پاکستان اتحادکامستقبل ؟ پرویز الٰہی کی اہمیت

جن انتخابات کے انعقاد کو مشکوک قرار دیا جا رہا تھا، ان کا انعقاد بروقت ہوا۔ بلاشبہ ان انتخابات کے انعقاد کا سہرا چیف الیکشن کمیشنر جسٹس (ریٹائرڈ) سردار رضا خان، نگران وزیراعظم جسٹس (ریٹائرڈ) ناصر الملک،چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے سر جاتا ہے۔ان حضرات اور انکے اداروں نے غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مگر ہم اب تک انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات کی روایت سے باہر نہیں نکل سکے۔قوم نے تحریک انصاف پر اعتماد کیا،ماضی کی طرح ان انتخابات میں بھی بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں ہوئیں۔سب سے بڑھ کر ان انتخابات میں استعمال ہونے والا نیا سسٹم آ ر ٹی ایس بیٹھ گیا۔جس کی وجہ سے نتائج تاخیر کا شکار ہوئے۔بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں سے زیادہ آر ٹی ایس سسٹم کی ناکامی الیکشن کمیشن کے گلے کا پھندا بن گئی۔ نگران حکومت کو بھی اسی وجہ سے جواب دہ ہونا پڑا۔الیکشن کمیشن اس کا جو بھی جواز پیش کرے اور جس پر بھی الزام لگائے اور جو بھی انکواری کرے، یہ اس کی ناکامی ہے۔ ایک سسٹم کو اچھی طرح آزمائے بغیر کیسے لاگو کر دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کی سب سے بڑی کوتاہی سسٹم کا متبادل نہ رکھنا تھا۔ایجنٹوں کو مبینہ طورپرفارم45 نہ ملنا بھی تنازعہ کی وجہ بنا۔مگر یہ ایسی وجوہات نہیں ہیں جن کی بنیاد کے انتخابات کو یکسر مسترد کر دیا جائے۔ٹربیونلز موجود ہیں، انکے بعد عدالتی سسٹم ہے۔ وہاں سے انصاف مل سکتاہے۔سردست ایسا ہو بھی رہا ہے۔ہائیکورٹ نے خواجہ سعد رفیق کی درخواست پر عمران خان کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن روک دیا ہے ۔دس سال تک کشمیر کمیٹی کا چیرمین رہنے والے مولانا فضل الرحمان دو سیٹوں سے ہارگئے ان کو یہ ہار ہضم نہیں ہو رہی۔مسلم لیگ نون کا بیانیہ ووٹ کو عزت دو بالکل درست ہے۔اب بات ووٹ کو عزت دینے کو تسلیم کرنےکی ہے۔ قوم نے تحریک انصاف کو مینڈیٹ تو دیا ہے۔ مسلم لیگ نون تو الیکشن سے قبل بھی دھاندلی کی بات کر رہی تھی۔ انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمان نے بلاتاخیر نتائج کو مسترد کرتے ہوئے دوبارہ الیکشن مطالبہ کردیا۔نتائج مسلم لیگ نون کی خواہشات کے مطابق بھی نہیں تھے۔وہ میاں محمد نواز شریف کونااہل کرانے اور پھر جیل بھجوانے میں عمران خان کا بنیادی کرادر سمجھتی ہے۔ اس کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیاگیا۔ مولانا فضل الرحمن تو حلف اٹھانے کے حق میں بھی نہیں تھے۔ مگر مسلم لیگ نون نے اس حد تک جانے پر تیار نہ ہوئی۔پیپلزپارٹی بادل نخواستہ اس قافلے کی راہرو بنی ہے۔ وہ تحریک انصاف کو کچھ وقت دینے کی حامی ہے۔شدیدمخالفت میں کچھ پارٹیاں اس حد تک جانے کو تیار ہیں،پڑوسی کی بھینس مرنی چاہیے بے شک اپنی دیوار گر جائے۔مولانا فضل الرحمن کے سوا دیگر پارٹیوں بالخصوص پیپلزپارٹی نے حالات کی نزاکت کا اندازہ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کی پارلیمنٹ میں حلف نہ اٹھانے کی تجویز کو مسترد کر دیا۔تحریک انصاف کے خلاف متحد ہونے والی پارٹیاں خود کو گرینڈ اپوزیشن الائنس کہلا رہی ہیںاب نیا نام پاکستان اتحاد رکھا ہے۔پاکستان اتحاددھاندلی کے خلاف جس تحریک کی طرف جا رہا ہے جمہوریت کے حق میں تو خیر وہ بھی بہتر نہیں۔مولانا فضل الرحمن کی تجویز کے مطابق اگر پارلیمنٹ میں حلف نہ لیا جاتا اور زوردار طریقے سے تحریک چلائی جاتی تو جمہوریت کیلئے کئی صدمے سامنے آسکتے تھے۔ زمینی حقیقت بہرحال یہی ہے کہ تحریک انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔ مرکز پنجاب خیبر پی کے میں اکیلے حکومت بنا رہی ہے جبکہ بلوچستان میں مخلوط حکومت کے ساتھ شامل ہو گی۔ سندھ میں تحریک انصاف نہ تو پیپلز پارٹی کی حکومت میں رخنہ اندازی کی پوزیشن میں تھی اور نہ ہی کوئی ایسی اس نے کوشش کی۔مرکز اور خصوصی طور کو پر پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد اپنے منشور اور پروگرام پر عمل نہ کرنے کا اس کے پاس کوئی جواز نہیں رہے گا۔اگر تحریک انصاف اپنے پروگرام پر عمل نہ کر سکی تو یہ اس کے اقتدار کی آخری مدت ہو گی۔یہ اسی طرح راندہ درگاہ ہو جائے گی جیسے مشرف کی قاف لیگ کے بعد پیپلز پارٹی ہوئی۔ پیپلز پارٹی اب بھی ریوائیول کی پوزیشن میں ہے ق لیگ قصہ پارینہ بن چکی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کو اپنی حیثیت منوانے کیلئے ایک طویل عرصہ درکار ہے۔مسلم لیگ نون کے جلد ریوائیول کیلئے ضروری ہے کہ وہ تحریک انصاف کی غلطیوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔اسے تحریک انصاف کی حکومت کو کمزور کرنے کی بجائے اپنی پارٹی کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ پنجاب میں اکثریت کے باوجود مسلم لیگ نون کی حکومت نہ بننا افسوس ناک ہے۔تحریک انصاف کو اکثریتی پارٹی کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہئے تھامگر حقیقت یہی ہے کہ تحریک انصاف کو پنجاب میں بھی اکثریت حاصل ہو چکی ہے۔ تحریک انصاف نے ایک ایک کرکے مسلم لیگ نون کی معمولی سی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا اور خودمطلوبہ اکثریت حاصل کرلی۔ پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے کیلئے قاف لیگ تحریک انصاف کی معاون ثابت ہوئی ہے۔ ق لیگ کی صرف 7 سیٹ تھیں۔جہاں ایک ایک سیٹ کی اہمیت وہ وہاں سات نشستیں بہت ہیں۔ انتخابات میں قاف لیگ کی تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ تھی اس لیے قاف لیگ نے تحریک انصاف کو بلیک میل کرنے کی بجائے اپنی غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا۔ اس پر تحریک انصاف نے بھی اصولی طور پرپرویز الٰہی کو پنجاب کا سپیکر نامزد کر دیا۔پی ٹی آئی کی حکومت کو جن چیلنجز ،پنجاب میں مسائل اور ایک بہت بڑی اپوزیشن کا سامنا ہے اس تناظر میںپرویز الہٰی وزیر اعلیٰ کے بہترین امیدوار ہوسکتے ہیں۔وہ ایک جہاندیدہ سیاستدان اور پنجاب میں پانچ سال بہترین طریقے سے حکومت چلا چکے ہیں۔
علم الاعداد کی روشنی میں تحریک انصاف مرکز اور پنجاب میں بھی حکومت بناتی نظر آتی ہے،یہ تو نوشتہ دیوار ہے تاہم گرینڈ اپوزیشن اتحاداپنی آج کی شکل میں قائم رہتا نظر نہیں آرہا۔وزیر اعظم کے انتخاب سے بھی قبل اس میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔

محمد یاسین وٹو....گردش افلاک

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...