بابا جانباز کا نام ہی کافی تھا. کام خود ہی ہو جاتاتھا.

تحریر. طارق سعید 
 ہمارے بزرگ قاضی غیاث الدین جانبازجنہیں لوگ بابائے ٹوبہ کے نام سے پکارتے تھے 73 سال کی عمر میں 11 سال قبل کو اللہ کو پیارے ہو گئے. لگتا ہے جیسے کل کی بات ہے مگر سوچتا ہوں جو بچے تھے اور وہ اب 15 یا 20 سال کے ہوئے ہیں انہیں شاید ٹوبہ کے اس بہادر سیاستدان کے متعلق پتہ ہی نہیں ہوگا۔ انہیں بابائے ٹوبہ کا خطاب کیوں دیا گیا اس کے پیچھے ان کی ٹوبہ کے عوام کے حقوق کیلئے بے لوث جدوجہد تھی جس میں انہیں اپنی زندگی کے 11 قیمتی سال جیلوں میں گزارنے پڑے اور لاہور کے شاہی قلعہ میں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔وہ پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن رہے۔انہوں نے غربت کے باوجود 5 بار قومی اور صوبائی اسمبلی کاپی پی پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا جبکہ ایک مرتبہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا اور ہر بار اسٹیبلشمنٹ کی دھاندلی کا شکار بنے اور ہارتے رہے مگر ہر بار دوسرے نمبر پر رہیاور 50 سے 65 یزار ووٹ لیتے رہے.۔2002 میں تحصیل ناظم کا الیکشن جیت گئے مگر پاکستان کی سیاست میں پہلی اور آخری مرتبہ 51 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے کی شرط رکھی گئی اور انہیں تین ووٹوں سے ہرا دیاگیا. 1994 میں اس وقت کے ڈی سی فاروق خاں نے شورکوٹ روڈ اور جھنگ روڈ کھلے کرنے کے لئے دکانیں گرانے کے لئے بلڈوزر منگوا لئے تو اگرچہ وہ عملی سیاست سے دور تھے مگر ان کیمحلہ کے ان کے سیاسی مخالف اور مسلم لیگ ن کے کونسلر میاں عبدالستار تاری مرحوم دکانداروں کا ایک جلوس لے کر ان کے گھر کے باہر آگئے۔ جانباز باہر آئے تو دوکاندار رو رو کر بتانے لگے کہ ان سے روزگار چھیننے کے لئے دکانیں گرانے کا کام شروع ہونے والا ہے.بڑے بڑے بلڈوزر شورکوٹ روڈ پر آگئے ہیں سب سیاستدان انہیں جواب دے چکے ہیں آپ کے سوا کوئی لیڈر ان کا ساتھ نہیں دے سکتا جس پر جانباز کا دل پسیج گیا اور دکاندراوں کا جلوس انہیں کاندھوں پر اٹھا کر بلڈوزروں کے سامنے لے گیا جہاں ایک بنچ پر کھڑے ہو کر انہوں نے اعلان کیا کہ ہمت ہے تو آئو پہلے ان کے جسم پر سے بلڈوزر گزارو پھر دکانیں گرائوسینکڑوں لوگ نعرے لگا رہے تھے تیری آواز میری آواز جانباز جانباز۔بس پھر اوپر تک تاریں ہل گئیں اور بلڈوزروں کو واپس لے جانا پڑا۔
بابا جانبازنے صحافتی زندگی کا آغاز سول اینڈ ملٹری گزٹ کی نامہ نگاری سے کیا پھر کوہستان، امروز،پاکستان ٹائمز۔دی مسلم،دی سن،مساوات کے علاوہ کء ملکی اورغیرملکی اخبارات کے نامہ نگار رہے اورپولیس اور کرپشن کے خلاف خبریں چھاپتے تھے .بے لاگ کے عنوان سے جنگ. نواے وقت. خبریں اور اپنے چچا زاد بھائی محترم جمیل اطہر کے اخبار روزنامہ جرأت میں کالم لکھتے رہے. آخری سالوں میں اتنا زیادہ درود شریف پڑھا کہ کہا کرتے تھے کاش سیاست کی بجائے اسی کام پر لگ جاتا تو چند کروڑ کی بجائے کئی کروڑ بار پڑھ لیتا۔ان کے پرانے ساتھی بتایا کرتے تھے کہ جب چک 324 ج ب کے بے دخل کئے گئیمزارعین کے حق میں 1960 کی دہائی میں خبریں اخبارات میں چھپیں تو پولیس نے جانباز اور منظوراحمد ناز کوگرفتارکر لیا۔انہیں ایس ایچ او کمرے میں لے گئے جہاں ایک عورت بیٹھی تھی جس نے پوچھنے پر بتایا کہ اسے شورکوٹ سے لایا گیا ہے اور کسی جانباز پر زنا کے جھوٹا مقدمہ میں مدعیہ بنانا ہے چنانچہ جانباز تھانہ سے نمازکے بہانے مسجد میں گئے اور دیوار پھلانگ کر فرار ہوکرٹرین پر آدھی رات کو لاہور میں ملک کے مایہ ناز وکیل محمود علی قصوری کے گھر چلے گئے جو اسی وقت انہیں اپنی گاڑی پر ہائیکورٹ کے ڈیوٹی جج کے گھر لے گئے اور جج کا یہ حکم لے کر صبح واپس آئے جس میں لکھا تھا کی جانباز کی کسی بھی مقدمہ میں گرفتاری سے پہلے عدالت سے اجازت لی جائے۔جانباز کی جدوجہد سے بھرپور زندگی پر کتاب لکھی جا سکتی ہے وہ بڑی مشکل سے راضی ہوگئیتھے کہ میں اپنی سوانح عمری لکھتا ہوں مگر کہتے تھے اگر میں نے سچ لکھ دیا تو اس ملک کے اور ٹوبہ کے کئی سیاستدان ننگے ہو جائیں گے اس لیے کتاب میرے مرنے کے بعد ہی چھاپنا. ابھی چند صفحات ہی لکھے تھے کہ آخری وقت آن پہنچا۔ ان کی زندگی کیگیارہ سالہ جیلوں میں گزرے۔اسیری کے دوران انہیں فیصل آباد،ساہیوال۔لاہور،۔جھنگ،میانوالی،ملتان،سرگودھا اور کراچی کی جیلوں میں رکھا گیا۔لایلپور ڈسٹرکٹ جیل میں وہ اور عظیم کسان رہنما چودھری فتح محمد مرحوم اکٹھے بنگلہ دیش کے بعد میں بننے والے ڈپٹی وزیراعظم مسیح الرحمن عرف جادو میاں کے ساتھ بھی رہے. ان کی جیل میں موجودگی میں ہی ذوالفقار علی بھٹو مسیح الرحمن سے ملنے آئے. انہیں اور چوہدری فتح محمد کو 23 مارچ 1970 کی عظیم کسان کانفرنس کے بعد اور مسیح الرحمن مرحوم (جو مولانا عبدالحمید بھاشانی کے دست راست تھے) کو اسی کانفرنس کے بعد اس لئے گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے اپنے خطاب میں اس وقت کے فوجی آمر جنرل یحییٰ خان کو تین بار غدار کہا تھا. ساہیوال جیل میں سابق صدر فاروق لغاری۔میانوالی جیل میں حبیب جالب اور جھنگ جیل میں سابق آئی جی رائو عبدالرشید اور چوہدری الیاس جٹ سابق ایم این اے کے بھائی چوہدری سعید بندیشہ بھی ان کے ساتھ رہے. انہیں اس بات پر فخر رہا کہ علاقہ بھر کے چوراچکے چوہدری. پولیس ٹاؤٹ. چٹی دلال اور رشوت خور سرکاری ملازم ان کے مخالف رہے جبکہ نچلے طبقے کے مظلوم ان کے ساتھ رہے. ان کی رشوت خور افسران پر اتنی دہشت تھی کہ سائل کی ہتھیلی پر دستخط کر کے بھیجتے تو وہ دیکھ کر خوف زدہ ہو کر فوری داد رسی پر مجبور ہو جاتے. کء لوگ تو ان کا ڈراوا دے کر کہ کام کردو نہیں تو بابا جانباز کے پاس جا رہا ہوں اپنے جائز کام بغیر رشوت کروالیتے. یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بابا جانباز کا نام ہی کافی تھا. جب جانباز کی قیادت میں تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل غیر سیاسی تنظیم انجمن مفاد عامہ بنی تو 2012 میں صرف ایک دو گھنٹوں کے لیے بجلی آتی تھی اور شہریوں نے جانباز سے سے اپیل کی کہ کچھ کریں جس پر انہوں نے29 مئی کو واپڈا کے دفتر کے باہر تا مرگ بھوک ہڑتال کردی۔سینکڑوں لوگ بھی ساتھ بیٹھ گئے اورشہر بھر میں ہڑتال کی گئی۔تین دن کے بعد اس وقت کے ڈی سی جاوید اقبال بخاری اور ڈی پی او احسن یونس نے بار بار جانباز سے بھوک ہڑتال ختم کرنے کی اپیل کی مگر وہ ڈٹے رہے کہ فیسکو کے چیف انجینئر ٹوبہ آکر تحریرکرکے دیں کہ ٹوبہ میں فیصل آباد جتنی لوڈ شیڈنگ ہی ہوگی۔جب جانباز کی حالت بگڑی توان کا مطالبہ مانا گیا اور ایک تاریخی معاہدہ ہوا جسکو آج بھی قانونی حیثیت حاصل ہے جس کہ بعد ڈی سی او نے اپنے ہاتھ سیمشروب پلا کر بھوک ہڑتال ختم کروائی۔عالم دین مولانا عبداللہ لدھیانوی مرحوم بتاتے تھے کہ دوران بھوک ہڑتال جانباز نے ان سے کفن لانے کو کہا چنانچہ وہ کفن کے لئے کپڑا لے آئے جو جانباز اپنے کیمپ میں رکھتے تھے کہ وہ کیمپ سے یا کامیاب جائیں گے یا مر کر۔شہری بھوک ہڑتال ختم ہونے پر اتنے بڑے جلوس میں انکے آدھا کلو میٹر دور گھر تک لے کر گئے کہ تین گھنٹے میں جلوس انکیگھر پہنچا. اللہ پاک نے وفات سے قبل اتنی عزت سے نوازا کہ سارا رستہ ہر 15 منٹ بعد ان کی کمزور گردن سے سینکڑوں ہار اتارنے پڑتے جو لوگ ان کے گلے میں ڈال رہے تھے. بھوک ہڑتال کے دوران ان کی دمہ کی بیماری مزید بگڑ گئی اور وہ مسلسل بستر سے لگ گئے اور بالآخرنمونیہ کے حملہ سے زندگی کی بازی ہارگئے۔نمازجنازہ میں ہزاروں لوگ تھے اور اتنا بڑا جنازہ تھاکہ اس کی مثال بہت کم ملے گی. ٹوبہ کی تاریخ میں وہ واحد شخصیت تھے جن کے سوگ میں انجمن تاجراں کی اپیل پر ان کو دفن کرنے تک پورا شہر بند رہا.وہ بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ ایک ایک مرتبہ چین اور شمالی کوریا کے دوروں پر بھی گئے جبکہ تین بار برطانیہ گئے اور دومرتبہ حج کی سعادت بھی حاصل کی ۔آپ سے درخواست ہے کہ اول آخر درود شریف کے بعد سورہ فاتحہ ایک بار اور سورہ اخلاص تین بار پڑھ کر اس کا ثواب انہیں. ان کے اورمیریاور آپ سب پڑھنے والوں کے مرحوم عزیزواقارب کی ارواح کو ایصال ثواب کریں. دعا ہے اللہ تعالیٰ انہیں اور میرے اور آپ سب کیخاندانوں کے مرحومین کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور اپنے پیارے حبیب صل اللہ علیہ وسلم کے صدقے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین.

ای پیپر دی نیشن