آج سے 10سال قبل 2014ء کے ماہ رمضان المبارک کا تیسرا روزہ تھا جب ہمارے مربی و محسن، امامِ صحافت مجید نظامی اپنے معمولات کے مطابق مقررہ وقت پر آفس آئے اور دفتری معاملات نمٹانے کے بعد روٹین کی ایڈیٹوریل میٹنگ کی۔ اگرچہ ان کے چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے اور دوران گفتگو ان کا لہجہ بھی خاصا دھیما تھا مگر انہوں نے حسبِ معمول اداریہ اور شذرات کیلئے تجویز کئے گئے موضوعات پر اپنے فہم و تفکر کے مطابق کھل کر تبادلہ خیال کیا اور ان کی منظوری دی۔ ایڈیٹوریل میٹنگ کے بعد وہ گھر روانہ ہو گئے۔ انکے رخصت ہونے کے بعد ان کے دیرینہ خدمت گار محمد منیر نے مجھے بتایا کہ آج نظامی صاحب کواپنی نشست سے اٹھتے ہوئے کافی دقّت کا سامنا کرنا پڑا ہے میں نے انہیں سہارا دے کر اٹھایا، خدا خیر کرے۔ آج ان کی طبیعت کافی ناساز نظر آئی ہے۔ پھر ہمیں اطلاع ملی کہ نظامی صاحب کو چیک اپ کیلئے پی آئی سی لے جایا گیا ہے، دل سے انکی صحت مندی اور درازی عمر کیلئے دعائیں نکلتی رہیں۔ پی آئی سی میں دو تین روز کے علاج معالجہ کے بعد انہیں ڈاکٹرز ہسپتال منتقل کر دیا گیا اور وہیں پر 27ویں رمضان المبارک بتاریخ 26 جولائی 2014ء کو اپنی زندگی کا آخری سانس لیتے ہوئے امامِ صحافت اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اس طرح ماہ رمضان المبارک کے تیسرے روزے کا دن نوائے وقت فیملی کے سربراہ محترم مجید نظامی کے آفس آنے کا وہ آخری دن بن گیا جب ان کی رہنمائی میں ہم نے جملہ ادارتی فرائض انجام دئیے۔ و ہ یقیناً ربِ کائنات کے عزیز بندوں میں شامل تھے اس لئے 27رمضان المبارک کو لیلۃ القدر کا مقدس دن ان کے وصال کا دن مقرر ہوا اور وہ خدائے وحدہ لا شریک کی رحمتوں، بخششوں، فضیلتوں کے خزانے سمیٹتے ہوئے اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ آج انہیں ہم سے جدا ہوئے پورے 10 سال ہوگئے ہیں مگر ہمیں آج بھی یہی محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے معمولات کے مطابق آفس میں تشریف رکھتے ہیں اور ہماری رہنمائی فرما رہے ہیں۔ یہ خدا کی محبوب ہستی کی حیثیت سے انکے زندہ جاوید ہونے کی علامت ہے۔ اگرچہ وہ قبرستان میانی صاحب میں آسودۂ خاک ہیں مگر جملہ ادارتی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ہمیں آج بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے لئے انکی ہدایات و رہنمائی کا چشمہ جاری و ساری ہے اور وہ اسی طرح ہماری رہنمائی کر رہے ہیں جو انکی زندگی میں ان کا خاصہ رہی ہے۔ آج انکی صاحبزادی اور نوائے وقت گروپ کی منیجنگ ڈائریکٹر محترمہ رمیزہ مجید نظامی انہی جیسی پیشہ ورانہ مہارت اور لگن کے ساتھ اپنی جملہ ذمہ داریاں اور آزادیِ صحافت کے تقاضے آبرومندی کے ساتھ نبھا رہی ہیں اور انہوں نے اپنے والد محترم کے وضع کردہ زریں اصولوں اور انکی پالیسی پر کوئی حرف نہیں آنے دیا تو اس میں محترم مجید نظامی کا ودیعت کیا ہوا اعتماد ہی انکے شامل حال ہے۔
مجھے ادارہ نوائے وقت میں اپنی 43 سالہ وابستگی کے دوران 33 سال تک محترم مجید نظامی کی سرپرستی، رہنمائی اور رفاقت میسر رہی۔ اس عرصہ میں زندگی کے کئی نشیب و فراز کا سامنا رہا۔ دفتری امور میں بھی کٹھنائیوں کے کئی مراحل آئے مگر محترم مجید نظامی کی پدرانہ شفقت ہمیشہ میرے شامل حال رہی۔ میں نے نوائے وقت کے جس بھی شعبے میں کام کیا اس میں محترم مجید نظامی کی خواہش اور رضامندی کا ہی عمل دخل ہوتا تھا۔ ادارے میں رہتے ہوئے کسی خاص شعبے میں ذمہ داری یا منصب کی کبھی کوئی خواہش رہی نہ کبھی اس کا اظہار کیا۔ محترم مجید نظامی میرے لئے جو ذمہ داری اور جو منصب مناسب سمجھتے وہ تفویض کر دیا کرتے تھے چنانچہ مجھے یہی محسوس ہوتا ہے جیسے میں خاندانِ نوائے وقت کے رکن کی حیثیت سے آج بھی محترم مجید نظامی کی سرپرستی میں انکی خواہش کیمطابق ہی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہوں۔ انکی سرپرستی و رفاقت سے وابستہ یادوں کے آج ذہن میں جھکڑ چل رہے ہیں۔ میں نوائے وقت کے چیف رپورٹرکے منصب سے الگ ہونے کے بعد محترم مجید نظامی کی ہدایات و خواہش کے مطابق شعبہ رپورٹنگ میں اپنی ’’بیٹ‘‘ کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہفتہ وار کالم لکھنے کا سلسلہ بھی شروع کر چکا تھا۔ ذہن میں یہی تھا کہ نوائے وقت میں اب یہی میری آخری منزل ہے اور اپنی ملازمت کے 25 سال مکمل ہونے پر میں ریٹائرمنٹ لینے کا سوچ رہا تھا مگر ستمبر 2006ء میں ایک دن محترم مجید نظامی نے مجھے طلب فرمایا اور کہا کہ میری خواہش ہے آپ شعبہ رپورٹنگ سے شعبہ ایڈیٹوریل میں آجائیں۔ میں نے کسی پس و پیش کے بغیر سرِ تسلیم خم کیا اور محترم مجید نظامی کی رضا کے مطابق شعبہ ایڈیٹوریل کیلئے اپنی رضامندی ظاہر کر دی چنانچہ اسی وقت محترم مجید نظامی نے شعبہ ایڈمن کے متعلقہ صاحب کو بلوا کر میری بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر شعبہ ایڈیٹوریل میں منتقلی کے احکام صادر فرما دئیے۔ اس طرح نوائے وقت کے شعبہ نیوز، میگزین اور رپورٹنگ سے ہوتے ہوئے میں شعبہ ایڈیٹوریل تک آپہنچا اور پھر اسسٹنٹ ایڈیٹر سے ڈپٹی ایڈیٹر ایڈیٹوریل اور اسکے دو سال بعد گروپ ڈپٹی ایڈیٹر کے منصب پر سرفراز ہوا۔ چونکہ لکھنے لکھانے سے پہلے بھی شغف تھا اس لئے مجھے اس شعبے میں کام کرتے ہوئے بھی کسی دقّت کا سامنا نہیں کرنا پڑا جبکہ محترم مجید نظامی کی پل پل سرپرستی بھی شامل حال تھی۔ چونکہ مجید نظامی صاحب کے ساتھ روزانہ ایڈیٹوریل میٹنگ ہوتی تھی اس لئے ان سے روزانہ رہنمائی لینے کا موقع بھی ملتا رہا۔ روزانہ مقررہ وقت پر آفس آنا اور دوسرے دفتری امور نمٹانے کے ساتھ ساتھ ایڈیٹوریل میٹنگ لینا بھی ان کا معمول تھا جس میں نوائے وقت شعبہ ایڈیٹوریل کے ارکان کے علاوہ ایڈیٹر دی نیشن بھی شریک ہوتے اور مختلف موضوعات پر سیر حاصل بحث کے بعد ادارئیے اور شذرات کے موضوعات کا انتخاب ہوتا۔ اتوار کے روز وہ اپنے گھر پر میرے پیشرو ڈپٹی ایڈیٹر سیّد ارشاد عارف اور انکے بعد میرے ساتھ ایڈیٹوریل میٹنگ کیا کرتے تھے۔ اگر کبھی ان کی طبیعت ناساز ہوتی یا کسی دوسری مصروفیت کی وجہ سے آفس تشریف نہ لا سکتے تو ٹیلی فون پر مجوزہ موضوعات پر تبادلہ خیال کرکے اداریہ اور شذرات کیلئے گائیڈ لائن دیتے اور انتظامی معاملات پر بھی ہدایات جاری فرما دیتے۔ اسی طرح جب انہیں آفس آنے سے پہلے نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں جانا ہوتا تو گھر سے ان کا پیغام آجاتا کہ آفس کے باہر سڑک پر آجائو۔ انکے ڈرائیور نے اس عرصہ میں انکی گاڑی کھڑی کرنے کا ایک خاص مقام منتخب کر رکھا تھا، ہمیشہ وہیں ان کی گاڑی پارک ہوتی اور پھر وہ مجھے اپنے ساتھ والی نشست پر بٹھا کر جملہ ادارتی امور پر تبادلہ خیال کرتے اور ہدایات جاری فرماتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ مجھے گاڑی میں ساتھ ہی نظریہ پاکستان ٹرسٹ تک لے جاتے اور راستے میں اداریہ اور شذرات کے موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے رہتے۔ اگر وہ بیرون ملک جاتے تو بھی مقررہ وقت پر وہیں سے روٹین کے مطابق ٹیلی فون کرکے ضروری ہدایات صادر فرما دیتے۔ اس طرح شعبہ ایڈیٹوریل میں انکی سرپرستی میں آٹھ سال تک کام کرتے ہوئے کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا ہو گا جب ان سے بالمشافہ یا ٹیلی فونک رابطہ نہ ہوا ہو۔ مجھے آج انچارج ایڈیٹوریل کی حیثیت سے بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ میں محترم مجید نظامی کی سرپرستی میں ہی یہ ذمہ داریاں نبھا رہا ہوں۔ انہوں نے اپنے برادر مکرم حمید نظامی مرحوم کے ودیعت کردہ جن صحافتی اصولوں کا دامن تھاما تھا، اپنی زندگی کے آخری سانس تک وہ اس پر کاربند رہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میں پاکستان کیلئے جانبدار ہوں اور ہمیشہ جانبدار رہوں گا چنانچہ انہوں نے عملی طور پر بھی صرف پاکستان کی بقا‘ مضبوطی اور استحکام کیلئے کام کیا اور اس مقصد کیلئے نظریہ پاکستان کو حرزِ جاں بنائے رکھا۔ وہ نظریہ پاکستان میں کمزوری پیدا ہونا پاکستان کی بنیادوں میں کمزوری در آنے سے تعبیر کیا کرتے تھے اس لئے وہ زندگی بھر کوشاں رہے کہ بالخصوص نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے آگاہ و روشناس رکھا جائے۔ چنانچہ وہ اپنے ہر فورم پر نوجوان نسل کو نظریہ پاکستان سے روشناس کرانے اور اسکے ساتھ پیوستہ رکھنے کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ آج نوائے وقت گروپ کی شکل میں انکی روشن کی ہوئی شمع اسی طرح روشنی کی کرنیں بکھیر رہی ہے اور قومی صحافت میں پاکستان کیلئے جانبداری کا ٹھوس پیغام دے رہی ہے۔ یہ انکی صاحبزادی محترمہ رمیزہ نظامی کا اعزاز ہے کہ انہوں نے مرحوم مجید نظامی کی روشن کی ہوئی شمع کو ہی صحافت کی آبیاری میں اپنے لئے مشعل راہ بنایا ہے۔
محترم مجید نظامی کی برسی تو عیسوی کیلنڈر کے مطابق 26 جولائی کو ہی منائی جاتی ہے۔ تاہم قمری کیلنڈر میں ماہ رمضان المبارک کی 27 ویں تاریخ بھی اب ہمیشہ ان کی یادوں کے ساتھ منور رہے گی۔ ذات باری تعالیٰ نے انکی رحلت کیلئے اس مقدس دن کا انتخاب کرکے انکی بلند درجہ جنت مکانی کا پہلے ہی اہتمام کر دیا ہوا ہے سو ان کی یادیں ہمہ وقت تازہ رہتی ہیں۔ آج انکے 10ویں یوم وفات کے موقع پر ملکی حالات کے تناظر میں جدید اسلامی جمہوری فلاحی پاکستان کیلئے انکی کاوشوں اور دردمندی کا احساس دل کو کچھ زیادہ ہی ملول کررہا ہے اور آج بالخصوص پرنٹ میڈیا ابتلا کے جس دور سے گذر رہا ہے وہ کٹھنائیوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے اس پیشہ پیغمبری میں محترم مجید نظامی کی کٹھن عملی جدوجہد سے پَل پَل رہنمائی حاصل کرنے کا متقاضی ہے۔
بے شک محترم مجید نظامی اقبال کے اس شعر کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے کہ:
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن