مشاورت :اسلامی طرز زندگی کا کلیدی ستون 

Apr 07, 2024

طارق محمود مرزا

 بازگشت… طارق محمود مرزا، آسٹریلیا
tariqmmirza@hotmail.com

سورۃ شوریٰ آیت نمبر 38 میں فرمان الٰہی ہے'' جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں'' مشہور عالمِ دین اور مفسر قرآن سید ابو الاعلی مودودی نے اس آیت کی تفسیر ایسے بیان کی ہے کہ  اسلامی معاشرے میں مشاورت کی اہمیت اور اس کے خدو خال نمایاں ہو جاتے ہیں۔ تفہیم القرآن جلد چہارم صفحہ 508 میں رقم طراز ہیں''مشاورت اسلامی طرز زندگی کا ایک اہم ستون ہے اور مشورے کے بغیر اجتماعی کام چلانا نہ صرف جاہلیت کا طریقہ ہے بلکہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے ضابطے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ مشاورت کو اسلام میں یہ اہمیت کیوں دی گئی اس کے وجوہ پر اگر غور کیا جائے تو تین باتیں واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں ایک یہ کہ جس معاملے کا تعلق دو یا زائد آدمیوں کے مفاد سے ہو اس میں کسی ایک شخص کا اپنی رائے سے فیصلہ کر ڈالنا اور دوسرے اشخاص کو نظر انداز کر دینا زیادتی ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ایک معاملہ جتنے لوگوں کے مفاد سے تعلق رکھتا ہو اس میں ان سب کی رائے لی جائے۔ دوسرے یہ کہ انسان مشترک معاملات میں اپنی من مانی چلانے کی کوشش اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی اغراض کے لیے دوسروں کا حق مارنا چاہتا ہے یا پھر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑی چیز اوردو سروں کو حقیر سمجھتا ہے۔ اخلاقی حیثیت سے یہ دونوں صفات یکساں قبیح ہیں اور مومن کے اندر ان میں کسی صفت کا شائبہ بھی نہیں پایا جا سکتا۔مومن نہ خود غرض ہوتا ہے کہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کر کے خود ناجائز فائدہ اٹھانا چاہے اور نہ وہ متکبر اور خود پسند ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو عقل ِ کْل اور علیم و خبیر سمجھے۔ تیسرے یہ کہ جن معاملات کا تعلق دوسروں کے حقوق اور مفاد سے ہو ان میں فیصلہ کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کوئی شخص جو خدا سے ڈرتا ہو اور یہ جانتا ہو کہ اس کی کتنی سخت جواب دہی ہے کبھی اس بھاری بوجھ کوا اپنے سر لینے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ خدا ترس اور آخرت کی باز پرس کا احساس رکھنے والا آدمی تو لازماً یہ کوشش کرے گا کہ ایک مشترک معاملہ جن جن سے بھی متعلق ہو ان سب کو یا ان کے بھروسے کے نمائندوں کو اس کا فیصلہ کرنے میں شریک مشورہ کرے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ صحیح اور بے لاگ اور مبنی بر انصاف فیصلہ کیا جا سکتا ہے اور اور اگر نادانستہ کوئی غلطی ہو بھی جائے تو تنہا کسی ایک ہی شخص پر اس کی ذمہ داری نہ ا پڑے۔
 یہ تین وجوہ ایسے ہیں جن پر اگر آدمی غور کرے تو اس کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح ا سکتی ہے کہ اسلام جس اخلاق کی انسان کو تعلیم دیتا ہے مشورہ اس کا لازمی تقاضا ہے اور اس سے انحراف ایک بہت بڑی بد اخلاقی ہے جس کی اسلام کبھی اجازت نہیں دے سکتا۔ اسلامی طرز زندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں بڑھتا جائے گھر کے معاملات ہوں تو اس میں میاں بیوی باہم مشورے سے کام کریں اور جب بچے جوان ہو جائیں تو انہیں بھی شریک مشورہ کیا جائے۔ خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی رائے لی جائے۔ ایک قبیلے یا برادری یا بستی کے معاملات ہوں اور سب لوگوں کا شریک مشورہ ہونا ممکن نہ ہو تو ان کا فیصلہ کسی ایسی پنچایت یا مجلس کرے جس میں کسی متفق علیہ طریقے کے مطابق تمام لوگ کے معتمد علیہ نمائندے شریک ہوں۔ 
  پوری قوم کے معاملات ہوں تو ان کے چلانے کے لیے قوم کا سربراہ سب کی مرضی سے مقرر کیا جائے اور وہ قومی معاملات کو ایسے صائب الرائے لوگوں کے مشورے سے چلائے جن کو قوم قابل اعتماد سمجھتی ہو اور وہ اسی وقت تک سربراہ رہے جب تک قوم خود اسے اپنا سربراہ بنائے رکھنا چاہے۔ کوئی ایماندار آدمی زبردستی قوم کا سربراہ بننے اور بنے رہنے کی خواہش یا کوشش نہیں کر سکتا نہ یہ فریب کاری کر سکتا ہے کہ پہلے بزور قوم کے سر پر مسلط ہو جائے اور پھر جبر کے تحت لوگوں کی رضامندی حاصل کرے اور نہ اس طرح کی چالیں چل سکتا ہے کہ اس کو مشورہ دینے کے لیے لوگ اپنی آزاد مرضی سے اپنی پسند کے نمائندے نہیں بلکہ وہ نمائندے منتخب کریں جو اس کی مرضی کے مطابق رائے دینے والے ہوں۔ ایسی ہر خواہش صرف اسی نفس میں پیدا ہوتی ہے جو نیت کی خرابی سے ملوث ہو اور اس خواہش کے ساتھ'' اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں'' کی ظاہری شکل بنانے اور اس کی حقیقت ظاہر کر دینے کی کوششیں صرف وہی شخص کر سکتا ہے جسے خدا اور خلق دونوں کو دھوکہ دینے میں کوئی باک نہ ہو حالانکہ نہ خدا دھوکہ کھا سکتا ہے اور نہ خلق ہی اتنی اندھی ہو سکتی ہے۔ 
یہ آیت پانچ باتوں کا تقاضہ کرتی ہے اول یہ کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفاد سے تعلق رکھتے ہیں انہیں اظہار رائے کی پوری آزادی حاصل ہو اور وہ اس بات سے پوری طرح باخبر رکھے جائیں کہ ان کے معاملات فی الواقع کس طرح چلائے جا رہے ہیں اور انہیں اس امر کا بھی پورا حق حاصل ہو کہ اگر وہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں، احتجاج کر سکیں اور اصلاح ہوتی نہ دیکھیں تو سربراہ کو بدل سکیں۔لوگوں کا منہ بند کر کے اور ان کے ہاتھ پاؤں کس کر اور ان کو بے خبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بددیانتی ہے۔ دوم یہ کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص پر بھی ڈالنی ہو اسے لوگوں کی رضامندی سے مقرر کیا جائے اور یہ رضامندی ان کی آزادانہ رضا مندی ہو جبر اور تخویف سے حاصل کی ہوئی یا تحریص واطماع سے خریدی ہوئی یا دھوکے اور فریب اور مکاریوں سے کھسوٹی ہوئی رضامندی درحقیقت رضامندی نہیں ہے۔ ایک قوم کا صحیح سربراہ وہ نہیں ہوتا جو ہر ممکن طریقہ سے کوشش کر کے اس کا سربراہ بنے بلکہ وہ ہوتا ہے کہ جس کو لوگ اپنی خوشی اور پسند سے اپنا سربراہ بنائیں۔سوم یہ کہ سربراہ کار کو مشورہ دینے کے لیے بھی وہ لوگ مقرر کیے جائیں جن کو قوم کا اعتماد حاصل ہو اور ظاہر بات ہے کہ ایسے لوگ کبھی صحیح معنوں میں حقیقی اعتماد کے عمل قرار نہیں دیے جا سکتے جو دباؤ ڈال کر یا مال سے خرید کر یا جھوٹ اور مکر سے کام لے کر یا لوگوں کو گھیر کر کے نمائندگی کا مقام حاصل کریں۔چہارم یہ ہے کہ مشورہ دینے والے اپنے علم اور ایمان اور ضمیر کے مطابق رائے دیں اور اس طرح کے اظہار رائے کی انہیں پوری آزادی حاصل ہو۔ پنجم یہ کہ جو مشورہ اہل شور یٰ کے اجماع سے دیا جائے یا جسے اکثریت کی تائید حاصل ہو اسے تسلیم کیا جائے۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہو تو مشاورت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالی یہ نہیں فرما رہا کہ ان کے معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا ہے بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں۔
 اس ارشاد کی تعمیر تعمیل مشورہ لے لینے سے نہیں ہو جاتی بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ مشاورت میں اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو اسی کے مطابق معاملات چلیں۔ اسلام کے اصول شوریٰ کی اس توضیح کے ساتھ یہ بنیادی بات بھی نگاہ میں رکھنی چاہیے یہ شوریٰ مسلمانوں کے معاملات کو چلانے میں مطلق العنان اور مختار کل نہیں ہے بلکہ لازماً اس دین کے حدود سے محدود ہے جو اللہ تعالی نے خود اپنی تشریح سے مقرر فرمایا اور اس اصل الاصول کی پابند ہے کہ تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے۔ مسلمان اس غرض سے مشورہ نہیں کر سکتے کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول نے کر دیا ہو اس میں وہ خود کوئی آزادانہ فیصلہ کر سکیں۔''

مزیدخبریں