لیلۃ القدر جسے شب قدر بھی کہتے ہیں ، ماہِ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں ( اکیسویں ، تیئسویں پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں تا ریخوں میں ایک رات ہے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ’’ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ’’ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں (اور ایک روایت میں ہے کہ رمضان کی آخری سات طاق راتوں ) میں تلاش کیا کرو ‘‘ متفق علیہ۔
قرآنِ پاک کی سورۃ القدرمیں اس رات کی افادیت و اہمیت بیان کی گئی ہے ، قرآن کریم کی اس صورۃ میں اس رات کی عبادت کو ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے ، اسی رات آپ ؐپر وحی نازل ہوئی ، شبِ قدر کی رات عبادات کی رات ہے ، جس میں لوگ نماز، تہجد اور توبہ استغفار کرتے ہیں ، لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی رات ہے اس عشرے میں لوگ اعتکاف بھی بیٹھتے ہیں۔ نفلی نمازیں ادا کی جاتی ہیں تلاوت کلام ِ پاک کیا جاتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ ا آلہ وسلم نے پہلی امتوں کی عمروں کو دیکھا کہ بہت زیادہ ہوئی ہیں، اور آپ ؐ کی امت کی عمریں کم ہیں اگر وہ نیک اعمال میں ان کی برابری کرنا چاہیں تو نا ممکن ہے ، اس پر اللہ کے رسول ﷺ کو رنج ہوا تو اللہ نے اس کے بدلے میں شبِ قدر یعنی لیلۃ القدر عطا فرما دی ، دارْ الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیہ کے فتویٰ نمبر 144209200755 کے مطابق رمضان المبارک اور جمعہ کے دن انتقال کرنے والے مسلمانوں کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ ان سے قبر کا عذاب ہٹا دیا جاتا ہے ، اب یہ عذاب صرف رمضان المبارک اور جمعہ کے دن ہٹایا جاتا ہے یا تا قیامت ، اسکے بارے میں بعض علماء فرماتے ہیں کہ صرف ماہ رمضان اور جمعہ کے دن عذاب اْٹھا دیا جاتا ہے ،اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ تاقیامت ان سے قبر کا عذاب ہٹا دیا جاتا ہے اور یہ قبر میں راحت و آرام کے ساتھ رہتے ہیں۔
زیادہ راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے حق میں یہ حکم عمومی ہے کہ اگر کسی مسلمان کا انتقال رمضان المبارک یا جمعہ کے دن ہو جائے تو تا قیامت عذاب ِ قبر و منکر نکیر کے سوال سے محفوظ رہے گا ، اور اللہ کی رحمت سے یہ بعید بھی نہیں کہ وہ حشر میں بھی اس سے حساب نہ لیں، جیسا کہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے ملفوظات میں ہے کہ رمضان میں اگر انتقال ہو تو ایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن حساب نہیں ہوتا ، یہ جی کو لگتا ہے، اور نا عند ظن عبدی بیہ پر عمل کرے (حوالہ26/ 405) )۔ اور اگر کوئی غیر مسلم رمضان المبارک میں مر جائے تو صرف ماہ مبارک کے احترام میں رمضان المبارک تک عذاب سے محفوظ رہے گا اور رمضان کے بعد پھر اسے عذاب ہو گا۔
میں ایک سیدھا سادہ واحد و لاشریک پر ایمان رکھنے والا اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں اور میرا یہ ایمان ہے کہ رب ِ باری تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے مایوسی گناہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بے انتہاء وسیع ہے ، جب تک بندہ اپنی موت کے وقت غَرغَرہ کی حالت کو نہیں پہنچ جاتا اس وقت سے پہلے پہلے بندہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں اپنے گناہوں سے توبہ کرے گا تو رب ِ کریم اپنے فضل و رحمت سے اس کی توبہ قبول کرتے ہوئے اسکے سب گناہ معاف فرما دے گا۔
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے انسان! جب تک تو مجھ سے دعا کرتا اور امید رکھتا رہے گا ، میں تیرے گناہ بخشتا رہوں گا ، چاہے تجھ میں کتنے ہی گناہ ہوں مجھے کوئی پرواہ نہیں ، اے انسان ! اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تو بخشش مانگے تو میں بخش دوں گا مجھے کوئی پرواہ نہیں اے انسان ! اگر تو زمین بھر گناہ بھی میرے پاس لے کر آئے لیکن تو نے شرک نہ کیا ہو تو میں تمہیں اسکے برابر بخش دوں گا ، رب ِ کریم کی اس یقین دھانی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مسلمان جس نے شرک نہیں کیا وہ بخشا ہوا ہے۔
ماہ رمضان کے با برکت ماہ میں اور خاص کر لیلۃ القدر میں اس دار فانی سے کوچ کر جانے والوں کا رتبہ بڑا افضل ہے ، امام ِ صحافت مجید نظامی 27 رمضان المبارک لیلۃالقدر کے مقدس دن اس دار فانی سے کوچ کر گئے ، وہ پانچ وقت کے نمازی تھے اور اسلامی شعار کا بہت خیال رکھتے تھے ، لیکن ان میں ظاہر داری ، نمائش اور ریا کاری نہیں تھی، اپنے دفتری رفقاء کا بہت خیال رکھتے ، وفات سے پیشتر وہ اپنے روز مرہ کے دفتری معمولات کونمٹا کر گھر پہنچے طبیعت کی ناسازگی کی وجہ سے انہیں چیک اپ کے لئے پی آئی سی لے جایا گیا پی آئی سی میں دو تین روز علاج معالجے کے بعد انہیں ڈاکٹرز ہسپتال منتقل کیا گیا ، 26 ، جولائی 2014 ء بمطابق 27 ، ویں رمضان المبارک امام ِ صحافت مجید نظامی راہی ملک عدم ہوئے ، اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔
قائد اعظم کے جری سپاہی ہونے کے ناطے مجید نظامی نے قائد کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے ان کے مشن کو جاری رکھا اورتحریکِ پاکستان کی تکمیل کو اپنا مقصد حیات بنایا ، عاشق رسول ؐ ہونے کے ناطے تحریکِ ختم نبوت ، تحریک نظام ِ مصطفی اور تحریک تحفظ ناموس رسالت کے سرخیل رہے ، ہر جابر و ظالم حکمراں کے سامنے کلمہء حق بولنے کی جرآت رکھنا مجید نظامی کا خاصہ تھا ، مجید نظامی نے روزنامہ نوائے وقت کو ہمیشہ قومی اقدار اور ملی امنگوں کی ترجمانی کا ذریعہ بنایا ، اور اپنی سرپرستی میں قائم کئے گئے نظریہ پاکستان ٹرست اور ایوان ِ کارکنان تحریک پاکستان سے نوجوانان ملت کو مقاصد پاکستان سے روشناس کرانے کا عظیم کارنامہ انجام دیا ، خلقِ خدا سے محبت ان کا خیال رکھنا اور رسول اکرم ؐکی محبت ہی تھی کہ اللہ نے انہیں 27 ویں رمضان المبارک اس فانی دنیا کاآخری یوم نصیب فرمایا۔