عمران کی فتح اور ناکام اہل مذہب و اہل سیاست

عوام مذہبی جماعتوں اور غلو و انتہا پسندی پر مبنی ایجنڈے کو ووٹ دے کر اقتدار اور حاکمیت اعلیٰ کیوں نہیں دیتے ؟ ذوالفقار علی بھٹو کے سوشلزم پر مبنی روئیے کو پذیرائی ملی تھی مگر ان کے اسلامی سوشلزم کے خلاف علماءکے اجتماعی فتوﺅں کے باوجود بھی ووٹ تو عوام نے گناہ گار سے کچھ چسکی لگانے اور پی لینے کا سر عام اعتراف کرنے والے بھٹو ہی کو دئیے تھے۔ عوام خیراتی اداروں ، دینی مدارس درسگاہوں ، مساجد اور ائمہ و خطباءپر وافر دولت نچھاور کرتے ہیں مگر ووٹ کبھی بھی ان کے ایجنڈے اور سیاسی پروگرام کو نہیں دیتے۔ سید عطاءاللہ شاہ بخاری جو اپنے عہد کے نابغہ اور امام خطابت تھے عوام پوری رات ان کو سنتے تھے مگر ان کی پارٹی اور ایجنڈے کو ووٹ نہیں دیا تھا ووٹ تو سیکولر سے لبرل سے مگر اندر سے سچے اور مخلص ریاست مدینہ کے اخلاقی اور اصولوں پر مبنی ضابطوں پر عمل پیرا جھوٹ نہ بولنے والے محمد علی جناح کو دیا تھا۔ محمد علی جناح نے اخلاقی اقتدار پر مبنی اپنے کردار سے ہی ہندوﺅں کو شکست فاش دی تھی اور انگریزوں کو بھی ۔ تازہ انتخابات میں مجھے خوشی ہے کہ ملی مسلم لیگ کا جذبہ رکھنے والے مدبر پروفیسر سعید ، اور مدبر مولانا لدھیانوی اور جذبات سے لبریز مولانا خادم حسین رضوی نے کھل کر انتخابات میں حصہ لیا ہے انہیں ریاست نے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے کر بہت بڑی عوامی خدمت کی ہے بہت سے نام نہاد لبرل اور نام نہاد سیکولر جو مغرب کے این جی اوزچندوں ارو ڈونیشنز کو ہڑپ کرتے رہتے ہیں انکی چیخ و پکار کے باوجود بھی ریاست نے معصوم مذہبی جذبات ، مذہبی انتہا پسندانہ اور فرقہ وارانہ فکر کے حاملین کو بھی کھل کر عوامی عدالت میں جانے کا وافر موقعہ دیا ہے نتیجہ حسب ماضی نکلا کہ عوام دینی مدارس ، مساجد ، ائمہ و خطباء، مشائخ عظام ، علماءکرام، صالحین کی قبروں پر مبنی درگاہوں کو بہت زیادہ عطیات دینے کے باوجود بھی عوام کبھی بھی علماءکو ووٹ نہیں دیتے ۔ کیا مولانا مودودی کو عظیم اسلامی دانشور تسلیم کرنے کے باوجود جماعت کو کبھی عوام نے اقتدار دیا ہے ہاں مذہبی حلقوں میں سے صرف مولانا فضل الرحمان کو مجلس عمل کے ذریعے صوبہ خیبر پختونخوامیں صوبائی مکمل اقتدار اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن راہنما کا نہ صرف اقتدار ملا بلکہ مال و دولت اور اسباب دین کو جمع کرنے میں مولانا فضل الرحمان کی ریاست اور حکمت نے بھرپور مدد کی ہے مگر میرا موقف ہے کہ مجلس عمل کی تخلیق اور صوبائی اقتدار مولانا فضل الرحمان اور قاضی حسین احمد کا ذاتی کارنامہ نہیں بلکہ کور کمانڈر پشاور اور جنرل احسان کی دریافت اور تخلیق شدہ کہانی تھی۔ آج مولانا صدموں سے دو چار ہیں کہ تیرہ سالہ وفاقی کالونی کی رہائش گاہ انہیں مستقل طور خالی کرنا پڑی ہے۔ مگر جنرل احسان کی اس تخلیق اور جنرل پرویز مشرف کے عدم تدبرو فراست پر مبنی اقتدار اعلیٰ نے خود کش حملوں کا عذاب الیم دیا جس طرح جنرل ضیاءالحق اور جنرل حمید گل، ان سے پہلے جنرل جیلانی نے سیاسی دنیا فتح کرنے کے متمنی محمد نوازشریف کو اقتدار دیا اور پھر مسلم لیگ پر مسلط کیا ۔ کہاں اقبال و محمد علی جناح کی مسلم لیگ اور کہاں نوازشریف کی مال ودولت اور نااہلی، کرپشن، الزامات سے دوچار اقتدار لیگ؟ عمران خان نے اپنی ناقابل تسخیر قوت ارادی سے دولت کے صنم کو پاش پاش کردیا۔ عوام مذہبی شدت پسند سیاست سے متنفر ہیں، دو مذہبی، سیاسی، شخصیات سے بھی الگ تھلگ، شریف خاندان سے بھی لاتعلق، جہاں تک مسلم لیگ (ن) کی موجودہ پارلیمانی قوت کی کہانی ہے ذرا موسم تبدیل ہونے دیں، پھر پتہ چلے گا کہ ”حلقوں“ اور تھانے کچہری کی سیاست کرنے والے اراکین پارلیمان کب تک اقتدار دستر خوان سے دور رہ کر صبرو شاکر رہ سکتے ہیں۔ عمران پر اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق اور مدد کا الزام ہے کیا بھٹو صدر سکندر مرزا اور پھر صدر جنرل ایوب خاں کی تخلیق نہیں تھے؟ نوازشریف جنرل جیلانی، جنرل ضیاءالحق، جنرل حمید گل کی تخلیق نہیں تھے؟ جبکہ اصل بات یہ ہے کہ اگر عمران میں فطری قوت ارادی نہ ہوتی، استقامت نہ ہوتی، صبر نہ ہوتا تو انہیں کامیابی کہاں سے ملتی؟ میرا موقف ہے کہ اکیلے جنرلز اور اسٹیبلشمنٹ جزوی کامیاب ایجنڈا تو حاصل کیا مگر مستقبل میں مدبر ایجنڈا ان سے بھی تخلیق نہیں ہوا اسی لئے میں مسلسل جنرلز اور مخلص و سچے سیاسی افکار پر مبنی مجہتدین و مفکرین کے چینی نظام سیاست و اقتدار کی طرح کے عمدہ اجتماع کو ریاست و عوام کے مسائل کا بنیادی راستہ لکھتا رہا ہوں۔ اکیلے جنرل کا اقتدار ہو تو آخر میں ملک توڑتا ہے یا ملک میں خود کش حملے لاتا ہے یا مولانا فضل الرحمن جیسے ذہن و شریعت کو اقتدار کی سیڑھی بنانے والوں کا راستہ بنتا ہے۔ کیا عمران ماضی کے عذاب سے ہمیں پھرنجات دلا سکیں گے۔ کابینہ کی تشکیل اور صوبائی حکومتوں سے ان کے کامیاب یا ناکام ہونے کے اسباب تخلیق ہونگے ۔ تمام دعائیں عمران کیلئے جس کی تحریک انصاف محض ”ہجوم“ ہے پارٹی ہرگز نہیںبلکہ اقتدار پرست کچھ کرپٹ، ابن الوقت، اور سیاسے لوٹے عمران کو گھیرے میں لئے ہوئے ہیں۔ دیکھتے ہیں عمران خاں ان سے کیسے بچتے ہیں۔ اقتدار میں رہ کر عمران اپنی پارٹی کو بنائیں گے یا ملکی مسائل کا حل تلاش کریں گے؟ ووٹ عوام نے تحریک کونہیں صرف عمران خاں کو دئیے ہیں اور عمران نے ہی تو عوام میں تبدیلی کا شعور پیدا کر دیاہے۔ بھٹو کے بعد عمران دوسرا کردار ہے جو عوامی مقبولیت ”وافر“ حاصل کر سکا ہے۔ عمران مہاتیر کو بہت پسند کرتے ہیں۔ آج 90 سالہ مہاتیر اقتدار میں ہے تو 65 سالہ عمران بھی....خدانخواستہ اگر عمران ناکام ہو گئے، اپنے اردگرد کے طوطا چشم کرپٹ اور ہوس اقتدار میں مبتلا دائمی ابن وقتوں کے باعث تو عوام کا خواب تو تعبیر کے بغیر ہی بکھر جائے گا اور پھر سے ہمارے مقدر میں ”جنرلز“ ہی ہونگے۔ جنرل کیانی، جنرل راحیل شریف، جنرل باجوہ کو اقتدار پر قبضے کے نادر مواقع ملے مگر انہوں ان مواقع کو استعمال نہیں کیا بلکہ اہل سیاست کو بار بار اقتدار میں رہنے کا ہی موقعہ دیا ہے مگر شائد 2019ءمیں ہمیں پھر سے بھاری بوٹ آتے دکھائی دیں۔ یہ واجدان ہے نجوم نہیں۔ ایک بار پھر لکھ رہا ہوں۔ آصف زرداری ان کی بہن فریال اور بیٹے بلاول کے اقتدار کا مستقبل تاریک ہے یہی صورتحال شریف خاندان سے وابستہ ہے۔ مخلص ، سچے مسلم لیگی خود کو محفوظ رکھ کر مستقبل کا اثاثہ بننے کی تیاری کریں۔ اپنے خاندان کی مالی حالت کو محفوظ اور بہتر بنائیں۔

ای پیپر دی نیشن