لاہور (ایف ایچ شہزاد سے) صارف عدالتوں کے سالانہ بجٹ میں اضافے اور بجٹ کو ششماہی بنیادوں پر چالیس اور 60 فیصد کے تناسب سے خرچ کرنے کی حکومتی شرط ختم کرنیکا مطالبہ کر دیا گیا۔ کیونکہ اس سے عدالتوں کے امور متاثرہونے کا خدشہ ہے، پنجاب کی11صارف عدالتوں کی انتظامیہ کی طرف سے سیکرٹری صنعت کو بھجوائے گئے خطوط میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے ہر صارف عدالت کیلئے55لاکھ سالانہ بجٹ مختص کیا ہے جن میں40لاکھ روپے تنخواہوں کی مد میں ہیں دیگر متفرق اخراجات کیلئے صرف15لاکھ روپے رکھے گئے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہیں۔ اس پر حکومت نے یہ شرط بھی عائد کر دی ہے کہ ابتدائی چھ ماہ میں بجٹ کا صرف40 فیصد خرچ کیا جائے جبکہ دوسری ششماہی میں بقایا60 فیصد اخراجات کئے جائیں جبکہ ان عدالتوں کیلئے اوور ڈرافٹ کی مد میں بھی ہر طرح کی گرانٹ منظور کئے جانے پر پابندی عائد کر دی۔ حکومتی احکامات کے مطابق مروجہ طریقہ کار پر عمل نہ کرنے والی عدالتوں کے فنڈز روک لئے جائیں گے۔ سیکرٹری صنعت کو خطوط کے ذریعے کہا گیا ہے کہ کسی بھی شرط کے بغیر اس عدالتوں کو بجٹ استعمال کرنے کی اجازت اوراس میں اضافہ کیا جائے۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق لاہور، ملتان، ڈیرہ غازی خان، گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ، سرگودھا، راولپنڈی، بہاولپور، فیصل آباد اور ساہیوال کی صارف عدالتوں کو سال 2016,17ء کیلئے پچپن‘ پچپن لاکھ روپے بجٹ دیا گیا۔ جن میں ہر عدالت کیلئے تقریباً40لاکھ روپے تنخواہ کی مد میں مختص کئے گئے۔ باقی پندرہ لاکھ میں ان عدالتوں کو کمپیوٹرز، ٹائپنگ مشینیں، سٹیشنری، یوٹیلٹی بلز اور متفرق اخراجات پورے کرنے کی ہدایت کی گئی جبکہ الیکٹرانکس مشینری اور نئے آلات کی خریداری کیلئے کوئی فنڈ نہیں رکھا گیا۔ بیشتر عدالتوں کے روز مرہ کے معاملات پرائیویٹ کمپنیوں سے کریڈٹ لے کر اور سینئر وکلاء کی ڈونیشن سے چلائے جا رہے ہیں۔