تھے۔ جنرل یحییٰ خان طاقت کے نشے میں چور تھے۔ انتخابات کا وعدہ ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی دو ہی سال کی تھی لیکن تیور تیکھے تھے۔ اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست کے ساتھ سوشلزم کو’’ہماری‘‘ معیشت بھی قرار دے دیا گیا تھا۔ یہ نعرہ سیاست دانوں کی بڑی تعداد کو منظور نہ تھا۔ جماعت اسلامی اس کے خلاف جنگ لڑ رہی تھی۔ علمائے کرام آستینیں چڑھائے ہوئے تھے۔ کونسل مسلم لیگ اور دائیں بازو کی کئی دوسری جماعتیں بھی اکھاڑے میں تھیں۔ ایک ہنگامہ برپا تھا۔ مجید نظامی کو بھی سوشلزم کا نعرہ منظور نہیں تھا۔ یہ کیا بات ہوئی؟ اسلام اور جمہوریت کے بعد کسی اور چیز کی ضرورت ہی کیا ہے؟ نوائے وقت کے وہ کرتا دھرتا تھے لیکن ملکیت حمید نظامی مرحوم کے بچوں کی تھی… اختلافات نے سر اٹھایا اور مجید صاحب قلم جیب میں رکھ کر دفتر کی سیڑھیوں سے اتر گئے۔ اپنا اخبار نکالنے کا فیصلہ کر لیا۔
میں ان دنوں کراچی میں جنگ گروپ کے ہفت روزہ اخبار جہاں میں اپنے وجود کا احساس دلا رہا تھا۔ آغا شورش کاشمیری مرحوم کا انٹرویو لاہور پہنچ کر کیا تو ان کے دل میں جگہ بنا لی۔ میرے دل میں تو وہ پہلے ہی براجمان تھے۔ مجید نظامی کراچی پہنچے تو آغا صاحب نے مجھے ان سے (اور شاید انہیں مجھ سے) ملنے کے لئے کہا۔ ممکن ہے یہ ذہن میں ہو کہ کراچی میں نئے اخبار کے لئے کوئی خدمت بجا لا سکوں گا یا لاہور آ کر اپنے جوہر دکھا سکوں گا۔ عمومی سی گفتگو ہوئی اور اس تعلق کی بنیاد پڑ گئی جو گزشتہ43 سال کے دوران قائم رہا۔ مجھے جلد ہی ہفت روزہ’’زندگی‘‘ نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ قریشی برادران سایہ فگن ہوگئے۔ لیکن نظامی صاحب سے ملاقات ختم نہیں ہوئی۔ انہوں نے روزنامہ’’ندائے ملت‘‘ نکالا۔ سال ڈیڑھ سال بعد نوائے وقت نے ان کی شدید ضرورت محسوس کی تو نئے اخبار کو اس میں ضم کرکے اسے اپنا بنا لیا۔ میں ہفت روزہ صحافت سے ہوتا ہوا روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے لئے وقف ہوگیا۔ کارکن سے مالک ایڈیٹر بنا۔ اے پی این ایس اور سی پی این ای کی سیاست میں نظامی صاحب کی رفاقت کا حق ادا کیا اور اختلاف کی دنیا میں بھی آباد رہا۔’’نوائے وقت‘‘ کے لئے کالم بھی لکھا اور’’جلسہ عام‘‘ کے زیر عنوان ایک نئی شناخت بنائی۔ ایک ایڈیٹر کے طور پر ان کے ساتھ سرکاری اور غیر سرکاری مجلسوں میں شرکت کا موقع ملتا رہا۔ یحییٰ خاں کے سامنے ان کو اکڑتے، بھٹو صاحب سے بگڑتے، ضیاء الحق پر برستے اور پرویز مشرف پرگرجتے دیکھا۔ نواز شریف ان کے بھتیجے تھے۔ میاں محمد شریف مرحوم کے ساتھ ان کا برادرانہ تعلق تھا۔ اس لئے نواز شریف ان کے سامنے دھڑکتے رہتے تھے۔ واقعات کئی ہیں، جنہیں کبھی پھر بیان کروں گا… ان کے اشتہارات کئی بار بند ہوئے، لیکن کبھی ان کو گگھیاتے نہیں پایا۔ جب بھی بات کی دھڑلے سے کی، جب بھی بولے بے دھڑک بولے۔
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
جاں سے تو وہ الحمدللہ نہیں گئے، کہ تین بار دل کا بائی پاس ہونے کے باوجود خدا نے انہیں محفوظ رکھا۔ لیکن جان کی بازی انہوں نے بہرحال لگائے رکھی۔ ایک ایڈیٹر کے طور پر ان کی سی آن بان کم ہی کسی کو نصیب ہوئی ہوگی۔ وہ جیب میں نے تو نہیں دیکھی جس میں وہ پورے آ سکتے ہوں۔ سودوزیاں کا حساب وہ بھی رکھتے ہیں لیکن اس کو جاں کا روگ نہیں بناتے۔ ان سے ڈھیروں اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پچاس سال تک ایک ہی راستے کا ایسا مسافر شاید ہی کہیں موجود ہو۔
پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران عالمی تعلیمی اداروں کے سندیافتہ سائنٹسٹ ہیں، لیکن اقبالی حکمت پر یقین رکھتے ہیں۔ سلسلہ نظامیہ میں بھی بیعت ہیں یا یہ کہیے کہ درس نظامی کے باقاعدہ فارغ التحصیل طالب بن گئے ہیں۔ انہوں نے اور ان کے رفقاء نے مجید نظامی کو اعزاز دے کر اپنے لئے بھی اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ میری معلومات کی حد تک دنیا کی تاریخ میں پہلی بار کسی یونیورسٹی نے کسی اخبار کے ایڈیٹر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دی ہے… لینے اور دینے والے دونوں کا نام محفوظ ہوگیا ہے… لینے والا تو تاریخ ساز تھا ہی۔ دینے والے بھی یاد رکھے جائیں گے۔ دونوں کو مبارک۔