اسرائیلی حکمرانوں کا نازی طرز ِ عمل

غزہ میں محصور عورتوں ، بچوں اور پُرامن عوام کیخلاف اسرائیل کے جنگی جرائم پر امریکہ کا انعام و اکرام پورے عالمِ اسلام کیلئے ایک لمحۂ فکریہ ہے- گذشتہ ایک ماہ کے دوران اسرائیلی بربریت کی خاموش تائید و حمایت کے بعدفقط چند روز پیشتر صدر اوبامہ نے وائٹ ہائوس میں منعقدہ اپنی پریس کانفرنس کے دوران اسرائیل کی سرکاری دہشت گردی کی ببانگِ دہل حمایت کر دی- اسی حکمتِ عملی کی رُو سے امریکی کانگرس نے اسرائیل کے میزائل شکن نظام کیلئے کروڑوں ڈالر کی فی الفور امداد کا اعلان کر دیا- صدر اوبامہ کہتے ہیں کہ اسرائیل اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے-امریکی صدر کے اِس اعلان کے بین السطور یہ حقیقت عیاں ہے کہ فلسطینی مسلمان اپنے دفاع کا حق نہیں رکھتے-اِس ضمن میں المناک ترین حقیقت یہ ہے کہ غزہ سے دُور و نزدیک کے مسلمان ممالک بھی امریکی افلاک سے نازل ہونیوالے اِس جھوٹ کو سچ سمجھتے ہیں-اسرائیلی حکومت نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں اِس بنیادی تبدیلی سے بیش از بیش فائدہ اُٹھانے کا عزم کر رکھا ہے- 2006ء سے 2010ء تک اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ اور تل ابیب یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل سیکیورٹی کے ڈائریکٹر Amos Yadlin نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں اس صورتِ حال کا تجزیہ کیا ہے-
مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں اِس نئی تبدیلی کو اسرائیل کیلئے انتہائی خوش آئند قرار دیتے ہوئے یہ تجزیہ نگار لکھتے ہیں کہ مشرقِ وسطی کی سیاست میں اِس نئی تبدیلی نے اسرائیل کے مستقبل کو انتہائی روشن کر دیا ہے- انھوں نے اِس حقیقت کا اثبات کیا ہے کہ ’’تاریخ میں پہلی بار مصر ، سعودی عرب اور اسرائیل ایک مشترکہ حکمتِ عملی اپنا کر اسلامی انتہاپسندی کو نیست و نابود کرنے کی کوششوں پر کاربند ہیں- عرب ممالک کی تائیدِ مسلسل سے ہم اس اسلامی سیاست کو بزورِ شمشیر کیفرِکردار تک پہنچانے کے بعداعتدال پسند عرب ریاستوں کے تعاون سے ایک ایسا مارشل پلان مرتب کر سکتے ہیں جو غزہ کی تعمیرِ نو کا ضامن ثابت ہو سکے-‘‘(انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز، 28 جولائی 2014ئ)  یہاںمناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں زیرِ نظر مضمون کا عنوان بھی بتا دوں:
"Destroy Hamas to save Gaza"
یہ امر معنی خیز ہے کہ اِس عنوان میں حماس کی تباہی کی خاطر عرب اسرائیل متحدہ محاذ کو صدائے برخیز دی گئی ہے- مسلمان حکمرانوں کے کان اِس صدا پر لگے ہیں-غزہ میں تین ساڑھے تین ہفتوں کی تباہ کاری کے بعدبالآخر سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ نے گہرے غور و فکر کے بعد اِس موضوع پر ایک پہلے سے تیار کردہ بیان پڑھ کر سنایا ہے- ہرچنداس بیان میں تباہی و بربادی پر اظہارِ افسوس کیا گیا ہے تاہم اسرائیل کے جنگی جرائم کی مذمت سے اجتناب کیا گیاہے -اسرائیل کی ہلاکت خیزی میں مصر کے موجودہ صدر برابر کے شریک ہیں-صدر اسیسی اخوان المسلمون کے ساتھ ساتھ حماس کو بھی اپنا دشمن گردانتے ہیں- اُنھیں خوب یاد ہے کہ حماس اخوان المسلمون ہی سے پھوٹی تھی-
یہ حقیقت بڑی دلخراش ہے کہ آج کی دُنیائے اسلام کے آمریت دوست اور شاہ پسنداپنے تخت و تاج کیلئے اسلام پسندوں کو اسرائیل سے بڑا خطرہ تصور کرنے لگے ہیں-جب اسرائیل کے جنگی جرائم پر وزیراعظم نواز شریف نے حرمین شریفین سے پاکستان بھر میں سوگ کا اعلان کیا تو مجھے شاہ فیصل شہید اور ذوالفقار علی بھٹو شہید یاد آئے- بھٹو شہید نے لاہور کی اسلامی سربراہی کانفرنس میں مسئلہ ٔ فلسطین کو ایک مرکزی موضوع قرار دیا تھا-اِس کانفرنس کے دوران تحریکِ آزادیٔ فلسطین کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی خاطر تیل کا ہتھیار استعمال کرنے سمیت متعدد سیاسی اورمعاشی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا- اِس فیصلے پر فی الفور عملدرآمد شروع ہو گیا تھا- اِسی اسلامی سربراہی کانفرنس میں تجویز کردہ اقدامات کی رُو سے شاہ فیصل شہید نے امریکہ پر زور دیا تھا کہ وہ اسرائیل کو عقل اور انصاف سے کام لینے پر مجبور کرے-چنانچہ اُس وقت کے سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجرنے اسرائیل کا دورہ کرنے کے بعد شاہ فیصل شہید کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی اِس پریشانی کا ذکر کیا تھاکہ اسرائیل اپنی ضِد پر قائم ہے اور کوئی دلیل اور اپیل سننے کو تیار نہیں- اِس پر شاہ فیصل شہید نے کہا تھا کہ کوئی بات نہیں ، آپ پریشان نہ ہوں ، ہم تو بدّو ہیں ، اُونٹ سمیت خیمے میں داخل ہو جائینگے- یہ اِس عزم بالجزم کا شاخسانہ ہے کہ Economist میں یہ خبرشائع ہونے کے چند روز بعد شاہ فیصل کو اپنے محل ہی میں شہید کر دیا گیا تھا-
ذوالفقار علی بھٹو شہید سوگ کی بجائے احتجاج اور مزاحمت کے قائل تھے- اِس کا ایک ثبوت’ جنگ لندن‘ میں اسرائیل کے نائب وزیرِخارجہ کا وہ انٹرویو ہے جو جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں بھارت کی طرف سے پاکستان پر حملے کی دھمکیوں کے دوران کیا گیا تھا- اِس سوال کے جواب میں کہ ’ اسرائیل پاکستان کیخلاف کیوں ہے؟ ‘اسرائیل کے نائب وزیرِ خارجہ نے بیساختہ کہا تھا کہ اسرائیل پاکستان کیخلاف نہیں ہے ، پاکستان اسرائیل کیخلاف ہے- اِس کے ثبوت میں اُس نے بتایا تھا کہ گذشتہ جنگ کے دوران عربوں کے جن دو جنگی طیاروں نے اسرائیل کے دو جنگی طیارے گرائے تھے اُنکے پائلٹ پاکستانی تھے اور جب اسرائیلی فوج بولان کی بلندیوں پر پہنچی تھی تو وزیراعظم بھٹو نے دھمکی دی تھی کہ خبردار اگر اِس سے آگے بڑھے تو میں افواجِ پاکستان کو جنگ میں جھونک دوں گا-اِس پر ہم وہیں کے وہیں رُک گئے تھے اور یوںجنگ بند کر دی گئی تھی- …جنگ تو بلاشبہ بند ہو گئی تھی مگر بالآخر ذوالفقار علی بھٹو کو اُسی شخص نے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا تھا جس نے اُردن میں فلسطینیوں کے قتلِ عام کا اہتمام کیا تھا-
ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ آج دُنیائے اسلام کے سیاسی اُفق پر نہ کوئی شاہ فیصل شہید ہے اور نہ کوئی ذوالفقار علی بھٹو شہید۔آج کی المناک ترین حقیقت یہ ہے کہ آج کے مسلمان حکمران علامہ اقبا ل کے اِس شعرکا مفہوم سمجھنے سے عاری ہیں: ’شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن / نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی ‘- انھیں تو بس مالِ غنیمت ہی سے غرض ہے - نتیجہ یہ کہ قوم کو مزاحمت کا راستہ ترک کر کے فقط سوگ منانے کی تلقین فرماتے ہیں- اِسکے ردِعمل میں اسرائیل کے ریاستی دہشت گرد غزہ کے مزید پُرامن شہریوں کو موت کی نیند سُلا دیتے ہیں، مزید سکولوں ، شفا خانوں اور مسجدوں کو زمیں بوس کر دیتے ہیں تاکہ مسلمان حکمران یومِ سوگ منانے کے نِت نئے اعلانات داغ سکیں-(جاری)

فتح محمد ملک ....دنیائے اسلام

ای پیپر دی نیشن