ماہِ صیام کے آخری عشرے کا آغاز ہوتے ہی رمضان کی محدود ساعتوں سے فیضیاب ہونے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اور عید کا اہتمام و انتظام بھی آخری مراحل میں ہوتا ہے ۔ ایسی خواتین جن کے خاندان کے کچھ افراد بیرونِملک مقیم ہیں وہ پردیسیوں کے سامانِ عید کا بقچہ روانہ کرنے کے بعد کچھ اپنی تیاری کی جانب متوجہ ہوتی ہیں ۔ دیس اور پردیس میں گزرنے والی عید میں کافی فرق ہوتا ہے اور اس کا بہتر قیاس اس صورت میں ہو سکتا ہے جب آپ نے چند عیدیں بیرونِملک گزاری ہوں یا آپ کے قریبی افراد میں کوئی ملک سے باہر مقیم ہو ۔ چند انفرادی جذبات و احساسات کے مطابق بیانِ سرگزشت کچھ مختلف ہو سکتا ہے مگر بنیادی خیال تقریبا ایک ہی ہوتا ہے کہ اپنوں اور وطن سے دوری میں کیا لطف ِعید ۔ میرے والد صاحب کے ایک قریبی دوست غریبْالوطنی پر بہت زیادہ حساس تھے اور شہر سے چالیس پچاس کلومیٹر دور جاتے ہی پردیسی ہو جایا کرے تھے اور ایک عجیبیاسیت بھری کیفیت طاری کر لیتے تھے یعنی غریب الوطنی کی بھی دو اقسام ہیں ایک وہ جو اپنے ہی ملک میں حصول ِعلم یا ملازمت کی خاطر اپنے آبائی علاقوں سے بڑے شہروں میں منتقل ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو کسی بھی مقصد کے لیے ملک کو خیر باد کہہ دیتے ہیں ۔ و طن میں اپنوں کے ساتھ گزرنے والے تہواروں کا کوئی نعم البدل نہیں اور اچھا برا ، موافق و ناموافق ایک انفرادی تجربہ ہے ۔کوئی نعمت بے محنت اور بِلا معاوضہ میسر ہو تو اس کی قدر نہیں ہوتی ایسی ہی کچھ صورتحال بیرون ملک بھی ہوتی ہے جب تہواروں پر بہت سی معمول کی باتیں بہت قیمتی محسوس ہوتی ہیں ۔ عمدہ و اچھی بات جہاں کہیں بھی دیکھنے و سیکھنے کو ملے اس سے ضرور نصیحت حاصل کرنا چاہیے ۔ آسڑیلیا کے شہر سڈنی میں چند عیدیں گزارنے کا موقع ملا دورانِ تہوار کچھ خوشگوار یادیں اور مختلف تجربات آج بھی ذہن میں تازہ ہیں ۔ سڈنی ایک کثیر الثقافتی معاشرے کی عمدہ مثال ہے۔ جہاں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ مختلف ممالک سے مسلمانوں کی بڑی تعدادآبادد ہے ۔عید پر پہلا خوشگوار تاثر نمازِ عید کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جب مختلف ممالک اور تہذیب و ثفاقت سے تعلق رکھنے افراد ثقافتی تنوع کی ایک دلکش تصویر پیش کرتے ہیں ۔ اکثر اوقات مساجد یا پارکس میں کچھ میلوں اور تقاریب کا اہتمام ہوتا ہے جس میں ہر قومیت سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوتے ہیں ۔ لبنان ، ترکیہ ، مصر اور انڈونیشیا کے کچھ خاندانوں سے قریبی ربط و تعلق کی وجہ سے عیدین پر ان کے انداز اطوار سے شناسائی ہوئی ۔ ایک بات جو بہت سے مسلم ممالک کے رسوم و رواج میں نمایاں ہے وہ اپنی اپنی حیثیت اور وسعت کے مطابق تہواروں پر خوب اہتمام اور کھل کر خوشی اور مسرت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں ۔ خاص طور ترکیہ سے تعلق رکھنے والے گھرانوں میں عیدین پر گھروں میں جشن کا سا سماں رہتاہے اور مختلف سرگرمیوں کے زریعے خاندان اور دوستوں کے درمیان تعلقات میں تازگی و استواری کی قصداً سعی کی جاتی ہے ۔ اور تعجب انگیز پہلویہ ہے کہ اس تمام عمل میں کہیں بھی نمود و نمائش کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ بات کی جائے وطن عزیز کی تو پچھلے چند سالوں سے عیدین پر عجیب پڑمردگی اور بے زاری کی سی کیفیت نمایاں ہوتی ہے ۔ اور اکثر قومی تقاریب اور تہواروں سے پہلے کچھ ایسے واقعات منظر عام پر آتے ہیں جو قوم کے مزاج و کردار اور فکر و عمل پر ایسے سوالیہ نشان چھوڑ جاتے ہیں جن کے اسباب و عِلل کو جانچتے ہوئے کسی نقطے پر پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے اور پھر چند دن کے شور شرابے کے بعد بغیر کسی حسب ضابطہ کاروائیاور نتیجہ خیز انجام پر پہنچے بغیر مذمتی بیانات کی طرح کی ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ خاتون کے لباس کی وجہ سے توہینِمذہب کا الزام ہو ، ٹوبہ میں ہونے والا ماریہ قتل کیس اور اس کے علاوہ مساجد میں دورانِ اعتکاف رونما ہونے والے ناخوشگوار واقعات ہر سوچ وچار کرنے والے فرد کی فسردہ دلی کی وجہ ہو سکتے ہیں ۔ اس تمام بحث کا مقصد کوئی موازنہ یا تقابل نہیں بلکہ تجربات و مشاہدات کی تفسیر و تفصیل ہے ۔عید وطن میں ہو یا دیارِغیر میں اس کا اصل مقصود ادائیگی شکر اور تمام امتیازات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اخوت اور مساوات کو فروغ دینا ہے ۔ تباہ حال معیشت ، مہذب تفریح اور معقول مصروفیات نہ ہونے کی وجہ سے تہواروں کا روایتی جوش و خروش ماند پڑتا جا رہا ہے جو لمحہ فکریہ ہے ۔