معزز قارئین! پاکستان سمیت دْنیا بھر کے مسلمانوں نے 26 اور 27 رمضان شریف 1445ھ کی رات، شب ِ قدر / لیلۃ اْلقدر ہزاروں مہینوں سے بہتر برکتوں والی رات اپنے اپنے انداز میں عبادت میں گزاری ہوگی۔ اْن خواتین و حضرات نے 26 ،27 رمضان شریف 1366ھ، 14 اگست 1947ء کو بھی یاد کِیا ہوگا جن کے بزرگوں نے ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے پرچم تلے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اسلامیانِ ہند کی جدوجہد کو عملی شکل دینے کے لئے مالی اور جانی قربانیاں دِی تھیں۔
معزز قارئین !1915ء میں عاشق رسول، مصورِ پاکستان، علاّمہ محمد اقبال کی والدہ محترمہ کا انتقال ہْوا تو اْنہوں نے ہر مرنے والے مسلمان کے پسماندگان کے لئے ایک نظم لکھی تھی، جس کا ایک شعر یہ بھی ہے کہ…
’’مرنے والے مرتے ہیں لیکن، فنا ہوتے نہیں!
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جْدا ہوتے نہیں!‘‘
…O…
معزز قارئین!۔ 27/26 رمضان 1323ھ (15/ 16دسمبر1905ء) میرے دادا جی رانا عبداْلرحیم چوہان کا سِکھوں کی ریاست نابھہ میں انتقال ہْوا تھا اور میرے والد صاحب تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان کا 26/27 رمضان20 14ھ (14/15 جنوری 1999ء) کو لاہور میں وفات پا گئے تھے اور تحریک پاکستان کے نامور قائد ’’مفسرِ نظریہ پاکستان‘‘ اور معمار روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ جنابِ مجید نظامی بھی اْنہی قابلِ فخر مسلمانوں میں سے ایک ہیں جو 26/27 رمضان 1435ھ (26 جولائی 2014ء) کو لاہور میں وفات پا گئے تھے۔ جنابِ مجید نظامی اپریل 1928ء کو پاک پنجاب کے علاقہ سانگلہ ہل میں پیدا ہْوئے تھے۔ معزز قارئین ! مَیں نے 1956ء میں میٹرک پاس کِیا اور پہلی نعت لکھی۔ مَیں نے 1960ء میں مسلک صحافت اختیار کِیا ،جب مَیں ’’بی۔ اے۔ فائنل‘‘ کا طالبعلم تھا۔ پھر مَیں اْردو اور پنجابی کا باقاعدہ شاعر اور صحافی بن گیا۔ فروری 1964ء میں جنابِ مجید نظامی نے مجھے سرگودھا میں ’’نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار مقرر کِیا۔
’’ مادرِ ملّت سے ملاقات!‘‘
2 جنوری 1965ء کے ’’صدارتی انتخاب‘‘ میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں جنہیں جناب مجید نظامی نے ’’مادرِ ملّت‘‘ کا خطاب دِیا۔ صدارتی انتخاب سے کچھ دِن پہلے مجھے اپنے صحافی دوست تاج اْلدّین حقیقت کے ساتھ لاہور میں مادرِ ملّت سے ملاقات کا شرف حاصل ہْوا۔ وہاں تحریک پاکستان کے دو ( گولڈ میڈلسٹ) کارکنان ،لاہور کے مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری اور پاکپتن شریف کے چودھری محمد اکرم طور سے بھی، پھر میری اْن دونوں حضرات سے دوستی ہوگئی۔ تحریک پاکستان کے دَوران مرزا شجاع اْلدّین امرتسری کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہْوا شہید ہوگیا تھا اور چودھری محمد اکرم طور نے مہاجرین کی آبادکاری میں اہم کردار ادا کِیا تھا۔
’’حاصلِ زندگی!‘‘
معزز قارئین! مَیں نے اپنے والدین کی دْعائوں سے روزنامہ ’’سیاست‘‘ لاہور کے ایڈیٹر اور مختلف قومی اخبارات (خاص طور پر نوائے وقت) کے کالم نویس کی حیثیت سے پاکستان کے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رْکن کی حیثیت سے اْن کے ساتھ آدھی دْنیا کی سیر کی لیکن میری زندگی کا حاصل یہ ہے کہ ’’مجھے ’’نوائے وقت‘‘ کے کالم نویس کی حیثیت سے ستمبر 1991ء میں صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رْکن کی حیثیت سے اْن کے ساتھ خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونے کا شرف حاصل ہْوا۔ مجھے یقین ہے کہ ’’ اِس کا ثواب جنابِ مجید نظامی کو بھی ضرور ملا ہوگا؟‘‘۔
’’شاعرِ نظریہ پاکستان ! ‘‘
معزز قارئین! 20 فروری 2014ء کو ’’ کارکنان تحریک پاکستان‘‘ لاہور میں ’’نظریہ پاکستان کانفرنس‘‘ کے موقع پر مَیں نے ’’نظریہ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری جنرل کی فرمائش پر ملّی ترانہ لکھا جو تقریب کے شرکاء نے بے حد پسند کِیا، پھر جنابِ مجید نظامی نے مجھے ’’شاعرِ نظریہ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا۔ ملّی ترانہ کے صرف دو شعر پیش کر رہا ہْوں…
پیارا پاکستان ہمارا، پیارے پاکستان کی خیر!
پاکستان میں رہنے والے، ہر مخلص انسان کی خیر!
…O…
خِطّہ پنجاب سلامت، خیبر پختونخوا، آباد!
قائم رہے ہمیشہ، میرا سِندھ، بلوچستان کی خیر!
…O…
معزز قارئین ! مَیں نے جنابِ مجید نظامی کے وِصال پر جو نظم لکھی اْس کا صرف ایک شعر حاضر ہے…
’’رَواں ہے، چشمہ نْور کی صْورت،
ہر سْو اْن کی ذاتِ گرامی!
جب تک پاکستان ہے زندہ،
زندہ رہیں گے مجید نظامی!‘‘
…O…
’’رانا فضل محمد چوہان!
میرے والد صاحب ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے National Guards کو دہشت گرد ہندوئوں اور سِکھوں سے لڑنے کے لئے ’’لٹھ بازی‘‘ سِکھایا کرتے تھے۔ سِکھ ریاستوں نابھہ، پٹیالہ اور ضلع امرتسر میں ہمارے خاندان کے 26 افراد بھی سِکھوں سے لڑتے ہْوئے شہید ہوگئے تھے۔1947ء میں ہجرت کے بعد ہمارا خاندان میرے والد، ’’تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن‘‘ رانا فضل محمد چوہان کی راہبری میں پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہْوا تھا۔ میرے والد مجھے میلاد شریف کی محفلوں میں لے جاتے تھے۔ اْنہوں نے مجھے ضلع سرگودھا میں آباد تحریک پاکستان کے کئی (گولڈ میڈلسٹ) کارکنان سے متعارف کرادِیا تھا
’’دربار حضرت داتا صاحب! ‘‘
مَیں 1955ء میں نویں جماعت کا طالبعلم تھا جب میرے والد صاحب مجھے اپنے ساتھ لاہور لائے۔ مَیں اْن کی راہبری میں احاطہ دربار داتا گنج بخش صاحب میں حاضر ہْوا تو ہم دونوں نے پہلے (اپنے جدّی پشتی پیر و مْرشد) خواجہ غریب نواز، نائب رسول فی الہند حضرت معین اْلدّین چشتی کی چلّہ گاہ پر حاضری دِی اور پھر بارگاہِ حضرت داتا صاحب میں۔ پھر یہ میرا معمول بن گیا۔ دراصل مجھے میرے والد صاحب نے حضرت داتا گنج بخش کی بارگاہ میں حاضری کے آداب سِکھائے تھے۔
’’کشف اْلاسرار کا نسخہ کیمیا! ‘‘
حضرت داتا گنج بخش نے اپنی تصنیف ’’کشف اْلاسرار‘‘ میں فرمایا کہ ’’اگر کوئی مسلمان مشکلات کا شکار ہو تو وہ اپنے والد صاحب سے کہے کہ ’’ابو جی!آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے دْعا کریں!‘‘ اور اگر والد صاحب حیات نہ ہوں تو وہ خود اْن کی قبر پر جا کر اللہ تعالیٰ سے دْعا کریں کہ’’یا اللہ!۔ میرے والد صاحب کے صدقے میری مشکلات دور کردیں تو اللہ تعالیٰ وہ مشکلات دور کردیتے ہیں!‘‘۔ میرے والد صاحب جب تک سلامت رہے، مَیں اْنہی سے عرض کِیا کرتا تھا کہ ’’ابو جی آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے دْعا کریں!‘‘۔
’’ ہر وقت میرے دِل میں! ‘‘
معزز قارئین! میرے والد ِ محترم ہر وقت میرے دِل میں رہتے ہیں۔مَیں سوچتا ہْوں کہ ’’کاش میرے والد محترم اْس وقت بھی حیات ہوتے کہ ’’ جب20 فروری 2014ء کو ’’مفسرِ نظریہ پاکستان ‘‘ جنابِ مجید نظامی نے مجھے ملّی ترانہ لکھنے پر شاعرِ نظریہ پاکستان ‘‘ کا خطاب دیا تھا یکم اکتوبر 2017ء کو میری منقبت’’جے کربل وِچ مَیں وِی ہوندا!‘‘ کے عنوان سے شائع ہْوئی تھی تو راولپنڈی کے حقیقی درویش ’’تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ ‘‘ کے سربراہ، آغا سیّد حامد علی شاہ صاحب موسوی (اب مرحوم) نے مجھے ’’حسینی راجپوت‘‘ کا خطاب دِیا تھا!‘ ‘۔
’’فضلِ رحیم، مْحکم خان!‘‘
معزز قارئین ! میرے والد رانا فضل محمد چوہان اور میرے دادا رانا عبداْلرحیم خان چوہان اور میرے پردادا رانا مْحکم خان کے ناموں کا ایک مصرع بنا کر مَیں نے ایک نظم لکھی تھی، جس کے دو بند ملاحظہ فرمائیں…
بندہ اِیمان و اِیقان!
مردِ جری، مردِ میدان!
صاحب عظمت صاحب شان!
فضلِ رحیم، محکم خان!
… O …
خاک پائے، شاہِ مدینہ!
یادِ علی سے روشن سِینہ!
خواجہ چشتی سے فیضان!
فضلِ رحیم، محکم خان!
… O …