اسلام آباد /چلاس (نمائندہ خصوصی +نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) چلاس میں رونئی کے مقام پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے ایس ایس پی دیامر ہلال احمد اور ان کی گاڑی میں موجود لیفٹیننٹ کرنل غلام مصطفی اور کیپٹن اشفاق عزیز سانحہ نانگا پربت کی تفتیش کر رہے تھے۔ اے پی اے کے مطابق واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا۔ ایس ایس پی دیامر چلاس میں رونئی کے مقام پر پہنچے تو پہاڑوں میں چھپے حملہ آوروں نے اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کر دی جس سے ایس ایس پی دیامر ہلال احمد اور ان کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھے ہوئے کرنل غلام مصطفیٰ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے جبکہ کیپٹن اشفاق عزیز اور ایک اہلکار زخمی ہو گئے۔ انھیں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں انہوں نے دم توڑ دیا۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مہدی شاہ نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا حکم دیا ہے۔ کرنل غلام مصطفی سانحہ نانگا پربت کے انکوائری افسر تھے جو 9 غیر ملکی سیاحوں اور دو پاکستانیوں کے قتل کی تحقیقات کر رہے تھے۔ کیپٹن اشفاق عزیز شاہراہ قراقرم پر آرمی کانوائے کے سکیورٹی انچارج تھے ۔ ذرائع کے مطابق ایس ایس پی گلگت بلتستان ایس پی این اے آفس میں تعینات تھے اور سانحہ نانگا پربت پر اضافی ذمہ داری دے کر چلاس بھیجا گیا تھا۔ ان کے گھر پر لا اینڈ آرڈر کے سلسلے میں ایک میٹنگ ہونا تھی اور یہ افسران اسی میٹنگ میں شرکت کے لئے نکلے تھے کہ پہاڑوں میں چھپے ہوئے حملہ آوروں نے فائر کھول دیا جس سے وہ جاں بحق ہوگئے۔ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ذمہ داری قبول کی ہے۔ ترجمان کے مطابق یہ حملہ اس علاقے میں ان کے ذیلی گروپ جنودِ حفصہ نے کیا ہے جس کا مقصد ڈرون حملوں کی جانب عالمی توجہ مبذول کرانا ہے۔ ثناءنیوز کے مطابق نامعلوم مقام سے میڈیا کو ملنے والی فیکس کے مطابق ایس ایس پی اور دیگر فوجی افسران کی ہلاکت کی ذمہ داری جنود الحفصہ پاکستان قبول کرتی ہے۔ مذکورہ افسر نے داریل میں ہمارے کارکنوں کے گھروںپرحملہ کیا اور ان کے گھر مسمار کئے اور مسلمانوں کےخلاف مستقل آپریشن کر رہا تھا لٰہذا اس کے ردعمل میں یہ حملہ کیا گیا آئندہ بھی ہم ایسے افسران کو متنبہ کرتے ہیں وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہیں ورنہ رد عمل کیلئے تیار رہیں۔ بی بی سی کے مطابق چلاس کے ڈی سی او اجمل بھٹی نے بتایا افسران پر حملے کی تحقیقات ایک اعلیٰ تفتیشی ٹیم کر رہی ہے اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس دیامیر خود اس کی نگرانی کر رہے ہیں۔ایس ایس پی ہلال خان کا تعلق سوات کے علاقے بری کوٹ سے ہے لیکن انھوں نے ملازمت کا زیادہ وقت پنجاب میں گزارا۔ لیفٹیننٹ کرنل مصطفیٰ جمال کا تعلق مظفر گڑھ کے علاقے خان گڑھ سے بتایا گیا ہے اور انھیں اقبالیات پر کافی عبور حاصل تھا۔ کیپٹن اشفاق کا تعلق ٹانک سے تھا۔ چلاس کے ڈی سی او اجمل بھٹی کے مطابق علاقے کی ناکہ بندی کر کے تحقیقات ہو رہی ہیں اور وہ مزید کچھ نہیں کہہ سکتے کہ حملہ آور کون تھے۔ انہوں نے بتایا پولیس اور فوجی افسران کے کچھ محافظ بھی زخمی ہوئے لیکن ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ آئی این پی کے مطابق حملہ آوروں کی تلاش اور گرفتاری کےلئے فوج اور پولیس کے خصوصی دستوں نے بڑا آپریشن شروع کر دیا، پاک فوج کی نگرانی میں ہو نے والے آپریشن میں پولیس، ایلیٹ فورس، ایف سی اور سکاﺅٹس کے دستے شامل ہیں، آپریشن میں ایک ہزار سے زائد فوجی جوان وافسر اور پولیس و دیگر فورسز کے اہلکار شریک ہیں، قانون نافذ کر نے والے اداروں نے دیامیر کو مکمل طور پر سیل کر دیااور پورے گلگت بلتستان میں سیکورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی۔پولیس نے نا معلوم افراد کےخلاف مقدمہ درج کر کے شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دیئے ہیں جبکہ ایس پی سپیشل جہانگیر خان کی قیادت میں خفیہ ایجنسیاں بھی اپنی کارروائی میں مصروف ہیں۔ اس موقع پر ڈی سی کمشنر محمد اجمل بھٹی دیامر اور سیکرٹری داخلہ گلگت بلتستان عطاءالرحمن نے بتایا سانحہ سے متعلق قیاس آرائیاں قبل از وقت ہے۔ پورے ملک میں سیکورٹی فورسز کے خلاف ممکنہ دہشت گرد کارروائیوں کی اطلاعات تھیں۔ اسلام آباد سے نمائندہ خصوصی کے مطابق وزیراعظم محمد نوازشریف نے چلاس میں فوجی اور پولیس افسروں کے قتل عام کے سانحہ کی شدید مذمت کی ہے۔ وزیراعظم نے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو ہدایت کی ہے ان سانحات میں ملوث دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کے لئے وفاقی اور صوبائی قانون نافذ کرنے والے اداورں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے ہر ممکن مدد فراہم کی جائے۔ وزیراعظم نے یہ ہدایت بھی کی انہیں سانحہ کے بارے میں جامع رپورٹ دی جائے۔