بابرکت ترین لمحات میں رب کریم کے حضور حاضری

ڈاکٹر زاہد منیر عامر 
وطنِ عزیز کا حقیقی یومِ استقلال 27 رمضان المبارک ہے۔ لیلتہ القدر کی مناسبت رکھنے والی اس غیر معمولی تاریخ کو جناب مجید نظامی رہ سپارِ روضۂ رضوان ہو گئے۔ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے ساتھ غیر مشروط طور پر وابستہ رہنے کا انعام انھیں لیلتہ القدر اور استقلال پاکستان کے موقعے پر رخصتی کی صورت میں ملا…چھیاسی برس کی زندگی میں وہ 72 برس تک وادیِ صحافت اور باون برس تک کوچۂ ادار ت میں مصروف رہے۔ اتنا طویل اور شاندار صحافتی کیریئر عصر حاضر میں ایک منفرد اعزاز کی حیثیت رکھتا ہے۔ 
وہ اردو صحافت کی اس روایت کے امین تھے جس کے نمائندے زمیندار، ہمدرد، الہلال اور البلاغ تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اخبار کا مدیر محض مینجر یا مالک نہیں بلکہ خود ایک ادیب شاعر اور صحافی ہوتا تھا۔ مجید نظامی ایک اچھے نثرنگار اور غیر معمولی حس مزاح رکھنے والے صحافی تھے۔ وہ اپنی نجی محفلوں میں طنز و ظرافت کا جادو جگاتے تھے۔ ان کا طرز خطابت بھی انوکھا تھا، وہ اسٹیج پر یوں آتے جیسے وہ اسٹیج سے خوش نہ ہوں، روسٹرم سے ہٹ کر بلکہ ایک طرف کو نکل کر کھڑے ہوتے۔ ان کی پوری شخصیت اور ان کی خوش لباسی پوری طرح ظاہر ہو جاتی، روسٹرم ان کے دائیں جانب ہوتا اور وہ وہ اس پر اپنا ہاتھ رکھ کر حاضرین سے مخاطب ہوتے، ان کا پرسکون وجود حاضرین کے سامنے ہوتا، نہ جوش خطابت نہ دست و بازو کی جنبشیں، ایسے میں وہ بڑی بے نیازی سے ہموار لہجے میں گفتگو کرتے، جیسے انھیں حاضرین کے ردِعمل سے کوئی دلچسپی نہ ہو لیکن درحقیقت ان کی انگلیاں مجمع کی نبض پر ہوتیں اور وہ جانتے تھے کہ کہاں کس بات سے حاضرین خوش یا متاثر ہوں گے اور ایسا ہی ہوتا لیکن وہ ملنے والی داد کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے اپنا خطاب جاری رکھتے اور محفل لوٹ لیتے۔ وہ بالعموم اپنی کامیابیوں اور اور حکمرانوں کے سامنے بلند کیے گئے کلمہ ء حق کا ذکر کرتے۔ خاص طور سے فوجی حکمرانوں کے ساتھ اپنے مکالموں کا تذکرہ کیا کرتے اور بتاتے کہ انھوں نے کس طرح ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے سامنے دلیری سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وہ پاکستان کے سول حکمرانوں یا سول حکمرانوں کے روپ میں ظہور کرنے والے ڈکٹیٹروں کے ساتھ اپنے مکالمات بھی سنایا کرتے تھے۔ راقم الحروف ان کے قریبی حلقے میں شامل نہیں تھا لیکن اسے ان سے بہ کثرت ملاقاتوں کا موقع ملا۔ بیشتر ملاقاتیں مختلف جلسوں کے اسٹیج پر ہوئیں جہاں ان کے ساتھ بیٹھنے، شریک گفتگو ہونے  اور تقریریں کرنے کا اتفاق ہوتا رہا۔ یہ جلسے بالعموم پاکستان، علامہ اقبال، قائد اعظم یا مولانا ظفر علی خان کے حوالوں سے ہوتے تھے۔ علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خان کے حوالے  سے خاص طور پر بار بار ایسی ملاقاتوں کا سبب بنے۔ وہ راقم کی گفتگو ہمیشہ نہایت غور سے سنتے اور واپس اسٹیج پر آنے پر اپنی جانب سے اندازِ خاص میں تحسین کا اظہار بھی فرماتے۔ الحمرا ہال ہو یا ان کا اپنا قائم کردہ ادارہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ یا ادارہ علوم ابلاغیات ہر جگہ ان کے ساتھ یکجائی کے مواقع ملتے رہے۔ یادش بخیر جب میں مسند ظفر علی خان کا صدر نشین تھا تو ایک بار وہ میرے دفتر میں بھی تشریف لائے، یہ ملاقات ناقابل فراموش تھی۔ اس موقع کی کچھ نہایت یادگار تصویریں بھی موجود ہیں۔ اس روز میں نے پہلی بار انھیں اپنی کچھ کتابیں تحفے میں پیش کیں اور انھوں نے بڑی دلچسپی سے انھیں دیکھا۔ برسوں پہلے جب راقم الحروف مولانا ظفر علی خان کی نایاب کتابوں کی ازسرنو اشاعت کی طرف توجہ دلایا کرتا تھا تو ان کے ادارے کے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے میں نے نظامی صاحب کو مخاطب کر کے ان کے ادارے کو اس جانب متوجہ کیا، جلسے کے بعد انھوں نے مجھ سے اس موضوع پر بات کی اور کہا کہ مولانا کی جو کتب جذبہ حریت کی نمائندگی کرتی ہیں وہ تو چھپنی چاہیں لیکن جو کتابیں استعماری ضرورتوں کے تحت لکھی گئیں ہم وہ شائع نہیں کریں گے۔ شاید یہ راقم کی پرخلوص پکاروں ہی کا نتیجہ تھا کہ بعدازاں، مدتوں بعد ہی سہی، مولانا مرحوم کی کتابوں کی نئی اشاعتوں کی سبیل بھی پیدا ہو گئی۔ راقم نے کالم نگاری کا آغاز انہی کے اخبار سے کیا (ان کے اخبار میں راقم کا پہلا پہلا مضمون 1983ء میں شائع ہوا، 1992ء میں انہی کے اخبار سے کالم نگاری شروع کی) لیکن تین دہائیوں پر پھیلے ہوئے اس عرصے میں انہیں مخاطب کرنے کا موقع صرف ایک بار آیا۔ وہ بھی کالم میں نہیں ایک خط کی صورت میں۔ ہوا یوں کہ 1999ء کے یوم اقبال کی مناسبت سے ان کا ایک مضمون شائع ہوا۔ اس مضمون کے مندرجات نے راقم کے باطن میں کروٹیں لیتے کچھ نوکیلے سوالات کو نمایاں کر دیا، جس کا نتیجہ اس خط کی صورت میں نکلا جو اسی دن نظامی صاحب کو ارسال کیا گیا خوش قسمتی سے اس خط کی فوٹو سٹیٹ کاغذات میں پڑی رہ گئی۔ اس خط کے محتویات اہل فکر و نظر سے آج بھی جواب طلب ہیں۔
11 نومبر 1999ء
مکرم جناب مجید نظامی صاحب! سلام و رحمت 
آج 11 نومبر 1999ء کے نوائے وقت میں ’’اقبال اور جمہوریت‘‘ کے عنوان سے آپ کا مضمون پڑھا۔ یہ مضمون آپ کے خیالات سے قارئین کی براہ راست واقفیت کا ذریعہ بنا جو ایک خوش گوار تجربہ ہے۔ آپ نے مضمون کے آخر میں لکھا ہے کہ ’’جب تک پاکستانی عوام آگے نہیں بڑھیں گے اور ملک کو جاگیرداروں، سرمایہ داروں، مفاد پرستوں، طالع آزمائوں اور لٹیروں سے آزاد نہیں کرائیں گے سیاسی اور معاشی نظام پر ان کی گرفت ختم نہیں کریں گے اور علامہ اقبال اور قائد اعظم کے تصورات سے راہ نمائی حاصل نہیں کریں گے تو ہم یونہی بھٹکتے رہیں گے‘‘۔ اجتماعی مسائل کے حل کے لیے عوام کا آگے بڑھنا ایک اچھا طرزِ عمل اور اچھا طرزِ خیال ہے، اگر ایسا ہو سکے تو یقینا ہمارے ملک میں دہرائے ہوئے تجربوں کو دہرانے کا عمل ختم ہو سکتا ہے اور ہم خطِ مستقیم میں ترقی کا سفر اختیار کر سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ عوام کیسے آگے بڑھیں گے؟ بلکہ عوام کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں؟ ایک ایسے ماحول میں جہاں زندگی کا تصور محض انفرادیت (Individualism) سے جنم لیتا ہو جہاں سب کے سب اپنے گریبانوں میں ڈوبے ہوئے ہوں اجتماعی بیداری کی لہر کیونکر پیدا ہو سکتی ہے؟ 
عوام کو اجتماعی نظم میں شرکت کا احساس نہیں ہے انھیں یہ احساس دلایا ہی نہیں گیا ہے اور وہ ایک ترقی پذیر ملک کے باشندوں کی حیثیت سے اپنی اپنی زندگیوں کے پیچ در پیچ مسائل میں الجھے ہوئے ہیں، سیاستدانوں اور مقتدر طبقوں سے مایوس ہو کر اجتماعی مسائل و معاملات سے لاتعلقی کا رویہ اختیار کر چکے ہیں۔ یہ لاتعلقی یہاں تک بڑھ چکی ہے کہ وہ حکومت کی تبدیلی ، حکمرانوں کے عزل و نصب جیسے معاملات میں بھی دلچسپی کا اظہار نہیں کرتے شاید اس لیے کہ وہ یہ خیال پختہ کر چکے ہیں کہ کوئی بھی حکومت ہو ان کی زندگی کولھو کے روایتی بیل کی طرح محوِ زحمتِ سفر ہی رہے گی۔ ایسے میں ہم اپنی نوجوان نسل سے کچھ توقعات وابستہ کر سکتے ہیں لیکن معذرت اور افسوس کے ساتھ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی تربیت جس نہج پر کر رہے ہیں اس کا کوئی اصلِ اصول ہے تو وہ محض ذاتی نفع و نقصان کا اصول ہے…نوجوانوں کو کوئی ایسی سوچ دینے میں جو اس سے بلند ہو ہمیں کامیابی نہیں ہو سکی ہے…نتیجتاً ہر فرد مسائل و معاملات کو اجتماعی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ اپنی ذات اور مفاد کے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے جہاں ذات اور مفاد کی تسکین ہے وہاں باقی سب کچھ نظر انداز کر دیا جاتا ہے بصورتِ دیگر اسے کسی بات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ایسے میں نگاہیں قوم کے اربابِ فکر و دانش کی طرف اٹھتی ہیں جو قوموں کی تربیت کیا کرتے ہیں…
یہ طبقہ اگر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے اور مفاد پرستی کی روشِ عام کو ترک کرتے ہوئے قومی تربیت کی ذمہ داری قبول کرے تو شاید ہم حیات نو کی طرف بڑھ سکیں ورنہ حضرت علامہ اقبال کے الفاظ میں اہلِ دانش کے عام ہونے کے باوجود عوام کا ایاغ خالی ہی رہ جائے گا۔ آپ کے مضمون سے خوشی ہوئی کہ آپ نے ملک کے اجتماعی مسئلے کو باریک نگاہی سے دیکھا۔ یہ چند سطریں آپ کے مضمون کا فوری تاثر اور داد ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ ملک کے اربابِ دانش کو جاگنے اور اپنا منصب پہچاننے میں مدد فراہم کر سکیں۔ آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔ 
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ 
زاہد منیر عامر

ای پیپر دی نیشن