معزز قارئین خوشی کی بات ہے کہ اگست ایک دفعہ پھر دیکھنا نصیب ہوا ہے۔ خدا کرے کہ ایسے اگست وطن عزیز کی زندگی میں تاقیامت آتے رہیں لیکن حالات جس طرف جا رہے ہیں وہ محب وطن پاکستانیوں کیلئے بہت تکلیف دہ ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ اس اگست میں جشن آزادی منائیں یا جشن بربادی؟ میرے ایک ریٹائرڈ صوبیدار نے لکھا ہے کہ ”1947میں میں بچہ تھا۔ ریاست کپور تھلہ سے کماد کے کھیتوں میں چھپ کر بھاگا تھا۔ میراآدھے سے زیادہ خاندان شہید ہو گیا۔ خون کا دریا عبور کرکے بھوکے پیاسے لاغر حالت میں یہاں پہنچے۔ کوئٹہ میں آباد ہوئے۔ وہاں اب دہشتگردوں نے ہمارے گھروں پر قبضہ کر لیاہے۔ بڑی مشکل سے جانیں بچا کر وہاں سے بھاگ کرپنجاب میں پناہ لی۔ معلوم نہیں اب اگلی ہجرت کہاں کرنی پڑے۔ کیا پاکستان اسی لیے بنا تھا؟ صوبیدار صاحب کے اس دکھ بھرے خط پر تو میں کچھ نہیں کر سکتا لیکن پاکستان جن لوگوں کے لیے بنا تفصیل حسب ذیل ہے۔ میرے دوست کرنل ” ملک صاحب“ فوج میں بڑے محنتی۔ ایماندار اور قابل آفیسر شمار ہوتے تھے۔ ان کا تعلق فوج کے ایک ایسے محکمے سے تھا کہ جہاں اگر کوئی چاہے تو کھانے پینے کے مواقع مل ہی جاتے ہیں لیکن اُن کی ایمانداری کے متعلق سب یار دوست مذاق کرتے کہ ”نہ خود کھاتا ہے اور نہ دوسروں کو کھانے دیتا ہے“۔ بقول دوستوں کے یہ غیر ضروری ایمانداری بعض اوقات اُن کیلئے تکلیف دہ بھی بن جاتی لیکن کرنل صاحب کا ایمان اتنا پختہ تھا کہ اُنہیں کسی نقصان کی پرواہ بھی نہ ہوتی۔ اُن کی ایمانداری کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ وہ ایک آرمی سلیکشن سنٹر میں سلیکشن آفیسر تعینات ہوگئے۔ آرمی میں کمیشن کیلئے ابتدائی سلیکشن بھی اُنکے فرائض میں شامل تھی۔ یہ وہ سلیکشن ہے جس کیلئے ہر لڑکے کی بڑی بڑی سفارشیں آتی ہیں۔ لہٰذا کرنل صاحب نے اپنے دفتر کے باہر ایک بڑا سا بورڈ لگوایا جس پر لکھوا دیا ”سفارش کرانے والا اور سفارش ماننے والا دونوں قومی مجرم ہیں“ جب بھی کسی لڑکے کی بہت طاقتور سفارش آتی تو وہ اُسے باہر لے جا کر بورڈ پڑھواتے۔ پھر وہ وہی کچھ کرتے جو اُن کے خیال میں ٹھیک ہوتا۔ کرنل صاحب کا ایساسخت رویہ کچھ لوگوں کے لئے ناقابل برداشت ثابت ہوا اور پھر ان کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو ایسے معاملات میں ہوتا ہے۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں ایک بہت بڑی شوگر مل میں ایڈمنسٹریشن کا جاب ملا۔ معقول تنخواہ کے ساتھ ٹرانسپورٹ وغیرہ کی سہولت بھی دی گئی۔ لہٰذا ہم سب نے اُنہیں مبارکباد دی اور اُنہوں نے خوش خوش اپنی نئی ملازمت جوائن کر لی۔ یونیفارم اُتار کر سول میں کام کرنے کا پہلا تجربہ تھا۔ اپنی طرف سے بہت ایمانداری اور جذبے سے کام شروع کیا لیکن کچھ ہی دنوں بعد مایوس ہونے لگ گئے۔ ملک صاحب نے دیکھا کہ گنا تولنے والا کنڈا کم تولتا تھا۔ پھر کسانوں سے گنے کے چھلکے کے نام پر اچھی بھلی کاٹ بھی کر لی جاتی۔ زمینداروں کو رقم کی ادائیگی کیلئے اس حد تک چکرد ئیے جاتے کہ بالآخر تنگ آکر وہ ایک معقول رقم ذمہ دار افراد کو بطور رشوت دینے پر مجبور ہوجاتے۔ کرنل صاحب کا خود بھی تعلق ایک چھوٹے سے کاشتکار گھرانے سے تھا۔ وہ کسانوں کا یوں استحصال دیکھ کر بہت پریشان ہوگئے۔ اِس سلسلے میں اپنے ڈائریکٹر سے بات کرنے کی کوشش کی تو ڈائریکٹرصاحب نے بات دائیں بائیں کر دی۔ محترم کرنل صاحب پاکستان ملٹری اکیڈمی میں میرے شاگرد رہ چکے تھے۔ دل سے احترام کرتے۔ اکثر پریشانی میں میرے پاس آجاتے۔ تھوڑی دیر اپنا دکھڑا سناتے۔ چائے کا کپ پیتے اور یوں دل کا بوجھ اُتار کر ہلکا پھلکا محسوس کرتے۔ جب ڈائریکٹر صاحب نے اُنکی بات نہ سنی تو اپنی پریشانی کم کرنے کیلئے شام کو میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے ملک صاحب کی تمام بپتا سن کر پرانا مذاق دہرایا: ”یار تمہارا المیہ یہ ہے کہ نہ تم خود کھاتے ہو نہ لوگوں کو کھانے دیتے ہو۔ وہ مِل کے مالک ہیں جو مرضی آئے کریں“۔ کرنل صاحب یہ سن کر مزید پریشان ہوکر کہنے لگے۔ ”نہیں سر یہ زیادتی ہے۔ یہ غریبوں کے ساتھ بھی ظلم ہے اور ملک کے ساتھ بھی بد دیانتی“۔ جب سالانہ انکم ٹیکس کا موقعہ آیا تو اُنہیں مِل سے متعلقہ ٹیکس عملے کو خوش کرنے کی ہدایت کی گئی۔ محکمہ ٹیکس کے کچھ اہم لوگوں کو علاقے میں سیر سپاٹے کی دعوت دی گئی۔ اِن لوگوں کیلئے پکنک۔ کھانے کا بندوبست۔ گاڑیاں اور ریسٹ ہاﺅس کا بندوبست۔ اُن کی عیدی وغیرہ بھی اُنکے فرائض میں شامل کر دی گئیں۔ مل کا پرانا سٹاف اور خصوصاً اکاﺅنٹ سے تعلق رکھنے والے لوگ سارے گُر جانتے تھے۔ انہوں نے سب متعلقہ حضرات کو خوش کر دیا۔ علاقے کی پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو بھی ہر حال میں راضی رکھنا ضروری تھا بلکہ وہ بھی اُنکے فرائض میں شامل تھا۔ ان لوگوں کے افسران بالا کے دورے کیلئے ٹرانسپورٹ۔ کھانے پینے کے اخراجات اور رہائش وغیرہ کا بندوبست بھی کرنل صاحب ہی کے ذمہ لگا دیا گیا۔ وہ خود تو اس سلسلے میں کچھ نہ کر سکتے تھے نہ انہوں نے کچھ کیا بس حالات دیکھ کر کڑھتے رہتے لیکن ایک اچھی بات جو انہوں نے کی وہ اپنے تجربہ کار سٹاف کا ہاتھ نہ روکا اور یوں سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی بچ گئی۔جب کرنل صاحب پر اسی قسم کے دیگر انتظامات کا دباﺅ بڑھا تو دل کا غبار نکالنے کیلئے شام کو میرے ہاں تشریف لائے۔ سارے حالات بتانے کے بعد مجھ سے مشورہ مانگا۔ سب کچھ سن کر میں نے پوچھا کہ اس ساری خدمت کے بدلے مل مالکان کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ ”فائدہ؟ لاکھوں اور کروڑوں روپے ٹیکس کی مد میں بچاتے ہیں جن کا کہیں ذکر ہی نہیں۔ ایک مل سے کئی ملیں بن جاتی ہیں لیکن گنے کے غریب کاشتکاروں کو اُن کا جائز حق ادا کرنے کو بھی تیار نہیں۔ مزدوروں کے ساتھ بھی ہیرا پھیری کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر ایک طرف حکومت کو دھوکہ دیتے ہیں اور دوسری طرف غریب کسانوں کا خون چوستے ہیں۔ یہ انتہا کی کرپشن اور بے ایمانی ہے©©“۔ کرنل صاحب نے جواب دیا۔ وہ تفصیل بتا ہی رہے تھے کہ اُنکے ناک سے نکسیر شروع ہوگئی اور سامنے سے قمیض خون سے بھیگ گئی۔ جب کسی طریقے سے خون نہ رکا تو انہیں سی۔ایم۔ایچ میں داخل ہونا پڑا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ سخت ذہنی دباﺅ میں ہیں۔ چند دنوں بعد سی۔ایم۔ایچ سے فارغ ہو کر ڈیوٹی پر گئے تو انہیں بتایاگیا کہ کاشتکار گنا دیکر رقم کی ادائیگی کیلئے بار بار چکر لگا رہے ہیں۔ مالک کا حکم تھا کہ انہیں تھوڑی تھوڑی ادائیگی کرکے فی الحال ٹرخادیا جائے۔ کرنل صاحب یہ نہ کرسکے۔ اپنے دفتر میں اپنے لیٹر ہیڈ پر ایک لائن کا استعفےٰ لکھ کر چپڑاسی کے حوالے کیا۔ سامنے قائداعظم کی تصویر کو سلیوٹ مار کر رندھی ہوئی آواز میں کہا۔ ”اوبابا یہ کن لوگوں کیلئے پاکستان بنایا تھا؟“ کہہ کر دفتر سے باہر نکل آئے۔ یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ گو کرنل صاحب نے اپنی زندگی سفید پوشی میں گزاری لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اس ایمانداری کے بدلے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے جواُنکی ضرورت۔ سوچ اور خواہش سے بھی بہت زیادہ ہیں۔ میں نے ایک دفعہ ان سے ریٹائرڈ لائف اور مالی حالات کے متعلق پوچھا تو خوشی سے بتایا: ”سراب اگر بچے ضد کریں تو میں کھڑے کھڑے ریڑھی سے دو کلو انگور بھی خرید لیتا ہوں۔سروس میں ایک پاﺅسے زیادہ نہیں لے سکتا تھا“معزز قارئین یہ صرف ایک مل کا حال ہے۔ معذرت کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہی حال باقی اداروں اور طاقتور لوگوں کا ہے۔ یہاں جتنا کوئی زیادہ طاقتور ہوتا ہے اُتنے ہی اُسکے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں۔ اُس کا ایک ہاتھ غریب اور بے بس عوام کی گردن پر ہوتا ہے اور دوسرا حکومت کی جیب میں۔یہاں بازار سے آٹا۔ گھی اور چینی کیوں غائب ہوجاتے ہیں۔ غریب کی ویلفیئر کے نام پر غریب کا خون کیوں نچوڑ لیا جاتا ہے؟ غریب انصاف کے حصول کیلئے ساری عمر ٹھوکریں کھا کھا کر قبر میں کیوں اتر جاتے ہیں۔ غریبوں کی عزتیں گھروں سے کیوں اُٹھالی جاتی ہیں اور کہیں شنوائی تک نہیں ہوتی۔ کون لوگ ہیں جو یہ سب کچھ کر رہے ہیں اور اُن کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ یہی لوگ ہیں جو ہر طرح سے عوام کو لوٹتے ہیں اور قانون کے رکھوالے اُنکی مدد کیلئے اُنکے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔ مزید ظلم یہ کہ قانون ساز اور قانون پر عمل کرانیوالے بھی یہ خود ہوتے ہیں۔ حکومت بھی انکی ۔ملک بھی انکا۔ جائیدادیں بھی انکی۔ پاکستان کی غریب عوام تو محض انکی خدمت کیلئے ہے۔ یہ قومی المیہ نہیں تو کیا ہے؟ اب تو احساس ہوتا ہے کہ یہ ملک واقعی بنا ہی انہی لوگوں کیلئے تھا!ویسے کسی نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ یہ ملک تو بنا ہی لوٹ مار کیلئے ہے۔
او ”بابا“ یہ کن لوگوں کیلئے پاکستان بنایا تھا؟
Aug 07, 2013