ڈاکٹر مجید نظامی سے میں نے کیا سیکھا

Apr 07, 2024

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

میں آج ایک عجیب بات کرنے لگا ہوںبلکہ باتیں پرانی ہیں، میںنے ان کا نتیجہ اپنے انداز سے نکالا ہے اور نئے حالات کے پیش نظر نکالا ہے۔میں پیشہ ورانہ فرائض کے سلسلے میںڈاکٹر مجید نظامی سے پہلی بار1970 میں پرانی انارکلی میں ان کے روزنامے ندائے ملت کے دفتر میں ملا۔ ان دنوںمیں ہفت روزہ زندگی میںکام کررہا تھا، ہمیں ان پر ایک ٹائٹل سٹوری شائع کرنا تھی اور میں ان کا پورٹریٹ لینے گیا تھا۔بعد میں ،میں نے ان کے زیر سایہ نوائے وقت کے میگزین ایڈیٹر اور پھر ڈپٹی ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے۔ آخری دس برسوں میںانتہائی قریب سے ان کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔میں ان کو گھر میں علی الصبح ملتا رہا اور ایسے لمحات بھی آئے کہ مجھے ان سے یہی صبح کی میٹنگ کارڈیالوجی ہسپتال کی راہداری میںبچھائے ایک ہنگامی بستر پر کرنا پڑتی تھی۔ میںنے انکے چہرے پر ہمیشہ یک گونہ طمانیت کی کہکشاں دمکتی دیکھی۔میری انکی رفاقت کی کہانی پینتالیس برس پر پھیلی ہوئی ہے۔تو پہلے میں آپ کو یہ کیوں نہ تو بتا دوںکہ وہ کیا خاص بات ہے جو میںنے ان سے سیکھی اور جس کا کسی اور نے ابھی تک کسی بھی انداز میں اظہار نہیں کیا۔انسان کواپنے مقصد حیات کے حصول کیلئے زندہ رہنا چاہیے۔ یہ ہے وہ سبق جو میںنے ان سے سیکھا اور یہ مجھ پر الہام نہیںہوا ، اس کا ذکرانہوںنے اپنی سالگرہ کی آخری تقریب میں خود کیا ہے۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ ڈاکٹر مجید نظامی نے فرمایا تھا کہ ان کی ایک خواہش ہے کہ ان کی زندگی میں کشمیر کو آزادی مل جائے۔یہ ایک بہت بڑا نصب العین ہے جس کے حصول کیلئے انہوں نے چھیاسی برس تک انتظار کیا۔اگر ہر کسی کے سامنے ایک عظیم نصب العین ہو، تو اسکے حصول تک اسے جینے کی کوشش کرنی چاہئے۔سر پھوڑنا ہو تو راہ چلتے آپ کسی سے بھی ٹکر اجائیں۔لیکن اس طرح آپ اپنی زندگی کا نصب العین تو حاصل نہیں کر پائیں گے۔
ڈاکٹر مجید نظامی کو جو اخبار ملا ، اسکی پیشانی پر لکھا تھا کہ بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔انکے بڑے بھائی یہی کلمہ جہاد بلند کرتے رہے مگر وہ زندگی کی بازی ہار بیٹھے۔چھوٹے بھائی کو کلمہ حق بھی بلند کرنا تھا اور زندہ بھی رہنا تھا۔اور انہوںنے دونوں کام کر دکھائے۔ کونسا کلمہ حق ہے جو انہوںنے بلند نہیں کیا او رجابر اور ظالم سلطان کے سامنے نہیں کہا۔ایوب خان کے سامنے انہوںنے مادر ملت کا ساتھ دیا۔ان سے کہا گیا کہ محترمہ سے یہ خطاب واپس لیں مگر وہ ایوب کے سامنے ڈٹ گئے۔ بھٹو نے جمہوریت کی بحالی کی جد وجہد شروع کی تو وہ انگلی تھامے ان کو لے کر چلے مگر وہ اقتدار میں بد مست ہوا تو انہوںنے کلمہ حق کہنے کی راہ اپنائی۔ ضیا الحق نے لاہور کے ایک فنکشن میں کہا کہ کچھ لوگوں کے سر میں جمہوریت کا کیڑا ہے تو وہ اسٹیج پر آگے بڑھے اور اپنے سر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ، یہ کیڑا اس سر میں بھی ہے۔ضیا ہی کے دور میں محمد رفیق ڈوگر کی فائل کردہ خبر پر حکومت نے ناراض ہو کر کہا کہ رپورٹر کو پولیس کے حوالے کر دیا جائے۔ انہوںنے فون کرنیوالے سے کہا کہ اخبار کا مالک میں ہوں اور میں ہی اس کا ایڈیٹر ہوں، گھر سے سامان باندھ لایا ہوں، مجھے لے جایئے۔اور یہ بھی میںنے دیکھا کہ ایک اوراخبار میں دو رپورٹروں کی خبروں پر حکومت ناراض ہوئی تو اخبار میں ان کی تصویر لگا کر انہیں نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔یہی اخباری ادارہ آج دعویٰ کرتے نہیں تھکتا کہ وہ اپنے کارکنوں کے ساتھ کھڑا ہے، اللہ اسے اپناقول نبھانے کی توفیق بخشے۔
 مگر مجید نظامی کا سا کوئی کون ہو گا۔نواز شریف نے دھماکے کرنے میںلیت و لعل سے کام لیا تو ایک بھری میٹنگ میں نظامی صاحب نے ان سے کہا کہ آپ دھماکہ نہیںکرینگے تو لوگ آپ کا دھماکہ کر دیں گے، میں آپ کا دھماکہ کردوں گا۔ایک میٹنگ میں جنرل مشرف نے کشمیر پالیسی سے انحراف کا تاثر دیا تو میرے سامنے اور ایک سو دیگر ایڈیٹروں کے سامنے نظامی صاحب نے اس ڈکٹیٹر سے کہا کہ کشمیر سے غداری کرینگے تو اس کرسی پر نہیں رہ سکیں گے۔ حق گوئی کا سبق کسی نے سیکھنا ہو تو ان سے سیکھے۔ اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان کو ہاتھ لگاتا، ان کے اخبار کے نیوز پرنٹ کو روکنے کی بھی کسی میں ہمت نہیں تھی، ہاں، اشتہار بند کر کے ضرور ان کا امتحان لیا گیا مگر انہوںنے کبھی یہ نہیں کہا کہ اشتہارات کی بندش آزادی صحافت پر حملہ ہے۔بھٹو دور میں ہمارے بزرگ مصطفی صادق ان کو دربار اکبری میں لے گئے ، کافی دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں ، آخر بھٹو نے تنگ آکر کہا ، ائوے! مصطفی ، جس کام کیلئے آئے ہو اسکی بات کرو، اشتہار کھولنے کی بات کیوںنہیں چھیڑتے۔ نظامی صاحب نے تنک کر جواب دیا ، کہ میرا اشتہاروں سے کیا لینا دینا ، میں اشتہارکھلوانے نہیں آیا۔ کونسا اخباری مالک ہے جو اشتہاروںکی قربانی دے سکتا ہے۔نظامی صاحب کے رپورٹروں نے کیا کیا خبریںنہیں دیں، اس اخبار کے کالم نویسوں نے کیا کیا نہیںلکھا۔ اور کبھی کسی کالم کو سنسر نہیں کیا گیا، جو بھی کالم نویس اخبار چھوڑ کر گیا ، وہ بہتر تنخواہ کیلئے گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کے بارے میںکھل کر لکھا گیا۔ کبھی مجھے کسی جملے پر اعتراض ہوتا اور میںکالم روکنے کی سفارش کرتا تو مجھے نظامی صاحب ہدائت کرتے کہ آپ کا کام یہ ہے کہ کالم کو اشاعت کے قابل بنا کر میرے پاس بھیجو۔ جنرل ضیا کے بارے میں اخبار کی پالیسی کون نہیں جانتا مگر مجیب الرحمن شامی نے سانحہ بہاولپور پر یکے بعدیگرے تین ماتمی کالم لکھے، ان کالموں کو ادارتی صفحے سے اٹھا کر صفحہ دو پر چھاپا گیا تاکہ ان کی اشاعت میںتاخیر نہ ہو۔اور شامی صاحب نے ظاہر ہے ، اپنی افتاد طبع کے مطابق ضیا کو ایک ہیرو کے طور پر یاد کیا تھا۔ 
مجھے یاد ہے صدام حسین نے کویت پر قبضہ جمایا ا ور امریکہ نے اسکے خلاف ایکشن لیا تو سارا پاکستان صدام حسین کا حامی تھا۔ ایک دن مجھ سے نظامی صاحب نے پوچھا کہ کیا دفتر میں کوئی اور بھی ہماری ادارتی پالیسی کا حامی ہے ، میںنے انہیںبتایا کہ پورا نیوز ڈیسک اخبارکے صفحات پرصدام کے گن گا رہا ہے۔ یہ سن کر وہ مسکرا دیئے۔ انہوںنے اپنی پالیسی تھوپنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔میرے سامنے ایک بار ہی ہمارے دفتر پر حملہ ہوا مگر لگتا یہ ہے کہ جمعیت کے حملہ آوروں کے رستے میں ہمارا دفتر پڑتا تھا، اس لئے انہوںنے یہاںنیٹ پریکٹس کی مگر آگے جا کر دوسرے اخبار کے دفتر کو انہوںنے خاکستر کر کے رکھ دیا۔نائن الیون کے بعد کا زمانہ بڑا ہنگامہ خیز تھا ، امریکہ اور ساری دنیا اسامہ بن لادن کے خون کی پیاسی تھی مگر نوائے وقت میں اسامہ کی تصویر کے ساتھ افغان باقی، کہسار باقی کا نعرہ بلند کیا گیا، امریکہ اس پر ضرور برہم ہوا مگر نظامی صاحب نے کہا جس نے انہیں، گوانتا نامو بے ،لے جانا ہے،لے جائے۔ مگر کس میں ہمت تھی کہ ان کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھتا۔سمندروںمیں طغیانی آتی ہے، فضائوں میںبجلیاں گرجتی ہیں مگر اچھا کپتان وہی ہوتا ہے جو مسافروں کو حفاظت سے نکال لے جائے،وہ طوفانوں سے الجھتا نہیں ، خود کشی نہیںکرتا، نہ مسافروں کی جان لیتا ہے۔
ڈاکٹر مجید نظامی سے کوئی کلمہ حق کہنے کا سلیقہ سیکھے اور اپنے مقصد حیات کی تکمیل کیلئے جینے کا ولولہ بھی سیکھے۔ وہ راستے کے پتھروں سے سر نہیں پھوڑتے، مگر کہیں سر جھکاتے بھی نہیں۔ اور کسی میں ہمت بھی نہیں تھی کہ انکا سر جھکانے کا خیال بھی دل میںلا تا۔خدا نے انہیں لمبی زندگی دی، وہ ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ جینا اور سر اٹھا کے جینا، انہی کاطرہ امتیاز تھا۔وہ کشمیر کیلئے جیئے، یہ کشمیر کل بھی پاکستان کے ساتھ تھا، آج بھی ہے اور آنے والے کل میں یقینی طور پر پاکستان کا حصہ بن کر رہے گا۔ میں اس مقصد کیلئے اپنا اور اپنے قلم کا خون تک بہانے کو تیار ہوں۔
 نظامی صاحب ! آپ سے میرا پکا وعدہ ہے!
٭…٭…٭

مزیدخبریں