نقیب اللہ قتل کیس ، وا لد کا اے ٹی سی کے جج پرعدم اعتماد کا اظہار

کراچی (صباح نیوز)سندھ ہائی کورٹ نے نقیب اللہ قتل کیس دوسری عدالت منتقلی کرنے کی درخواست پرفریقین کو نوٹس جاری کرتے سماعت 20 اگست تک ملتوی کردی گئی ۔ پیر کو نقیب اللہ قتل کیس کی منتقلی سے متعلق درخواست کی سندھ ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی،درخواست گزار کے وکیل نے سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا عدالت نے درخواست زیرسماعت ہونے کے باوجود ملزم رائوانوار کو ضمانت دی،عدالت سے استدعا ہے نقیب اللہ قتل کیس کسی دوسری عدالت منتقل کیا جائے۔سندھ ہائی کورٹ نے نقیب اللہ قتل کیس دوسری عدالت منتقلی کرنے کی درخواست پرمحکمہ داخلہ، پراسیکیوٹر جنرل اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 20 اگست تک ملتوی کردی فریقین سے جواب طلب کرلیا۔اس سے قبل دوران سماعت نقیب اللہ کے والد نے انسداددہشت گردی کی عدالت کے جج پرعدم اعتماد کا اظہارکرتے کہا کہ ہماری کوئی درخواست نہیں سنی گئی، مقدمہ کسی اورعدالت منتقل کیا جائے۔یاد رہے کہ 21 جولائی کو قبائلی نوجوان نقیب اللہ قتل میں مبینہ طور پر ملوث مرکزی ملزم اور سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار کو رہا کردیا گیا تھا،انسداد دہشت گردی کی عدالت سے دو مقدمات میں ضمانت ملنے کے بعد جیل حکام نے را انوار کے گھر کے باہر سے سکیورٹی ہٹا دی تھی۔قبل ازیں جیل حکام نے سابق ایس ایس پی ملیر کو رہا کرنے کے احکامات جاری کیے جس کے بعد سپرنٹنڈنٹ سنٹرل جیل نے ملیر سب جیل کے انچارج کو خط لکھا۔اس سے قبل 20جولائی کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم را ئوانوار کو دھماکا خیز مواد اور غیر قانونی اسلحے کے کیس میں 10 لاکھ روپے مچلکے جمع کروانے کے عوض ضمانت دی گئی تھی جس کے بعد انہوں نے 5،5 لاکھ روپے کے ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس پیش کیے تھے، قبل ازیں 10 جولائی کو ایک اور مقدمے میں پہلے ہی عدالت سے ضمانت مل چکی تھی۔راانوار کی جانب سے عدالت سے ضمانت کی درخواست کی گئی تھی، جس میں سابق ایس ایس پی ملیرکی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ جب نقیب اللہ کا قتل ہوا تو وہ جائے وقوعہ پرموجود نہیں تھے، کیس کے چالان جے آئی ٹی اور جیو فینسنگ رپورٹ میں تضاد ہے۔واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر را انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹائون میں پولیس مقابلہ کا دعو یٰ کیا تھا،ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔ البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے را انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔جس کے بعد رائو انوار روپوش ہوگئے اور دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی جوناکام بنادی گئی لیکن پھر چند روز بعد اچانک وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں سے انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔عدالت نے رائو انوار سے تفتیش کے لیے ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی تھی۔نقیب قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے رائو انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرا یا، رپورٹ میں موقف اختیار کیا گیا کہ رائو انوار اور ان کی ٹیم نے شواہد ضائع کیے، ماورائے عدالت قتل چھپانے کے لئے میڈیا پر جھوٹ بولا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ جیوفینسنگ اور دیگر شہادتوں سے رائو انوار کی واقعہ کے وقت موجودگی ثابت ہوتی ہے، رائو انوار نے تفتیش کے دوران ٹال مٹول سے کام لیا۔

ای پیپر دی نیشن