صحافت کا ایک عہد اور ایک عہد کی صحافت

عہد ساز صحافی مجید نظامی کے سانحہ ارتحال کے ساتھ صحافت کا ایک عہد تمام ہو گیا اور ساتھ ہی ساتھ ایک عہد کی صحافت بھی اختتام پذیر ہو گئی۔ مرحوم کی کچھ خصوصیات انکی ذات کے ساتھ جزوِ لاینفک کا درجہ اختیار کر چکی تھیں۔ جرأت اظہار، حریت فکر، دوٹوک نقطہ نظر اور بے لاگ رائے صرف اُن ہی کا خاصہ تھی۔ وہ مولانا ظفر علی خان اور آغا شورش کاشمیری جیسے بڑے صحافیوں کا حسین امتزاج تھے۔ نظامی مرحوم واقعتاً جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے والے مردِ درویش تھے۔ ایوب خان، یحیٰی خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف تک سب فوجی آمروں کو ان کی بے باکی اور دلیرانہ ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ انکی طرف سے کسی کی مخالفت یا موافقت صرف اور صرف پاکستان کی قیمت پر ہوتی تھی۔ نظریہ پاکستان اور استحکام پاکستان کا عشق اولین و آخریں تھا اور اس مقصد عظیم کیلئے ان کا قلم اور قدم ہمیشہ رواں رہا اور اس حوالے سے انکی صحافتی زندگی جہدِ مسلسل سے بھری پڑی ہے۔  ہرچند کہ اس دور کے عالمی سیاسی اور سماجی عوامی اس امر کے متقاضی ہیں کہ مجادلے کی بجائے مکالمے کو فروغ دیا جائے اور یقنیاً اس پر مقدور بھر عمل بھی کیا جاتا ہے تاہم کئی مرتبہ افراد سے لیکر اقوام تک کے درمیان بعض امور اسی درجہ گھنجلک اور پیچیدہ تر صورت اختیار کر جاتے ہیں کہ وہاں ’’مکالمہ آرائی‘‘ محض وقت کا ضیاع دکھائی دیتی ہے۔ اور وہاں شاید صرف جدلیاتی عمل ہی بروئے کار آ سکتا ہے۔ کشمیر اور ہمارے دریائوں پر طاقتور پڑوسی ملک کے غاصبانہ قبضے کے پش منظر میں اس رویے کی بہتر تفہیم کی جا سکتی ہے۔ مجید نظامی مرحوم اور انکے مؤقر اخبار کو ایک طویل عرصہ تک اپوزیشن کا ترجمان سمجھا جاتا رہا ہے۔ جس وقت تک عوام کی طرف سرکاری میڈیا تک رسائی تھی، لوگ صرف نوائے وقت اور بی بی سی پر انحصار کیا کرتے تھے۔ پی این اے کی تحریک کے دنوں میں نوائے وقت کی ساکھ اپنے پورے عروج پر تھی۔ بعد ازاں ضیاالحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک کو بھی اس اخبار سے اچھی خاصی تقویت حاصل ہوئی۔ مجید نظامی مرحوم نے جہاں اپنے اخبار کے ذریعے حریت فکر، جرأت اظہار، دوٹوک نقطہ نظر، حق گوئی اور بے باکی کا رجحان قائم کیا، وہاں صحافتی اور قلمی اخلاقیات کو بھی فروغ دیا۔ انہوں نے اس حوالے سے ازخود ایک حصار کھینچ دیا اور اس معیار سے اخبار کو کبھی بھی دراز تر نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بالآخر دوسرے اخبارات و جرائد کو بھی اس کے اتباع میں آنا پڑا۔ مرحوم ایک رجحان ساز صحافی اور مدیر تھے اور اس حوالے سے انہوں نے صحافت اور اہل صحافت کو کئی مثبت رجحانات سے روشناس کروایا۔ بلاشبہ وہ جدید اردو صحافت کی دنیا میں ایک انتہائی پُراثر اور مؤقر حیثیت کے حامل تھے اور جدید اردو صحافت یقیناً انکے اثرات سے تادیر استفادہ کرتی رہے گی۔ ٹیل پیس --- ایک ای میل کے ذریعے اس امر کی جانب توجہ مبذول کروائی گئی ہے کہ سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے پراسپکٹس اور ایڈمیشن کے نام پر لوٹ مار میں معروف ہیں اور پراسپکٹس کی قیمت سینکڑوں سے لیکر ہزاروں روپے تک میں ہے۔ اس ضمن میں بات بڑی سادہ سی ہے کہ جہاں حکمران محض ’’تاجر‘‘ بن کے رہ جائیں وہاں دوسروں کو ’’تجارت‘‘ کرنے سے کون روک سکتا ہے حتیٰ کہ معلمین بھی اسی رنگ میں رنگے جا چکے ہیں حالانکہ یہ پیغمبرانہ وصف ہے۔ کیا متعلقہ حکام اس بات کا نوٹس لیں گے؟ شاید نہیں اس لئے کہ جب تک وہ خود کو ’’ٹھیک‘‘ نہیں کرتے۔ دوسروں کو کیسے ’’ٹھیک ٹھاک‘‘ کر سکتے ہیں  …ع
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

ای پیپر دی نیشن