سید یوسف رضا گیلانی (وزیراعظم پاکستان)
مےرے والد 12دسمبر 1919ءبمطابق آٹھ محرم الحرام اپنے آبائی گھر واقع پاک دروازہ ملتان مےں پےدا ہوئے ۔ پےدائش کے وقت اُن کا نام سےد ابوالحسن شاہ رکھا گےا لےکن آٹھ محرم الحرام کی نسبت سے بعد مےں علمدار حسےن رکھ دےاگےا اور ےہی نام معروف ہوا۔ ہمارا گھرانہ سنی شےعہ اتحاد کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ حسب رواےت دس محرم الحرام کے موقع پر جب تعزےوں کے ساتھ چلنے کےلئے تاےا مخدوم شوکت حسےن نکلے تو مخالف حکومت نے روکا کہ وہ گھوڑے پر سوار ہوکر جلوس مےں نہ آئےں۔ سرکاری رکاوٹوں کے باعث تاےا باہر نہ آئے، جس کی وجہ سے ملتان شہر کے تمام تعزےے رک گئے اور حالات اتنے کشےدہ ہوگئے کہ انتظامےہ امن وامان قائم رکھنے کےلئے اُن کی منت سماجت کر کے جلوس مےں لے آئی اس طرح تعزےے روانہ ہوئے ، ےہ رسم آج بھی جاری ۔
والد نے ابتدائی تعلےم ملتان اور مظفرگڑھ مےں حاصل کی کےونکہ دادا اُن دنوں سب ڈوےژنل مجسٹرےٹ علی پور ، مظفر گھڑھ تعےنات تھے۔ نوابزادہ نصراللہ خان والد کے کلاس فےلو تھے۔ والد نے 1941ءمےں اےمرسن کالج ملتان سے بی اے کا امتحان پاس کےا۔ وہ خاندان کے دوسرے فرد تھے جنہوں نے بی اے تک تعلےم حاصل کی۔ پہلے فرد مخدوم راجن بخش گےلانی کے بڑے بےٹے اور والد کے چچا مخدوم غلام محی الدےن شاہ گےلانی تھے جنہوں نے گورنمنٹ کالج، لاہور سے 1927ءمےں بی اے پاس کےا، بعدازاں وہ سول سروس مےں رہے اور بطور سےکرٹری مغربی پاکستان رےٹائر ہوئے۔
والد نے اپنے زمانہ طالب علمی ہی سے سےاست مےں حصہ لےنا شروع کردےا اور مسلم لےگ مےں شمولےت اختےار کی۔ جب وہ اےف اے کے طالب علم تھے تو انہوں نے اپنے بزرگ سےد زےن العابدےن شاہ اور مسلم لےگ ضلع ملتان کے صدر، چچا مخدوم غلام بنی شاہ کے ساتھ مل کر مسلم لےگ کےلئے کام کیا۔ مخدوم غلام نبی شاہ نے تحرےک پاکستان کے دوران مسلم لےگ مےں شمولےت اختےار کی اور ملتان کے دےہی علاقوں مےں مسلم لےگ کو متعارف کروانے اور فعال بنانے مےں اہم کردار ادا کےا۔ انہےں 14اگست 1942ءکو مسلم لےگ ، ملتان شہر کا صدر منتخب کےا گےا۔ آپ 1949ءتک اس عہدے پر فائز رہے ۔ آپ کو 1944ءمےں مسلم لےگ کی صوبائی مجلس عاملہ کارکن نامزد کےا گیا۔
پےر صدر الدےن شاہ گےلانی 1946ءمےں چچا سےد رحمت حسےن کی منگنی کے سلسلے مےں مخدوم الملک سےد غلام مےراں شاہ گےلانی کے ہاں جمال الدےن والی، ضلع رحےم ےار خان گئے ۔ جب وہ وہاں پہنچے تو مخدوم الملک نے خواہش ظاہر کی کہ انکی والدہ اور دوبےٹےوں مےں سے بیعت لیں۔ اس طرح یہ خواتین پر دادا کے ہاتھ پر بیعت ہوئیںاور بعد میں انکی بیٹیوں میں سے اےک کی شادی 1948ءمےں مےرے والد اور دوسری کی شادی اُسی روز چچا رحمت حسےن سے ہوئی ، ےوں اُنکی ےہ دونوں بےٹےاں مےری والدہ اور خالہ بنےں ۔ اُنکی تےسری بےٹی اُس وقت نوعمر تھےں، بعد مےں اُنکی شادی پےر صاحب پگاڑو سے ہوئی ۔ والدہ کو شادی کے بعد آبائی گھر واقع پاک دروازہ مےں لاےاگےا۔ بڑی پھوپھی (جو بڑی بی بی کے نام سے موسوم تھےں، زُہدوتقویٰ اور پرہےز گاری مےں اتنی مشہور تھےں کہ ملتان مےں شاےد ہی کوئی اےسا گھر ہو جس نے ان سے فےض نہ پاےا ہو، ساتھ ہی وہ صاحب ثروت بھی تھےں)نے والد اور چچا رحمت حسےن کو قائل کےا کہ آپ دونوں کی دلہنےں بڑے گھرانوں سے ہےں اور انہوں نے محلات مےں پرورش پائی ہے، لہٰذا انہےں الجےلان روڈ پر واقع گھر ، الجےلان، لے جائےں اور وہےں رہائش پذےر ہوں ۔ ےہ گھرآدھ مربع رقبہ پر محےط پھوپھی کی اپنی ملکےت تھا۔ سو، والد اور چچا رحمت حسےن اس گھر مےں منتقل ہوگئے۔ تاےا ولائےت حسےن پہلے ہی سے اُس گھر کے قرےب رہائش پذےر تھے جونئے ڈےزائن کے مطابق تعمےر ہواتھا اور جس مےں اےک تہہ خانہ تھا جوان دنوں اےک جدت تھی۔
والد اس گھر، الجےلان، کو خوش بختی اور ملتان کی سےاست کا محور سمجھتے تھے کہ اس گھر مےں گورنر جنرل غلام محمد ، خواجہ ناظم الدےن، وزرائے اعظم نوابزادہ لےاقت علی خان ، حسےن شہےد سہرودی ، آئی آئی چندر ےگر اور ملک فےروز خان نون کے علاوہ محترمہ فاطمہ جناح، سردار عبدالرب نشتر اور راجہ غضنفر علی جےسی نامور شخصےات تشرےف لاچکی تھےں۔ علاوہ ازےں پےر صاحب اجمےر شرےف بھی اس گھر مےں تشرےف لاچکے تھے۔گےلانی گروپ نے 1949ءمےں مےاں ممتاز محمد خان دولتانہ کے ساتھ اےک سےاسی معاہدہ کےا جو بعد مےں ، گےلانی دولتانہ پےکٹ، کے نام سے مشہور ہوا۔ اس معاہدے کی تحرےر مندرجہ ذےل تھی:
”ہم مندرجہ ذےل مسلمان اس کلام پاک پر اےمان رکھتے ہوئے عہد کرتے ہےں کہ ہم آپس مےں متفق رہےں گے اور اےک دوسرے سے متفق اور وفادار رہےں گے اور گےلانی پارٹی کے اکثرےت کے فےصلہ کے پابند رہےں گے۔
دستخط
ممتاز محمددولتانہ ، سےد شوکت حسےن گےلانی ، محمد علمدار حسےن گےلانی ، محمد انور رانانون ، فےض بخش کھوکھر ، درمحمد ، امےر محمد شاہ، ہےبت ڈاہا، سےد غلام نبی گےلانی ، محمد اکرم بوسن، غلام قادر سنڈھل ، غلام محمد خان، ولی ہراج، سےد احمد شاہ، محمد رےاض رانا، محمد حسےن 12-9-49“
ممتاز دولتانہ نے گےلانی گروپ کی اکثرےت کے فےصلے کی پابندی کاحلف اٹھاےا مگر اسکے برعکس انہوں نے 1951ءمےں وزےر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھالنے کے بعد نہ صرف گےلانی گروپ کو نظراندا ز کےا بلکہ اُنکے سےاسی حرےف سےد علی حسےن گردےزی کو اپنا صوبائی وزےر تعلےم مقرر کر دےا۔ اُنکے اس اقدام سے، گےلانی دولتانہ پےکٹ ، ختم ہوگےا۔ 1988ءکے عام انتخابات مےں جب مےرا مقابلہ ملتان سے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے سربراہ /وزےر اعلیٰ پنجاب مےاں محمد نواز شرےف سے ہورہا تھا تو انتخابی مہم مےں جسٹس (ر)سردار عبدالجبار خان نے مےرے لےے اےک بڑے جلسہ عام کا انعقاد لطف آباد ، ملتان مےں کےا۔ اس موقعہ پر انہوں نے ، گےلانی دولتانہ پےکٹ ، سے پردہ اٹھاتے ہوئے مجھے بتاےا کہ آپکے والد مسلم لےگ ضلع ملتان کے صدر اور مےں سےکرٹری تھا، مےں ممتاز دولتانہ کے پاس گےا کہ آپ معاہدہ کےمطابق سےد علمدار حسےن گےلانی کو وزےر بنائےں۔ انہوں نے کہا:
”He is already an established person.I can, t further establish him “
ترجمہ: وہ پہلے ہی سے مستحکم شخص ہےں۔ مےں انہےں مزےد مستحکم نہےں کرسکتا۔
ممتاز دولتانہ بمشکل ڈےڑھ برس اس منصب پر فائز رہے ۔ بعد ازاں وہ ازخود مستعفی ہو گئے جس کے اسباب ےہ تھے کہ پنجاب حکومت کی زرعی اصلاحات سے زمےندار طبقہ ناراض تھا اور اسی بنا پر انہوں نے حکومت کو گندم فروخت کرنے سے انکار کردےا، نتےجتاً صوبہ بھر مےں گندم کی قلت ہو گئی۔ مجلس احرار، نے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کےلئے اُنکی حماےت کرنی شروع کردی۔ وفاق کو کمزور کرنے کی ضد مےں وزےراعلیٰ ممتازدولتانہ در پردہ مجلس احرار، کی حماےت کررہے تھے۔ اسی دوران ، مجلس احرار ، نے قادےانی کافر کا نعرہ لگادےا۔ملک مےں فسادات شروع ہو گئے ۔ لاہور کی طرح کراچی اور کوئٹہ بھی لپےٹ مےں آگئے حالانکہ مسلم لےگ پنجاب پہلے ہی قادےانےوں کو کافر قراردےنے کےلئے بھاری اکثرےت سے قرارداد منظور کرچکی تھی۔ لاہور مےں ہنگامے اس قدر بڑھ گئے کہ جنرل اعظم کی سربراہی مےں وہاں مارشل لاءلگادےا گےا۔ اس طرح دولتانہ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ ممتاز دولتانہ کے بعد فےروزخان نون کو وزےراعلیٰ پنجاب مقررکیا گیا۔
1951ءکے عام انتخابات میں والد کے نامزد امےدوار وں کو مسلم لےگ کے ٹکٹ دےئے گئے ۔ ان انتخابات کے سلسلے مےں مسلم لےگ کا کنونشن ہمارے گھر، الجےلان، ملتان مےں ہوا جس کی صدارت وزےراعظم پاکستان اور صدر مسلم لےگ نوابزادہ لےاقت علی خان نے کی۔ جلسے کے دوران وزےراعظم نے والد ، تاےا ولائےت حسےن اور چچا رحمت حسےن کے ہاتھ تھام کرکہا:
”They are the backbone of the Muslim League.“
ترجمہ: ےہ مسلم لےگ کی رےڑھ کی ہڈی ہےں۔
ان انتخابات مےں بہت سے احباب نے گےلانی خاندان کی بھر پور امداد کی جن مےں قابل ذکر پےر سےد غلام محی الدےن گےلانی المعروف بابو جی پےر صاحب گولڑہ شرےف ہےں۔ اس سلسلے مےں انہوں نے 1951ءمےں اپنے مرےدوں کےلئے اےک خط، تحرےر کےا جس کا مضمون ےہ تھا:
”جملہ مخلصان جن کا تعلق جناب حضرت صاحب قبلہ مدظلہ کےساتھ ہے اُن کو مطلع کےا جاتا ہے کہ وہ جناب سےد ولائےت حسےن شاہ صاحب ودےگر برادران سےد علمدار حسےن شاہ صاحب گےلانی ورحمت حسےن شاہ صاحب گےلانی کی کامےابی کےلئے خاص طورپر امداد کرتے ہوئے سعادت حاصل کرےں۔
والسلام
حسب الارشاد جناب حضرت قبلہ مدظلہ
بقلم سلطان محمود بھٹی ازآستانہ عالےہ گولڑہ شرےف
۳جمادی الاول بمطابق 20-2-51
از طرف غلام محی الدےن شاہ گےلانی امروزہ گولڑہ شرےف “
تاےا ولائےت حسےن نے مسلم لےگ کے امےدوار کی حےثےت سے 1951ءکے انتخابات مےں حلقہ مخدوم رشےد ، ملتان سے آزاد امےدوارمخدوم سجاد حسےن قرےشی کو اےم اےل اے کی لوکل نشست پر شکست دی جبکہ مہاجر نشست پر مسلم لےگی امےدوار چوہدری محمد حنےف اےم اےل اے منتخب ہوئے۔ والد نے اسی انتخاب مےں مسلم لےگ کے ٹکٹ پر لودھراں کی معروف شخصےت سےد سردار شاہ (سےد ناصر علی رضوی کے سسر)جو جناح عوامی لےگ کے امےدوار تھے، کو شکست دی۔ اس انتخاب مےں چچا رحمت حسےن نے جلال پور پےراوالا (شجاع آباد)کے دےوان غلام عباس بخاری کا مقابلہ کےا مگر وسائل کی کمی کے سبب انتخابی مہم کو پرزور انداز مےں نہ چلا سکے اور انتخاب ہارگئے لےکن اُنکے مد مقابل کےلئے ےہ سرائےکی فقرہ زبان زدِ عام ہوگےا ”جگ داوالی تے ووٹ چاہلی “۔ کےونکہ دےوان صاحب کو اپنے ہی گھرجلالپور پےروالا شہر سے صرف چالےس ووٹوں کی برتری مل سکی تھی۔
دادا مخدوم غلام مصطفےٰ شاہ انتہائی اعتماد کی وجہ سے مےرے والد کو اپنا جانشےن مقرر کرنا چاہتے تھے مگر والد نے خاندانی رواےت کہ سجادہ نشےں سےاست مےں حصہ نہےں لے گا، کو مد نظر رکھتے ہوئے معذرت کرلی کےونکہ وہ پہلے ہی مےدان سےاست مےں اپنا کردار ادا کررہے تھے۔ تاےا ولائےت حسےن بھی سےاست مےں سرگرم تھے، لہٰذا خاندان نے تاےا مخدوم شوکت حسےن کے حق مےں فےصلہ کردےا۔ تاےا ولائےت حسےن مضبوط اعصاب کے مالک ، کھرے ، نڈر اور دوستوں کے دوست تھے۔ انہوں نے بھی خلوص نےت سے اس فےصلے کا احترام کےا اورا پنے چھوٹے بھائی مخدوم شوکت حسےن کے پاﺅں چھو کر بڑائی کا ثبوت دےا۔ (جاری )
مےرے والد 12دسمبر 1919ءبمطابق آٹھ محرم الحرام اپنے آبائی گھر واقع پاک دروازہ ملتان مےں پےدا ہوئے ۔ پےدائش کے وقت اُن کا نام سےد ابوالحسن شاہ رکھا گےا لےکن آٹھ محرم الحرام کی نسبت سے بعد مےں علمدار حسےن رکھ دےاگےا اور ےہی نام معروف ہوا۔ ہمارا گھرانہ سنی شےعہ اتحاد کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ حسب رواےت دس محرم الحرام کے موقع پر جب تعزےوں کے ساتھ چلنے کےلئے تاےا مخدوم شوکت حسےن نکلے تو مخالف حکومت نے روکا کہ وہ گھوڑے پر سوار ہوکر جلوس مےں نہ آئےں۔ سرکاری رکاوٹوں کے باعث تاےا باہر نہ آئے، جس کی وجہ سے ملتان شہر کے تمام تعزےے رک گئے اور حالات اتنے کشےدہ ہوگئے کہ انتظامےہ امن وامان قائم رکھنے کےلئے اُن کی منت سماجت کر کے جلوس مےں لے آئی اس طرح تعزےے روانہ ہوئے ، ےہ رسم آج بھی جاری ۔
والد نے ابتدائی تعلےم ملتان اور مظفرگڑھ مےں حاصل کی کےونکہ دادا اُن دنوں سب ڈوےژنل مجسٹرےٹ علی پور ، مظفر گھڑھ تعےنات تھے۔ نوابزادہ نصراللہ خان والد کے کلاس فےلو تھے۔ والد نے 1941ءمےں اےمرسن کالج ملتان سے بی اے کا امتحان پاس کےا۔ وہ خاندان کے دوسرے فرد تھے جنہوں نے بی اے تک تعلےم حاصل کی۔ پہلے فرد مخدوم راجن بخش گےلانی کے بڑے بےٹے اور والد کے چچا مخدوم غلام محی الدےن شاہ گےلانی تھے جنہوں نے گورنمنٹ کالج، لاہور سے 1927ءمےں بی اے پاس کےا، بعدازاں وہ سول سروس مےں رہے اور بطور سےکرٹری مغربی پاکستان رےٹائر ہوئے۔
والد نے اپنے زمانہ طالب علمی ہی سے سےاست مےں حصہ لےنا شروع کردےا اور مسلم لےگ مےں شمولےت اختےار کی۔ جب وہ اےف اے کے طالب علم تھے تو انہوں نے اپنے بزرگ سےد زےن العابدےن شاہ اور مسلم لےگ ضلع ملتان کے صدر، چچا مخدوم غلام بنی شاہ کے ساتھ مل کر مسلم لےگ کےلئے کام کیا۔ مخدوم غلام نبی شاہ نے تحرےک پاکستان کے دوران مسلم لےگ مےں شمولےت اختےار کی اور ملتان کے دےہی علاقوں مےں مسلم لےگ کو متعارف کروانے اور فعال بنانے مےں اہم کردار ادا کےا۔ انہےں 14اگست 1942ءکو مسلم لےگ ، ملتان شہر کا صدر منتخب کےا گےا۔ آپ 1949ءتک اس عہدے پر فائز رہے ۔ آپ کو 1944ءمےں مسلم لےگ کی صوبائی مجلس عاملہ کارکن نامزد کےا گیا۔
پےر صدر الدےن شاہ گےلانی 1946ءمےں چچا سےد رحمت حسےن کی منگنی کے سلسلے مےں مخدوم الملک سےد غلام مےراں شاہ گےلانی کے ہاں جمال الدےن والی، ضلع رحےم ےار خان گئے ۔ جب وہ وہاں پہنچے تو مخدوم الملک نے خواہش ظاہر کی کہ انکی والدہ اور دوبےٹےوں مےں سے بیعت لیں۔ اس طرح یہ خواتین پر دادا کے ہاتھ پر بیعت ہوئیںاور بعد میں انکی بیٹیوں میں سے اےک کی شادی 1948ءمےں مےرے والد اور دوسری کی شادی اُسی روز چچا رحمت حسےن سے ہوئی ، ےوں اُنکی ےہ دونوں بےٹےاں مےری والدہ اور خالہ بنےں ۔ اُنکی تےسری بےٹی اُس وقت نوعمر تھےں، بعد مےں اُنکی شادی پےر صاحب پگاڑو سے ہوئی ۔ والدہ کو شادی کے بعد آبائی گھر واقع پاک دروازہ مےں لاےاگےا۔ بڑی پھوپھی (جو بڑی بی بی کے نام سے موسوم تھےں، زُہدوتقویٰ اور پرہےز گاری مےں اتنی مشہور تھےں کہ ملتان مےں شاےد ہی کوئی اےسا گھر ہو جس نے ان سے فےض نہ پاےا ہو، ساتھ ہی وہ صاحب ثروت بھی تھےں)نے والد اور چچا رحمت حسےن کو قائل کےا کہ آپ دونوں کی دلہنےں بڑے گھرانوں سے ہےں اور انہوں نے محلات مےں پرورش پائی ہے، لہٰذا انہےں الجےلان روڈ پر واقع گھر ، الجےلان، لے جائےں اور وہےں رہائش پذےر ہوں ۔ ےہ گھرآدھ مربع رقبہ پر محےط پھوپھی کی اپنی ملکےت تھا۔ سو، والد اور چچا رحمت حسےن اس گھر مےں منتقل ہوگئے۔ تاےا ولائےت حسےن پہلے ہی سے اُس گھر کے قرےب رہائش پذےر تھے جونئے ڈےزائن کے مطابق تعمےر ہواتھا اور جس مےں اےک تہہ خانہ تھا جوان دنوں اےک جدت تھی۔
والد اس گھر، الجےلان، کو خوش بختی اور ملتان کی سےاست کا محور سمجھتے تھے کہ اس گھر مےں گورنر جنرل غلام محمد ، خواجہ ناظم الدےن، وزرائے اعظم نوابزادہ لےاقت علی خان ، حسےن شہےد سہرودی ، آئی آئی چندر ےگر اور ملک فےروز خان نون کے علاوہ محترمہ فاطمہ جناح، سردار عبدالرب نشتر اور راجہ غضنفر علی جےسی نامور شخصےات تشرےف لاچکی تھےں۔ علاوہ ازےں پےر صاحب اجمےر شرےف بھی اس گھر مےں تشرےف لاچکے تھے۔گےلانی گروپ نے 1949ءمےں مےاں ممتاز محمد خان دولتانہ کے ساتھ اےک سےاسی معاہدہ کےا جو بعد مےں ، گےلانی دولتانہ پےکٹ، کے نام سے مشہور ہوا۔ اس معاہدے کی تحرےر مندرجہ ذےل تھی:
”ہم مندرجہ ذےل مسلمان اس کلام پاک پر اےمان رکھتے ہوئے عہد کرتے ہےں کہ ہم آپس مےں متفق رہےں گے اور اےک دوسرے سے متفق اور وفادار رہےں گے اور گےلانی پارٹی کے اکثرےت کے فےصلہ کے پابند رہےں گے۔
دستخط
ممتاز محمددولتانہ ، سےد شوکت حسےن گےلانی ، محمد علمدار حسےن گےلانی ، محمد انور رانانون ، فےض بخش کھوکھر ، درمحمد ، امےر محمد شاہ، ہےبت ڈاہا، سےد غلام نبی گےلانی ، محمد اکرم بوسن، غلام قادر سنڈھل ، غلام محمد خان، ولی ہراج، سےد احمد شاہ، محمد رےاض رانا، محمد حسےن 12-9-49“
ممتاز دولتانہ نے گےلانی گروپ کی اکثرےت کے فےصلے کی پابندی کاحلف اٹھاےا مگر اسکے برعکس انہوں نے 1951ءمےں وزےر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھالنے کے بعد نہ صرف گےلانی گروپ کو نظراندا ز کےا بلکہ اُنکے سےاسی حرےف سےد علی حسےن گردےزی کو اپنا صوبائی وزےر تعلےم مقرر کر دےا۔ اُنکے اس اقدام سے، گےلانی دولتانہ پےکٹ ، ختم ہوگےا۔ 1988ءکے عام انتخابات مےں جب مےرا مقابلہ ملتان سے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے سربراہ /وزےر اعلیٰ پنجاب مےاں محمد نواز شرےف سے ہورہا تھا تو انتخابی مہم مےں جسٹس (ر)سردار عبدالجبار خان نے مےرے لےے اےک بڑے جلسہ عام کا انعقاد لطف آباد ، ملتان مےں کےا۔ اس موقعہ پر انہوں نے ، گےلانی دولتانہ پےکٹ ، سے پردہ اٹھاتے ہوئے مجھے بتاےا کہ آپکے والد مسلم لےگ ضلع ملتان کے صدر اور مےں سےکرٹری تھا، مےں ممتاز دولتانہ کے پاس گےا کہ آپ معاہدہ کےمطابق سےد علمدار حسےن گےلانی کو وزےر بنائےں۔ انہوں نے کہا:
”He is already an established person.I can, t further establish him “
ترجمہ: وہ پہلے ہی سے مستحکم شخص ہےں۔ مےں انہےں مزےد مستحکم نہےں کرسکتا۔
ممتاز دولتانہ بمشکل ڈےڑھ برس اس منصب پر فائز رہے ۔ بعد ازاں وہ ازخود مستعفی ہو گئے جس کے اسباب ےہ تھے کہ پنجاب حکومت کی زرعی اصلاحات سے زمےندار طبقہ ناراض تھا اور اسی بنا پر انہوں نے حکومت کو گندم فروخت کرنے سے انکار کردےا، نتےجتاً صوبہ بھر مےں گندم کی قلت ہو گئی۔ مجلس احرار، نے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کےلئے اُنکی حماےت کرنی شروع کردی۔ وفاق کو کمزور کرنے کی ضد مےں وزےراعلیٰ ممتازدولتانہ در پردہ مجلس احرار، کی حماےت کررہے تھے۔ اسی دوران ، مجلس احرار ، نے قادےانی کافر کا نعرہ لگادےا۔ملک مےں فسادات شروع ہو گئے ۔ لاہور کی طرح کراچی اور کوئٹہ بھی لپےٹ مےں آگئے حالانکہ مسلم لےگ پنجاب پہلے ہی قادےانےوں کو کافر قراردےنے کےلئے بھاری اکثرےت سے قرارداد منظور کرچکی تھی۔ لاہور مےں ہنگامے اس قدر بڑھ گئے کہ جنرل اعظم کی سربراہی مےں وہاں مارشل لاءلگادےا گےا۔ اس طرح دولتانہ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ ممتاز دولتانہ کے بعد فےروزخان نون کو وزےراعلیٰ پنجاب مقررکیا گیا۔
1951ءکے عام انتخابات میں والد کے نامزد امےدوار وں کو مسلم لےگ کے ٹکٹ دےئے گئے ۔ ان انتخابات کے سلسلے مےں مسلم لےگ کا کنونشن ہمارے گھر، الجےلان، ملتان مےں ہوا جس کی صدارت وزےراعظم پاکستان اور صدر مسلم لےگ نوابزادہ لےاقت علی خان نے کی۔ جلسے کے دوران وزےراعظم نے والد ، تاےا ولائےت حسےن اور چچا رحمت حسےن کے ہاتھ تھام کرکہا:
”They are the backbone of the Muslim League.“
ترجمہ: ےہ مسلم لےگ کی رےڑھ کی ہڈی ہےں۔
ان انتخابات مےں بہت سے احباب نے گےلانی خاندان کی بھر پور امداد کی جن مےں قابل ذکر پےر سےد غلام محی الدےن گےلانی المعروف بابو جی پےر صاحب گولڑہ شرےف ہےں۔ اس سلسلے مےں انہوں نے 1951ءمےں اپنے مرےدوں کےلئے اےک خط، تحرےر کےا جس کا مضمون ےہ تھا:
”جملہ مخلصان جن کا تعلق جناب حضرت صاحب قبلہ مدظلہ کےساتھ ہے اُن کو مطلع کےا جاتا ہے کہ وہ جناب سےد ولائےت حسےن شاہ صاحب ودےگر برادران سےد علمدار حسےن شاہ صاحب گےلانی ورحمت حسےن شاہ صاحب گےلانی کی کامےابی کےلئے خاص طورپر امداد کرتے ہوئے سعادت حاصل کرےں۔
والسلام
حسب الارشاد جناب حضرت قبلہ مدظلہ
بقلم سلطان محمود بھٹی ازآستانہ عالےہ گولڑہ شرےف
۳جمادی الاول بمطابق 20-2-51
از طرف غلام محی الدےن شاہ گےلانی امروزہ گولڑہ شرےف “
تاےا ولائےت حسےن نے مسلم لےگ کے امےدوار کی حےثےت سے 1951ءکے انتخابات مےں حلقہ مخدوم رشےد ، ملتان سے آزاد امےدوارمخدوم سجاد حسےن قرےشی کو اےم اےل اے کی لوکل نشست پر شکست دی جبکہ مہاجر نشست پر مسلم لےگی امےدوار چوہدری محمد حنےف اےم اےل اے منتخب ہوئے۔ والد نے اسی انتخاب مےں مسلم لےگ کے ٹکٹ پر لودھراں کی معروف شخصےت سےد سردار شاہ (سےد ناصر علی رضوی کے سسر)جو جناح عوامی لےگ کے امےدوار تھے، کو شکست دی۔ اس انتخاب مےں چچا رحمت حسےن نے جلال پور پےراوالا (شجاع آباد)کے دےوان غلام عباس بخاری کا مقابلہ کےا مگر وسائل کی کمی کے سبب انتخابی مہم کو پرزور انداز مےں نہ چلا سکے اور انتخاب ہارگئے لےکن اُنکے مد مقابل کےلئے ےہ سرائےکی فقرہ زبان زدِ عام ہوگےا ”جگ داوالی تے ووٹ چاہلی “۔ کےونکہ دےوان صاحب کو اپنے ہی گھرجلالپور پےروالا شہر سے صرف چالےس ووٹوں کی برتری مل سکی تھی۔
دادا مخدوم غلام مصطفےٰ شاہ انتہائی اعتماد کی وجہ سے مےرے والد کو اپنا جانشےن مقرر کرنا چاہتے تھے مگر والد نے خاندانی رواےت کہ سجادہ نشےں سےاست مےں حصہ نہےں لے گا، کو مد نظر رکھتے ہوئے معذرت کرلی کےونکہ وہ پہلے ہی مےدان سےاست مےں اپنا کردار ادا کررہے تھے۔ تاےا ولائےت حسےن بھی سےاست مےں سرگرم تھے، لہٰذا خاندان نے تاےا مخدوم شوکت حسےن کے حق مےں فےصلہ کردےا۔ تاےا ولائےت حسےن مضبوط اعصاب کے مالک ، کھرے ، نڈر اور دوستوں کے دوست تھے۔ انہوں نے بھی خلوص نےت سے اس فےصلے کا احترام کےا اورا پنے چھوٹے بھائی مخدوم شوکت حسےن کے پاﺅں چھو کر بڑائی کا ثبوت دےا۔ (جاری )