یا الہی پاکستان کی خیر ہو! ناراض نواز شریف کے گرد انتہا پسند افراد کا گھیرا تنگ ہو رہا ہے جنہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو موٹروے یا ٹرین سے لاہور جانے کا نسبتاً محفوظ ذریعہ اپنانے کی بجائے جی ٹی روڈ پر طاقت کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ کر لیا ہے۔ بارہ کہو میں اپنی مقبولیت کا مظاہرہ دیکھنے کے بعد جناب نواز شریف نے موٹروے سے جانے اور بابو صابو میں جلسہ عام سے خطاب کرنے کی بجائے جی ٹی روڈ پر جگہ جگہ خطاب کرنے اورتماشا لگانے کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ بھی سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی طرح 4گھنٹے کا سفر 24 گھنٹے میں طے کرکے نیا ریکارڈ قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن جناب نواز شریف کے نادان دوست شاید یہ بھول رہے ہیں کہ لانگ مارچ کسی مخالف حکومت کے خلاف نہیں ہے اس میں تحفظ اور امن وامان کی تمام ترذمہ داری ان کے اپنے نامزدکردہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سگے بھائی شہباز شریف پر عائد ہوگی ۔صادق اور امین کی آئینی شق کا کلہاڑا آج سے تین سال پہلے عمران خان پر چلانے کی کوشش کی گئی تھی۔ جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو لاحق خطرات کے بارے میں 14 جولائی 2014ءاس کالم نگار نے جمہوریت 62-63 کی قربان گاہ پر، بارے روزنامہ ایکسپریس میں کچھ یوں عرض کیا تھا"ہمارا پارلیمانی جمہوری نظام ایک بار پھر آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ وزیراطلاعات پرویز رشید تواتر سے جمہوریت کے خلاف سازشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بات ا±دھوری چھوڑ دیتے ہیں‘ کھل کر نہیں بولتے شائد سرکاری منصب کا تقاضا راز داری ہے۔ گذشتہ ماہ ایک دوست نے موجودہ جمہوری نظام کو لپیٹنے کے بارے میں تین متبادل منصوبوں پر مبنی ای میل دکھائی تو اس کالم نگار نے اپنی عجلت پسندی کے ہاتھوں اسے فوری طور پر مسترد کردیا جس میں جمہوریت کواحتساب، پاکبازی اوردیانتداری کی آڑمیں عدالتی کلہاڑے سے ذبح کرنے کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں۔ دبئی میں جنم لینے والی اس ای میل کے خالق نے پیش بندی کے طور پر مختلف اقدامات کرنے کی ہدایات بھی دی تھیں‘ یہ میمو گیٹ سے کچھ کم ای میل دھماکا نہیں تھا جس کو مختلف کردار اب بروئے کار لارہے ہیں۔ ارسلان افتخار صادق و امین کی آئینی شق کا کلہاڑا تھامے الیکشن کمیشن کے سامنے نمودار ہوئے اور تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت ریفرنس دائر کردیا جس میں ماضی کے ایک سکینڈل کو بنیاد بنا کر کہا گیا کہ انھیں نااہل قرار دیا جائے۔ عمران کے خلاف یہ سکینڈل 90کی دہائی میں سامنے آیا تھا۔ اس کالم نگار کو اچھی طرح یاد ہے کہ رمضان کے مقدس مہینے میں اس زمانے کے ایک سینئر صحافی جو اپنے طبعی میلانات اور رحجانات کے ہاتھوں مارے گئے اور شہیدِ صحافت قرار پائے 'اس سکینڈل کے حوالے سے عمران خان کی تصاویر اور کہانیاں لے کر نجی خبررساں ادارے کے دفتر آئے تھے۔ ان دنوں وہاں کرتا دھرتا یہ کالم نگار بھی ہوتا تھا یہ آنجہانی سیتا وائٹ اور ٹیریان خان کی کہانی تھی 20 سال بعد' کامل دو دہائیاں گزریں اور ایک بار پھر رمضان المبارک کے مقدس ایام میں ماضی کے اس سکینڈل کی کہانی کو لے کر 62اور 63 آرٹیکل کی شمشیر لہراتے ہوئے ارسلان افتخار میدان میں اترے تھے۔ بظاہر وہ اپنے والد محترم کے خلاف کپتان عمران خان کی الیکشن 2013 میں مبینہ دھاندلی کے الزامات اور 35 پنکچروں والی کہانی کا توڑ کرنے نکلے ہیں جس کے لیے انھوں نے 25 سال پرانے قضیے کے گڑھے مردے اکھاڑے ہیں۔ نوشتہ دیوار یہ ہے کہ اگر ماضی کے اسکینڈل کے معاملے کو بنیاد بنا کر آئین کے آرٹیکل 62، 63کے تحت عمران خان کے خلاف کارروائی شروع ہو گئی تو پھر تمام ارکان اسمبلی کو اس پل صراط سے گزرنا ہوگا۔ 62،63کی پاکیزہ چھلنی سے ارکان پارلیمان کی غالب اکثریت گزر نہیں پائے گی جس کے نتیجے میں ارکان کے ساتھ قومی وصوبائی اسمبلیاں اور سینیٹ سمیت تمام پارلیمانی ادارے داﺅ پر لگ جائیں گے۔ عدالتوں کے ذریعے جمہوریت کے قتل کی انوکھی داستان رقم کرنے کی سازش ہو رہی ہے اگر منتخب وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کو عدالتی حکم پر گھر بھیجا جا سکتا ہے تو پھر موجودہ جمہوری نظام نے کون سی زرہ بکتر پہنی ہوئی ہے۔ ہے کوئی جو ارسلان افتخار کو اس پرخطر راہ پر جانے سے روکے! اور کوئی نہیں تو سابق چیف جسٹس ہی انھیں سمجھائیں۔ 62،63 کی تلوار بے نیام سے بر ے بھلے جمہوری نظام کو ذبح ہونے سے بچائیے۔ جس کا ہدف صرف عمران خان نہیں ہوگا سب کچھ داﺅ پر لگ جائے گا۔ جمہوریت، پارلیمانی نظام، آزادی اظہار کچھ بھی نہیں رہے گا۔ الحذر کہ مہلت عمل کم ہے!" اب پونی ٹیل وال'جناب رضا ربانی نواز شریف کو نااہل کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے اسمبلیاں ختم کرنے کا نیا طریقہ قرار دے رہے ہیں کہ اب عدلیہ پارلیمان و ایگزیکٹیوز پر حاوی ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ زمانہ قدیم کی سرخ سلام کی اصطلاحیں استعمال کرنے والے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کو پیپلز پارٹی میں جاری زرداری راج کہیں دکھائی نہیں دیتا جب کبھی خالص جمہوریت کے دفاع کا موقع آتا ہے رومانوی انداز میں " پونی ٹیل" اپنائے ہوئے جناب رضا ربانی روتے ہوئے چشم زدن میں فوجی عدالتوں کو آئینی تحفظ کابل پاس کردیتے ہیں ویسے ان کی جمہوریت پسندی کا کچھ ایسا عالم ہے کہ دیکھا نہ جائے ہے موصوف فرماتے ہیں کہ جمہوری قوتوں نے 58 ٹو بی کو ختم کیا تو پارلیمان کو ختم کرنے کا ایک اور طریقہ سامنے آ گیا ہے، پارلیمنٹ سب سے کمزور ترین ادارہ ہے، جس کا دل چاہتا ہے پارلیمان پر چڑھ دوڑتا ہے۔ ایگزیکٹو، عدلیہ اور پارلیمان کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا، آئین کے تحت ریاست کی اولین ترجیح شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کرنا ہے، کسی بھی سویلین کو اسلام آباد یا پنڈی سے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں جب تک 1973کی آئین میں مقررکردہ حدود اور اس کے پیرامیٹرز کو مقدم رکھتے ہوئے تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام نہیں کرتے معاملات درست نہیں ہو سکتے، رضا ربانی نے کہا کہ کسی سویلین کو اسلام آباد اور پنڈی والوں سے حب الوطنی کے سر ٹیفکیٹس لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن وہ آئین' آئین کی رٹ لگاتے ہوئے یہ حقیقت یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اسی دستور نے عدلیہ اور افواج کو ہر قسم کا آئینی تحفظ دیا ہے اب بھی وہ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے متفقہ فیصلے کو غیظ و غضب کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اسی طرح ابلاغی محاذ پر بڑے بڑے نابغے پوری طاقت سے بروئے کار ہیں۔ بچہ جمورا قسم کے کالم نگار اس قسم کی تجزیہ نگاری فرما رہے ہیں " میاں نوازشریف ، ان کی صاحبزادی مریم نوازشریف اور ان کے قریبی مشیر تصادم کے حق میں ہیں۔ میاں نوازشریف خود کسی حلف کے پابند نہیں رہیں گے اور حکومت ان کے پنجے میں ہی رہے گی، زیادہ خطرناک یوں بھی ہو سکتا ہے کہ اب میاں صاحب اور ان کی پارٹی فوج اور اس کے اداروں سے متعلق زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کرسکتے ہیں"۔ اس قسم کی منظر نگاری کرکے قوم کو اور ریاستی اداروں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے دلچسپ بات یہ ہے یہ عزیزی از خود رابطہ کار بھی ہیں مذاکرات کار بھی ہیں کبھی کبھار مصالحت کار کا روپ بھی دھار لیتے ہیں آج کل بوجوہ خالص جمہوریت کے درد میں بری طرح مبتلا ہیں۔ یا الٰہی پاکستان کی خیر ہو اس کا گھیراو¿ چاروں اور سے جاری ہے۔