وزیراعظم عمران خان! مسائل اور امکانات

بالآخر جو ہونا تھا، سو وہ ہو گیا، جو لوگ عمران خان کا وزیراعظم بننا مشکل سمجھتے تھے اور اس جولاہے کے بیٹے کی مثال دیتے تھے جسکی ماں نے استفسار پر اسے بتایا تھا ”سارا گاﺅں بھی مر جائے تو ”نمبردار نہیں بن سکتا“ آج مُہر بالب ہیں اور انکی زبان دانتوں کے نیچے دب سی گئی ہے۔ ان میں اکثریت اُن حواریوں، درباریوں، دربانوں اور کاسہ لیسوں کی تھی جنہوں نے ایک طویل عرصہ تک اقتدارکے مزے لوٹے۔ خوشامد ایک فن ہے جسے ان لوگوں نے باقاعدہ سائنس بنا دیا تھا۔ بڑے دُور کی کوڑی لاتے تھے۔ کسی نے میاں صاحب کو پاکستان کا نیلسن منڈیلا کہا تو قبلہ نے اس پر عنایات کی بارش برسا دی۔ کسی نے قائداعظم ثانی کا خطاب دیا اور کرنسی نوٹوں پر ان کی تصویر چھاپنے کا مشورہ دیا تو ”آہو“ کہہ کر حضرت نے گورنر اسٹیٹ بینک کو طلب کر لیا۔
میاں فضلی کے مشورے پر امیرالمومنین بننے سے ”بال بال“ بچے۔ وگرنہ آج خلائی مخلوق کا وہی حشر ہوتا جو حضرت عمرؓ کے دور میں ہوا۔ سپہ سالار خالد بن ولیدؓ کا ہوا تھا۔ قاضی القضاةکو محض انکی آمد پرتعظیماً کھڑا ہونے پر فارغ کر دیا گیا۔ جدّہ میں جلاوطنی کے دور میں جب انہوں نے مجھے پوچھا کہ وطن واپسی پران کا استقبال کیسا ہو گا؟ تو بلو بٹ (سُہیل ضیاء) فوراً بولا۔ ”جس طرح خمینی کا ہوا تھا“! یہ سنتے ہی میاں نواز شریف کے چہرے پر مسرت کی جو لہر اُٹھی وہ اپنے اندر کئی قلزموں کی گہرائی لئے ہوئے تھی۔ یہ واقعات لکھتے ہوئے تھوڑا سا بوجھ محسوس کر رہا ہوں کیونکہ ان پر دورِ ابتلا ہے لیکن وہ جو کہتے ہیں YOU CAN NOT CORRUPT HISTORY (تاریخ کو مسخ نہیں کیا جا سکتا) پھر میں کونسا آج لکھ رہا ہوں۔ گزشتہ دس برس سے اسی طرح کے کالم لکھے ہیں اور مجھے ان کی قیمت بھی چکانی پڑی ہے (آگے بڑھنے سے پہلے ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلیں آسان کرے)
ہر الیکشن میں ”سرپرائز“ کا عنصر تو کسی حد تک ہوتا ہے لیکن موجودہ انتخابات میں جو نتائج آئے ہیں، ان میں کوئی رمز نہاں ہے نہ کوئی بوالعجبی! تمام تجزیہ نگار اس امر پر متفق تھے کہ جیت عمران خان کی ہو گی۔ صرف سیٹوں کی تعداد میں تھوڑا سا فرق تھا۔ سب کا خیال تھا کہ پارلیمنٹ ایک اعتبارسے معلق ہو گی۔ عمران قطعی اکثریت حاصل نہیں کر سکے گا۔ اب بھی حکومت بنانے کیلئے اسے ’ق‘ لیگ ایم کیو ایم اور آزاد امیدواروں کی کمک درکار ہے۔ کسی قدر حیرانی اس بات پر ہے کہ کچھ بڑے برج اُلٹ گئے ہیں۔ شاید خاقان عباسی نے اپنی لُٹیا خود ڈبوئی ہے، یہ کیسا وزیراعظم تھا جو اپنے آپ کو ”ہز ماسٹر وائس“ صرف کہتا ہی نہیں سمجھتا بھی تھا۔ بالفرض کبھی کبھار کوئی درست بات کہہ بھی دیتا تو جاتی امرا سے ڈانٹ پڑنے پر اپنے الفاظ کو واپس لے لیتا، تنہائی کے لمحوں میں یقیناً سوچتا ہو گا کہ وہ امارت کس کام کی جو اسمبلی کی سیڑھیوں تک بھی نہ پہنچا سکے۔ چکری کاچودھری یقیناً نرگیست کا شکار تھا۔ ہر دوسرے دن دو گھنٹے کی پریس کانفرنس الیکٹرانک میڈیا میں زندہ رہنے کا لُطف ہی کچھ اور ہے، اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے والا شخص اکثر ٹھوکر کھاتا ہے۔ شیکسپیئر نے ویسے تو نہیں کہا تھا۔ HUBRIS IS MORTAL,S CHIEFEST ENEMY (ضرورت سے بڑھتی ہوئی خود اعتمادی آدمی کواکثر لے ڈوبتی ہے) ۔ حضرت مولانا کے متعلق کچھ کہتے ہوئے ڈر سا محسوس ہوتا ہے۔ نیک انسان ہیں، کہیں بددعا نہ دے دیں۔ اپنے دوست ملک صاحب سے ذکر کیا تو بولے ”ڈرنے کی ضرورت نہیں! اگر انکی دعاﺅں میںاثر ہوتا تو عمران خان اب تک جلاوطنی اختیار کر چکا ہوتا یا شتر مرغ کی طرح عقل کے ریگستان میں منہ چھپائے پھرتا۔ اپنی شکست کے یہ خود ذمہ دار ہیں۔ ہر تھالی کا بینگن بننے یا ہر دیگ سے چاول چکھنے کے اپنے نقصانات ہیں۔“ سمجھ میں نہیں آتا کہ اب پانچ برس تک انکے شب و روز کیسے گزرینگے؟ اس عاشقی میں عزتِ سادات تو پہلے ہی چلی گئی ہے۔ ’مفتی محمود جیسے جید عالمِ دین، اصول پرست اور راست گو کے بیٹے کو ڈیزل اور مقناطیس جیسے القابات سے نوازا جائے طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔ خواجہ سعد رفیق کو رائی بھر بھی گمان نہیں تھا کہ ایک دن لوہے کے چنے اُنہیں خود چبانا پڑینگے۔ بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا ”ظفر! اسکو آدمی نہ سمجھو جسے عیش میں یادِ خدا اور طیش میں خوفِ خدا نہیں رہتا۔ خواجہ صاحب کا ’ORIGIN‘ بڑا ’HUMBLE‘ ہے۔ اب ان کا شمار لاہور کے چار ستونوں میں ہوتا ہے۔ خدا کا شکر کریں اور بڑا بول بولنے سے گریز کریں۔
مولانا فضل الرحمن نے آل پارٹی کانفرنس بلائی ہے۔ پیپلز پارٹی ’ق‘ لیگ اورایم کیو ایم نے شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ آزاد ارکان بھی شامل نہیں ہوئے۔ مشترکہ اعلامیہ میں مولانا صاحب کا غم و غصہ دیدنی تھا۔ انہوں نے حلف نہ لینے اور ممبران کا راستہ روکنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے مطابق انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ زیادہ زور اس بات پر تھا کہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے ہمہ مقتدر طاقتوں نے ”انجینئرڈ“الیکشن کروائے ہیں۔ پولنگ کے بعد مخالفین کے پولنگ ایجنٹوں کو زبردستی باہر نکال کر عملے نے صندوقوں کو پرچیوں سے بھر دیا۔ اسی قسم کا اظہار ’ن‘ لیگ اور چند دیگر چھوٹی پارٹیوں نے بھی کیا ہے اگر ذرا سا غور کیا جائے تو یہ بے بنیاد الزام ہے اور اس کی بڑی ٹھوس اور ناقابل تردید وجوہ میں -1 پولنگ ROS نے کرایا ہے جو ذمہ دار جوڈیشنل آفیسر ہیں۔ تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ انہیں اوپر سے ہدایات ملی ہیں۔ یہ ناممکن ہے۔ قرائن، شواہد اور کوائف اس کی نفی کرتے ہیں۔جس قسم کی عدلیہ اس وقت ملک میں موجود ہے اس سے زیادہ غیر جانبدار، ایماندار اور کمپیٹنٹ عدلیہ پہلے کبھی نہیں آئی۔ پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر پاک فوج کا عملہ تھا جس کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ یہ انکے فرائض میں شامل تھا کہ کسی قسم کی دھاندلی نہ ہونے دیں اس قدر کثیر تعداد میں باضمیر افسروں اورجوانوں کا ساز باز ہونا ناممکن ہے۔ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ”خلائی مخلوق“ کا آپس میں گٹھ جوڑ تھا۔ اس قسم کے فاسد خیالات صرف ایک ہارے ہوئے تھکے ہوئے ذہن میں ہی پروان چڑھ سکتے ہیں۔ ایک منظم پراپیگنڈے کے تحت یہ تاثر دیا گیا کہ PSP کے مصطفی کمال کو ایک منصوبے کے تحت لایا گیا ہے۔ وہ ایم کیو ایم کا توڑ ثابت ہو گا۔ جیپوں کے نشان والے جیت کر ایک مخصوص کردار ادا کریں گے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ PSP اور جیپوں والوں کامکمل صفایا ہو گیا ہے۔
اگر کسی قسم کی منصوبہ بندی ہوتی تو عمران خان ازخود اکثریت لے لیتا۔ اسے جوڑ توڑ اور ”منت ترلوں“ کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ پنجاب میں ن لیگ صوبائی سیٹیں اس قدر اکثریت سے نہ جیتتی۔ برہنہ گفتار رانا ثناءاللہ تیز طرار ،خواجہ آصف اور رینجرز سے ٹکرانے والا احسن اقبال کبھی کامیاب نہ ہوتے۔
جو لوگ ماضی میں الیکشن کرواتے رہے ہیں انہیں اس امر کا بخوبی پتہ ہے کہ ہر امیدوار کے دفتر میں ہر پولنگ ایجنٹ گنتی کے فوراً بعد فون کے ذریعے اطلاع دے دیتے ہیں کہ اس نے کتنے ووٹ حاصل کئے ہیں۔ گویا نتیجے کے سرکاری طور پراعلان ہونے سے پہلے ہی امیدوار کو پتہ ہوتاہے کہ وہ کتنے ووٹ سے ہارا یاجیتا ہے۔ اگر سرکاری نتیجہ اس سے مختلف ہو تو اعتراض کی گنجائش بنتی ہے۔ پھر کسی ایک آدھ ایجنٹ کو باہر نکالنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ باقی ایجنٹ دھاندلی نہیں کرنے دینگے۔ فوج ایسا نہیں ہونے دےگی ۔ کیمرے سچائی بیان کر دینگے۔ ایک اعتراض یہ ہے کہ کچی پرچیوں پر رزلٹ دئیے گئے۔ سوال یہ ہے کہ آیا کچی پرچی کے نتیجے اور فارم 45 کے رزلٹ میں کوئی فرق ہے۔ اگر ایسا ہوا ہے تو کیس کو عدالتوں میں مﺅثر طریقے سے لڑا جا سکتا ہے۔ ہر پولنگ اسٹیشن کے باہر پریس والے کھڑے ہوتے ہیں۔ نکلنے والا فوراً شورمچا دیتا۔ کیمروں کے سامنے ا پنا بیان ریکارڈ کرواتا....ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اگر اس ملک کی تاریخ دیکھیں تو ہر ہارنے والا دھاندلی کا شور مچاتا ہے۔ اسے اپنی ہار اور مخالف کی جیت ہضم نہیں ہوتی۔ اس قسم کا واویلا کرنا پارٹیوں کے پلان ’بی‘ کا حصہ ہوتا ہے۔ اب ہو گا کیا؟ مولانا کی خواہش کے مطابق ’ن‘ لیگ اور پیپلز پارٹی کے کسی ممبرنے استعفیٰ نہیں دینا۔ سابقہ الیکشن کے برعکس پیپلز پارٹی نے زیادہ سیٹیں لی ہیں۔ سندھ میں یہ آسانی سے حکومت بنائینگے۔ مرکز میں بھی انکی آوازسُنی جائےگی۔ ’ن‘ لیگ کو پتہ ہے کہ تیس سال کی عیش و عشرت کے بعد انہیں ا پوزیشن بنچوں پر بیٹھنا ہو گا۔جتنی کثیر تعداد میں یہ مرکز اور بالخصوص صوبہ پنجاب میں آئے ہیں، حکومت کا نام میں دم کئے رکھیں گے اور انہیں سکون سے حکومت نہیں کرنے دینگے۔ ملک اور معیشت کا جو یہ حشر کر گئے ہیں ان مسائل سے عہدہ برا ہونا کارِدارد ہو گا۔
ان معروضی حالات میں عمران خان کیلئے حکومت کرنا کانٹوں کی سیج ہو گا۔ ذاتی ایمانداری اپنی جگہ، برسوں کی گندگی کو صاف کرنا معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ کہنا آسان ہے، کرنا مشکل۔ قدم قدم پرکوئی نہ کوئی دیوار کھڑی ہو گی۔ مسائل کا کوہ گراں، مصائب، کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر قانونی رکاوٹیں، اپنوں اور غیروں کی ریشہ دوانیاں نسبتاً ناتجربہ کاری، سیماب صفت طبیعت ، اپوزیشن کے گرگان باران دیدہ میاں شہباز شریف کے ’TIRADES ‘ سننے کے قابل ہونگے۔ جو بات خان کے حق میں جاتی ہے وہ فارسی زبان کا پرانا مقولہ ہے۔ ہمت مرداں مردِ خدا ۔ سو میل کا سفر پہلا قدم اٹھانے سے ہی طے ہوتا ہے اوروہ قدم صحیح سمت اُٹھنا چاہئے۔ ایک بات روزِروشن کی طرح عیاں ہے۔ خان ہمت ہارنے والا نہیں، ہتھیار پھینکنے والا بھی نہیں۔ آدمی کو چاہئے کہ ایمانداری اور خلوص نیتی سے کام کرے اور نتائج اس کی ذات پر چھوڑ دے۔
دام ہر موج میں ہے حلقہ صدکام نہنگ
دیکھیں، کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

ای پیپر دی نیشن