اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ ایجنسیاں )چیئرمین سینٹ میاں رضاربانی نے کہا ہے کہ کالا باغ ڈیم کے معاملے پر حکومت کسی بیوروکریٹ کی آڑ لینے کی بجائے خود سامنے آئے اور اس مسئلے پر مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب کیا جائے۔ چیئرمین واپڈا کا نام لئے بغیر انکی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ سرکاری ملازم نے بھی کالا باغ ڈیم پر پالیسی کیلئے بیانات دیکر صوبائی اسمبلیوں کی قراردادوں سے انحراف اور آئین کی خلاف ورزی کی ہے ۔ صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کو رول بیک کرنے کی کوشش کی گئی ۔توا س کا نتیجہ میں کہیں ایسا نہ ہو وفاق کی موجودہ سرحدوں میں کوئی تبدیلی آجائے۔ اگر صوبوں کے اختیارات کی منتقلی رول بیک کی گئی تو تاریخ اپنا حساب خود لے گی اور اس سے وفاق کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے ہفتہ کو سینٹ کے 44ویں یوم تاسیس کے موقع پر موجودہ چیلنجز اور سینیٹ کے کردار کے موضوع پر سیمینار سے خطاب میں کیا۔رضاربانی نے کہا کہ ماضی کی بحثوں اور مسائل کو دہراتے رہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ایساصرف اور صرف سول ملٹری بیورکریسی پر مشتمل اشرافیہ چاہتی ہے تاکہ چیلنجز کو کسی نہ کسی طریقے سے دبادیا جائے ۔پاکستان اس نہج پر کھڑا ہے اگر چیلنجز کو قالین کے نیچے چھپانے اور سٹیٹس کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔18ویں ترمیم کے بعد وفاقی سطح پر نصاب بورڈ کا قیام خلاف آئین ہے نصاب مرتب کرنا صوبائی دائرہ اختیار میں ہے۔ جب تک ہم ریاست کے طور پراس کی امنگوں امیدوں کو آئینی طور پر تسلیم نہیں کریں گے وفاق کو مضبوط نہیں کرسکیں گے ۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں سینیٹ کی نمائندگی کوئی احسان نہیں ہے ۔ ایسا 18ویں ترمیم کا تقاضا ہے ۔ سینٹ کے براہ راست انتخابات پر سینیٹ بھی صرف بک بزنس اور ذاتی مفادات والوں کی جگہ بن جائے گا۔ آئین سے انحراف کرتے ہوئے نئے ادارے بنانا مناسب نہیں ہے ۔ کالا باغ ڈیم کے معاملے پر بھی ایک بیوروکریٹ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی توہین کرررہا ہے ۔ تین صوبائی اسمبلیاں کالا باغ ڈیم کے خلاف قرار دادیں منظور کرچکی ہیں میں کسی کے اظہار رائے کا مخالف نہیں ہوا مگر وہ سوچ لیں وہ سرکاری ملازم وہ بھی کنٹریکٹ پر ہے ۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ سینیٹ کو یہ اہم اعزاز حاصل ہے کہ شریعت بل کے نام پر آمریت کا راستہ روکا ایک "صاحب خلیفہ"بننے کے لیے اپنی ذات میں تمام آئینی اختیارات کا ارتکاز چاہتا تھا سینیٹ نے اس شریعت کی آڑ میں اس آمرانہ بل کی سخت مزاحمت کرتے ہوئے بل کو پاس نہ ہونے دیا۔ اجتماعی عصمت دری کے مقدمہ میں ڈی این اے ٹیسٹ کو غیر اسلامی قرار دینے والے مولانا شیرانی زکام یا نمونیہ ہونے پر کیا ہسپتال جا کر اپنے خون کے ٹیسٹ نہیں کروائیں گے پھر ٹیسٹ کیسے غیر اسلامی ہو گئے ۔ حکومت میں اتنی جان نہ تھی کہ وہ غیرت کے نام پر قتل کے بل کو پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کر کے منظور کرا لیتی۔