اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نیٹ نیوز) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف سے استعفے کا مطالبہ کرنا غیرآئینی اقدام ہے اس لئے وزیراعظم ایسا نہیں کریں گے۔ وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنا غیرآئینی اقدام ہے اس لئے بھول جائیں کہ ایسا ہوگا۔ وزیراعظم نوازشریف کے استعفیٰ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نوازشریف مائنس فارمولا قبول نہیں ایک جانب پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہے دوسری جانب دھرنوں اور مارچوں کا ڈرامہ کیا جا رہا ہے، دھرنوں اور مارچوں سے سب سے زیادہ نقصان ملک اور معیشت کو ہو گا۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار پریس کانفرنس میں 30جون کو ختم ہونے والے مالی سال کے حتمی اعدادوشمار کے اعلان کے وقت کیا۔ انہوں نے کہاکہ ساری سیاسی جماعتیں اس بات پر متحد ہیں کہ آئین اور جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کوئی بات کرنا چاہے تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے۔ اس کے لئے پارلیمنٹ بہترین فورم ہے، پُرامن مارچ پر کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر ڈنڈوں پر میخیں لگانے کی بات کی جائے تو یہ درست نہیں بلکہ یہ توہین آمیز ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ میاں نوازشریف نے گیارہ بج کر 23 منٹ پر اعلان کیوں کیا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ نیوز ٹیلی ویژن چینلز نے 11 بجے مسلم لیگ ن کی کامیابی کی خبریں دی تھیں۔ تحریک انصاف کے ایک سینئر لیڈر نے ہم سے بھی پہلے خیبر پی کے میں حکومت بنانے کا اعلان کر دیا تھا۔ جمہوریت کو چلنا چاہئے۔ 4 حلقوں کی بات کی جاتی ہے تو پارلیمنٹ میں آئیں۔ پاکستان کو آگے لے کر چلنا ہے۔ پہلے ہی حکومت جانے کی افواہوں سے کراچی سٹاک ایکسچینج 600 پوائنٹس گر گئی، سوئٹزرلینڈ سے کرپشن کے 200 ارب ڈالر کی کوئی گارنٹی نہیں تاہم کوشش کر رہے ہیں، گردشی قرضے 263ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں مگر اب حکومت یہ ادا نہیں کرے گی، آئی ایم ایف نے ڈالر کی قیمت 114روپے کرنے پر دبائو ڈالا تھا، ہم نے انکار کر دیا، عالمی بینک سے داسو ڈیم کے لئے 70کروڑ ڈالر قرضے کے معاہدے پر 18 اگست تک دستخط ہوں گے، پارلیمنٹیرینز اور جنرل ٹیکس ڈائریکٹریز ہر سال شائع کریں گے، گزشتہ مالی سال کے دوران جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 4.14فیصد، ٹیکس وصولیاں 2266 ارب روپے، بجٹ خسارہ 5.7فیصد، تجارتی خسارہ 19.98ارب روپے، مہنگائی 8.6فیصد، فی کس آمدنی1386ڈالر، ترسیلات زر 15.83ارب ڈالر رہیں زر مبادلہ کے ذخائر 14.3ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، سعودی عرب سے مزید اڑھائی ارب ڈالر نہیں آ رہے، آلو کا بحران گیارہ لوگوں نے پیدا کیا تھا۔ 2013-14ء کے دوران حکومت نے تقریباً تمام معاشی اہداف حاصل کر لئے ہیں، حکومتی کارکردگی کے نتیجے میں طویل عرصہ کے بعد جیٹرو، نیلسن، موڈیز و دیگر عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کو مثبت ریٹنگ دی ہے۔ اگر سیاسی استحکام کو خطرہ لاحق ہوا تو اقتصادی ترقی کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں سے حکومت کی بات چیت جاری ہے۔ تحریک انصاف سے بھی بات کر رہے ہیں، اگر وہ پُرامن طریقے سے لانگ مارچ کرتے ہیں اور دھرنا دیتے ہیں تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں لیکن کسی غیرآئینی و غیرقانونی اقدام کی پاکستان میں ہرگز گنجائش نہیں۔ انہوں نے 2013-14ء کے دوران اقتصادی کارکردگی پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران ٹیکس میں 16.4 فیصد اضافہ ہوا جو 2266 ارب روپے تھا جبکہ اس سے پچھے سال 1946 ارب روپے کی ٹیکس وصولیاں ہوئی تھیں، بجٹ خسارہ 2012-13ء کے 8.2فیصد کے مقابلے میں 2013-14ء میں 5.7 فیصد رہا، آئندہ دو سال میں کم کر کے 4فیصد پر لائیں گے۔ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر 13.7فیصد اضافے کے ساتھ 15 ارب 83کروڑ ڈالر، برآمدات 25ارب 13کروڑ ڈالر جبکہ درآمدات 45ارب 11کروڑ ڈالر ہوئی۔ یوں گزشتہ مالی سال کے دوران تجارتی خسارے کا حجم 19 ارب 98کروڑ ڈالر رہا۔ 2013-14ء میں افراط زر کی شرح 8.6 فیصد رہی، 4587نئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں، فی کس آمدنی 1386 ڈالر جبکہ سٹیٹ بینک سے حکومت نے 303ارب قرضہ لیا، اس کے برعکس 2012-13ء میں حکومت نے سٹیٹ بینک سے 1446ارب روپے قرضہ لیا تھا۔ کراچی سٹاک ایکسچینج ہنڈرڈ انڈیکس میں 48فیصد اضافہ ہوا، زر مبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 14ارب 30کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جو کہ 31دسمبر 2014ء تک 15 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ڈالر کی قدر میں ایک روپیہ کمی کے ساتھ 98.74 روپے پر پہنچا ترقیاتی منصوبوں پر 441 ارب روپے خرچ کئے۔ مجموعی طور پر معیشت بہتر ہوئی ہے۔ سوئٹزرلینڈ سے کرپشن کے 200 ارب ڈالر کی واپسی کے لئے چیئرمین ایف بی آر کی سربراہی میں ٹیم مذاکرات کے لئے رواں ماہ کے آخر میں جائے گی۔گیارہ لوگوں نے سارے کا سارا آلو خرید کر ذخیرہ کر لیا تھا جس کی وجہ سے آلو مہنگا ہوا ان کا پروگرام رمضان میں آلو150 روپے فی کلو گرام پر فروخت کرنے کا تھا، حکومت نے آلو کی درآمد ڈیوٹی فری کر کے ان کے عزائم کو ناکام بنا دیا سپرنٹنڈنٹ کی پوسٹ پر کام کرنے والے گریڈ 16پر کام کرنے والے سرکاری ملازمین کو گریڈ 17 پر ترقی دینے کا نوٹیفکیشن جلد جاری ہو گا۔ اسلامی سکوک بانڈ جاری کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران نہ ہم نے کوئی تحفہ مانگا نہ ہی ان کی طرف سے کوئی اشارہ دیا گیا۔ وزیر خزانہ حکومت آئی ایم ایف مذاکرات میں حصہ لینے کے لئے کل دبئی جائینگے۔
اسلام آباد (اے پی پی) وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کو متفقہ طور پر انتخابی اصلاحات کے لئے قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا۔ کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہائوس کے کانسٹی ٹیوشن روم میں ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان اسحاق ڈار، نوید قمر، رضا ربانی، آفتاب احمد خان شیرپائو، شیخ رشید احمد، ڈاکٹر عارف علوی، ڈاکٹر شیریں مزاری، شفقت محمود، غازی گلاب جمال، غوث بخش مہر، عبدالرحیم مندوخیل، مرتضیٰ جاوید عباسی، انوشہ رحمان ایڈووکیٹ، زاہد حامد، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، عبدالحکیم بلوچ، نعیمہ کشور، محمد اعجازالحق، شازیہ مری، سینیٹر ملک رفیق رجوانہ، سینیٹر طلحہ محمود اور مشاہد حسین سید نے شرکت کی۔ سینیٹر اسحاق ڈار کا بطور چیئرمین نام آفتاب احمد خان شیرپائو نے تجویز کیا، زاہد حامد نے تائید کی۔ بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر قومی مفاد میں سب کو ساتھ لے کر انتخابی اصلاحات کریں گے‘ جس لگن سے آئینی اصلاحات کمیٹی میں کام کیا تھا، اسی جذبہ کے تحت انتخابی اصلاحات کمیٹی میں بھی کام کریں گے۔ کمیٹی کا آئندہ باضابطہ اجلاس پیر کو 11 بجے پارلیمنٹ ہائوس میں طلب کیا گیا ہے جس میں اس کے رولز آف بزنس اور ٹرمز آف ریفرنس کو حتمی شکل دی جائے گی جس کے بعد کمیٹی اپنا کام شروع کرے گی۔ انتخابی کمیٹی اپنی سفارشات اتفاق رائے سے طے کریگی، 3 ماہ کی مقررہ مدت سے قبل کام مکمل کرنے کی کوشش کرینگے۔ فریقین سے مشاورت کی جائیگی۔ پرانے انتخابی قوانین کو بھی یکجا کر کے قانونی شکل دینگے۔