جمعرات کو قومی اسمبلی مےں سپےکر قومی اسمبلی سردار اےاز صادق کی کوششوں سے جمعےت علماءاسلام (ف) اور اےم کےو اےم کی جانب سے پی ٹی آئی کے 28 ارکان کی اےوان سے مسلسل 40 روز غےر حاضری پر ”ڈی سےٹ“ کرنے کا ”چوہے کھےل ختم ہو گےا جب مولانا فضل الرحمن کی پےش کردہ پارلےمنٹ کی بالادستی قرار داد منظور کر لی گئی۔ کچھ لوگ اسے مولانا فضل الرحمن کی ”پسپائی“ تصور کر رہے ہوں گے لےکن مولانا فضل الرحمن نے ”ڈی سےٹ“ کرنے کی تحرےک پر تحرےک انصاف کو ”تگنی کا ناچ“ نچا دےا۔ اےوان مےں تحرےک انصاف کی جس قدر عزت افزائی ہوئی اس کے بعد اس کے ارکان کےلئے اےوان مےں بےٹھنا مشکل ہو گےا بالآخر پی ٹی آئی نے اےوان مےں بےٹھ کر مقابلہ کرنے کی بجائے ”راہ فرار اختےار کر لی۔ پی ٹی آئی کو سپےکر سردار اےاز صادق کا شکر گذار ہونا چاہےے کہ انہوں نے مسلم لےگ (ن) کے ارکان کی ناراضگی مول لے کر الطاف بھائی کو فون کےا اور ”ڈی سےٹ“ کرنے کی تحرےک واپس لےنے پر رضامند کر لےا جب کہ وفاقی وزےر اطلاعات و نشرےات پروےز رشےد نے گذشتہ شب مولانا فضل الرحمنٰ سے ملاقات کی تو مولانا فضل الرحمن نے اپنی تحرےک کو پارلےمنٹ کی بالادستی قرارداد کی منظوری سے مشروط کر دی جب کہ وزےراعظم نواز شرےف نے مولانا فضل الرحمنٰ کو بڑی مشکل سے ”رام“ کےا۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنی تےار کردہ قراداد کو منظور کرا کر اےک بار پھر سےاسی برتری حاصل کر لی۔ پی ٹی آئی جس کی نشستےں بچ گئی وہ ”ناراض بچے“ کی طرح اےوان مےں واپس نہےں آئی اور ”مےں نہ مانوں“ کی سےاست کرنے والی جماعت اس قرارداد کا حصہ بننے سے رہ گئی۔ دراصل وہ جوڈےشل کمےشن کے فےصلے اورآئےنی ترمےم کے بارے مےں سپرےم کورٹ کے فےصلے کی توثےق نہےں کرنا چاہتی تھی بہرحال سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا الطاف بھائی کو ٹیلی فون کام دکھا گیا ایوان کی بالادستی اور جمہوریت کے استحکام کےلئے متفقہ قرارداد لانے پر اتفاق کر لیا گیا۔6 اگست 2015ءپارلےمانی تارےخ مےں غےر معمولی اہمےت کا حامل ہو چےئرمےن سےنےٹ مےاں رضا ربانی اےوان بالا کی اےک نئی تارےخ رقم کر رہے ہےں انہوں نے42 سال قبل قائم ہونے والے ادارے کا ےوم تاسےس منا کر اس کی اہمےت مےں اضافہ کر دےا ہے، سپےکر قومی اسمبلی کو بھی احساس ہو گےا انہےں بھی قومی اسمبلی کا ےوم تاسےس منانا چاہےے۔ مےاں رضا ربانی نے سابق چےئرمےن سےنےٹ اور سےنےٹ کے سےنئر ترےن رکن نرگس کےانی کو مدعو کر کے ےوم تاسےس کی تقرےب کو چار چاند لگا دئےے۔ جمعرات کو سپیکر ایاز صادق کے چیمبر میں پارلیمانی رہنماﺅں کا اجلاس ہوا جس میں تحریک انصاف کو ڈی سیٹ کرنے کے معاملے کے حل پر غور کیا گیا جبکہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور جمہوریت کے استحکام کے لئے بھی قرارداد لانے پر بھی اتفاق کر لیا گیا۔ اجلاس میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ‘ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ ‘ فاروق ستار‘ محمود خان اچکزئی اور دیگر رہنما شریک ہوئے۔ اجلاس میں تحریک انصاف کے خلاف تحاریک واپس لینے کے لئے ایک اور تحریک لانے پر اتفاق کرلیا گیا۔ اجلاس میں نئے مسودے پر بھی غور کیا گیا۔ قومی اسمبلی میں شیخ رشید احمد کو عمران خان کا دفاع کرنے کی کوشش پر مولانا فضل الرحمن، مشاہد اللہ خان اور سعد رفیق کی تنقےد کا سامنا کرنا پڑا۔ شیخ رشید احمد خاموشی سے تنقید برداشت کرتے رہے جب طلال چوہدری نے کہا کہ دھرنوں کا اصل مجرم شیخ رشید ہے تو ان کی برداشت جواب دے گئی اور طعنہ دےا کہ ”تم تو چوہدری پرویز الٰہی کے سامنے ڈانس کرتے تھے، تم کیا طعنے دیتے ہو، شیخ رشید احمد نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کو انکی ایوان میں غیر موجودگی میں تنقید کا نشانہ بنایا حالانکہ غیر حاضر رکن کے خلاف بات نہیں کی جاتی، چاہے کچھ کہہ لیں، عمران خان ملک کے اصل اپوزیشن لیڈر ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے برجستہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ ”اگر گالم گلوچ اور بُرا بھلا کہنا اصل اپوزیشن ہے تو پھر حکومت کے خلاف بندوق اٹھانے والے اصل اپوزیشن قرار پائیں گے۔“ شیخ رشید نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کے لئے لاس اینجلس سے لے کر ڈی چوک تک کردار کے ثبوت کی بات کی، مولانا فضل الرحمن نے برجستہ جواب دیا کہ ”میں نے تو کسی کا نام نہیں لیا تھا، شیخ صاحب واقف ہوں گے، وہ لاس اینجلس سے ڈی چوک تک کے قصے بھی سُنا دیں، جس پر ایوان کشت زعفران بن گیا۔ اجلاس میں باقاعدہ محفل مشاعرہ تو نہےں سجی لےکن جب وفاقی وزےر مشاہداللہ آجائےں تو شعر وسخن کی محفل سج ہی جاتی ہے، انہوں نے عمران خان کو اشعار کی صورت مےں تنقےد کا نشانہ بناےا
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
اس پر قومی اسمبلی کے ارکان ”مقرر مقرر“ کی صدائیں لگا کر داد و تحسےن کے ڈونگرے برساتے رہے۔ مشاہد اﷲ خان نے ایک موقع پر فاروق ستار کو مخاطب کرتے ہوئے درج ذےل شعر پڑھا
میں اپنی پہلی فراغت میں مارا جاﺅں گا
جواب میں فاروق ستار نے کہا کہ اگر آج پی ٹی آئی کے خلاف تحریکوں پر رائے شماری ہوتی تو میں یہ شعر پڑھتا
تنہا تیرے اعجاز سے شمشیر بکف ہوں
سب ایک طرف ہیں میں ایک طرف ہوں
جس پر انہیں بھی ارکان نے دل کھول کر داد دی۔ سپےکر نے ایوان میں ارکان کی ”گپ شپ“ کا نوٹس لےا اور کہا کہا کہ اب ایوان میں ہمیں وقفہ سوالات کی طرح وقفہ بات چیت بھی رکھنا پڑے گا۔